تحریر: مولانا رضی زیدی پھندیڑوی دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی। 61ہجری میں عراق کے کربلا،نینوا نامی صحرا میں حبیب خدا، رحمۃ العالمین حضرت محمد مصطفٰیؐ کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ( 72) ساتھیوں کی عظیم شہادت اسلام کی تاریخ کا بے مثال معرکہ ہے۔جس میں انہوں نے راہِ خدا و اسلام، راہِ حق و عدالت اور جہالت و گمراہی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی انسانیت کو آزاد کرنے کے لئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔اسی لیے حضرت امام حسینؑ نہ صرف مسلمانوں کے دلوں میں مقام و منزلت رکھتے ہیں بلکہ تما م مذاہب اسلامی اور غیر اسلامی آپ کو ایک مرد آزاد کے عنوان سے پہچانتے ہیں۔ آپ کی یاد میں محرم کاچاند نمودار ہوتے ہی عزاداروں کی بستیوں میں غم کا ماحول چھاجاتاہے، عورتیں اپنا زیور اتار کر غم کا حلیہ اختیار کرلیتی ہیں اورجگہ جگہ عزاداری کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ہر طرف سے نوحہ ،مرثیہ اورمجلس کی صدا ئیں آنے لگتی ہیں۔
برصغیر میں شہدائے کربلا کی عزاداری بہت قدیمی ہے۔ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ھ/978ء میں عزاداری سید الشہداء برپا ہونا شروع ہوئی ۔ محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیوں کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران عزاداری تذکرہ کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا امام بارگاہ (عاشور خانہ) بھی وہیں قائم ہوا۔
امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد، اسلامی معاشرے کے درپیش خطروں کو دور کرنا تھا ۔ روح کی بالیدگی اور معنویت کی طرف رجحان کربلا کا وہ عظیم سرمایہ ہے جو کسی اور کے پاس نہیں اسی لئے ہماری تہذیب میں اس غم کی بہت قیمت ہے اور ہماری ثقافت ميں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب و انصار کی مجالس اور عزاداری کا انعقاد، عبادت ہے ۔ کیونکہ عزاداری، معنویت میں فروغ کاباعث ہوتی ہے اور انسان کو انسانیت کے اعلیٰ ترین مدارج تک پہنچانے میں مدد کرتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام پر گریہ و زاری اور حزن واندوہ، باطنی تغیر وجود ميں آنے اور اس کے ساتھ ہی انسان کے روحانی کمال کا باعث ہوتی ہے ۔ اس سے انسان میں تقویٰ اور خدا سے نزدیک کرنے کے مقدمات فراہم ہوتے ہيں۔ اسی طرح عزاداربھی اس مظلوم کے ساتھ ہیں جو عقیدے کی راہ میں موت کو سعادت اور ستمگر کے سامنے تسلیم ہو جانے کو باعث ننگ و عار قرار دیتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا غم ،وہ غم ہے جو ظاہر و باطن میں انسان کے وجود میں ایک ایسا انقلاب پربا کر دیتا ہے کہ انسان بغیر قدروں کے جینے کو موت سے تعبیر کرتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہر مکتب خیال کے لوگ اس کے ساتھ جڑے ہوئےنظر آتے ہیں ۔
اس غم کی عمارت ان انسانی بنیادوں پر قائم ہے کہ جہاں مذہبی، نسلی اور لسانی تنگ نظری کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا بلکہ ہرفرد کے دل کی آوا ز ہے اسی لئے دنیا کی اہم انقلابی تحریکوں میں اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے ۔جس وقت ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا تومہاتما گاندھی نے کہا تھا : ” حسینی اصول پر عمل کرکے انسان نجات حاصل کرسکتا ہے"۔ پنڈت نہرو کہتے ہیں” امام حسین (ع) کی شہادت میں ایک عالمگیر پیغام ہے" ۔ ” ہیروز ورشپ ” کے مصنف کارلائل نے کہاتھا کہ ” شہادت حسینؑ کے واقعہ پر جس قدر غور و فکر کی جائے گی اسی قدر اس کے اعلیٰ مطالب روشنی میں آتے جائیں گے"۔بھارت کے سب سے پہلےصدر ڈاکٹر راجندر پرساد بیدی(۱۸۸۴-۱۹۶۳ء) نے کہا کہ امام حسینؑ کی قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم میراث ہے"۔ بنگال کے معروف ادیب رابندر ناتھ ٹیگور(۱۸۶۱ءتا۱۹۴۱ء)نے کہا: "سچ اور انصاف کو زندہ رکھنے کے لئے فوجوں اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، قربانیاں دے کر بھی فتح حاصل کی جا سکتی ہے، جیسے امام حسین ؑنے کربلا میں قربانی دی؛ بلاشبہ امام حسین انسانیت کے لیڈر ہیں"۔
عزاداری کامطلب،ایک عظیم انقلاب برپا کرنے والے مظلوم کے ساتھ جذبات کے بندھن کو مضبوط کرنا اور ستمگرو ظالم کےخلاف احتجاج کرناہے ۔ شہدا پر گریہ و عزاداری ان کے ساتھ کربلا کےمیدان ميں شرکت کے مترادف ہے اس بناء پر مجالس اور جلوسوں ميں شرکت کرنے والوں میں جو معنوی تبدیلی رونما ہوتی ہے اس سے سماجی تبدیلیوں کے لئے حالات سازگار ہوتے ہیں اور در حقیقت امام حسین علیہ السلام کے اہداف و مقاصد کے تحفظ کے لئے حالات فراہم ہوتے ہیں ۔ شہیدوں کا غم اور خاص طور پر سید الشہدا حضرت امام حسینؑ کا غم ، کربلا کے عظیم واقعہ کو زندہ وجاوید بنانے کا ذریعہ ہے اس غم سے عزاداروں اور حق کے پیشواؤں کے درمیان باطنی بندھن قائم ہوتاہے اور ساتھ ہی لوگوں میں ظلم و ستم سے مقابلے کی روح زندہ ہوتی ہے۔پروردگار سے دعا ہے: پالنے والے بنی آدم کی ہدایت اور ہمیشہ حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرما آمین والحمدللہ رب العالمین۔
آپ کا تبصرہ