۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا رضی حیدر پھندیڑوی دہلی

حوزہ/ امام حسین علیہ السلام آزادی، سچ، حق، انصاف  اور انسانیت کے لیڈر ہیں تب ہی تو  واقعہ کربلا کے بعد سے آج تک ہر ملک،شہر اور ہرقوم و قبیلہ میں ان کا غم اور ذکر پایا جاتا ہے اور تا  قیامت پایا جاتا رہے گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا رضی حیدر پھندیڑوی دہلی نے روز عاشورہ اور حفظ انسانیت کے عنوان سے اپنی ایک تحریر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ تخلیق کائنات سے اب تک تاریخ انسانیت  میں رونماہونے والا عظیم سانحہ  دس محرم 61ہجری روز عاشور کربلا میں پیش آیا جس کے بعد انسانیت ہی نہیں بلکہ کائنات کے ذرہ ذرہ کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور آج تک مغموم ہے۔

جس وقت شہدائے کربلا کے خون کے اثر سے مردہ معاشروں میں روح واپس ہوئی تو انسانیت نےشہادت امام حسین علیہ السلام پر گریہ کیا اور اب تک گریہ کر رہی ہے۔ ویسے تو تاریخ انسانیت میں بہت سے واقعات او ر حوادث رونما ہوئے مگر کسی حادثہ اورشہادت کا اثر دیرپا نہ رہ سکا کیونکہ وہ شہادتیں محض  اپنے ملک، شہر یا خاص مقصد کے لئے تھیں مگر اس سانحہ  کی عمارت ان انسانی بنیادوں پر قائم ہے کہ جہاں  ملکی، شہری، مذہبی، نسلی ، رنگ ، روپ اور لسانی تنگ نظری کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا بلکہ انسانیت کے دل کی آوا ز ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام جس وقت کربلا  کےمیدان میں مردہ معاشرے کے نرغہ میں پھنسے ہوئے تھے تو آپ کواپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں تھی بلکہ  صرف اور صرف بے جان معاشرے کو زندہ کرنے کی فکر میں لگےتھے۔

امام نےمردہ انسانیت کو حیات نو  بخشنے کی خاطر وہ عظیم کارنامہ انجام دیا کہ جس کو سننے کے بعد سنگ دل انسان کی آنکھیں بھی نم ہوجاتیں ہیں۔ تاریخ بشریت نے آج تک  تین دن کی بھوک اور پیاس کے باوجود نہ ایسی خلوص نیت کے ساتھ قربانیاں دیکھیں اور نہ کسی باپ کو چھ مہینے کے بچے کو قربان کرتے دیکھا، نہ ہی کسی چچا کو بھتیجے  کے جنازے کواٹھاتے ہوئے دیکھا، نہ ہی کسی ماموں کو بھانجوں کے جنازے اٹھاتے ہوئے دیکھا اور نہ کسی بوڑھے باپ کو جوان کا جنازہ اٹھاتے ہوئے دیکھا امام عالی مقام جنازے اٹھا تے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے اللھم تقبل منا ھذالقربان ۔ آپ کا یہ عمل صرف اور صرف نوع بشریت کی اصلاح اور  غلامی سے آزادی کی خاطر تھا ۔ بھارت کے سب سے پہلےصدر ڈاکٹر راجندر پرساد بیدی(۱۸۸۴-۱۹۶۳ء) نے کہا کہ امام حسینؑ کی قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم میراث ہے"۔ 

امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا ساتھیوں کی شہادت  کے اثر سے گمراہ لوگوں کو ہدایت، غلاموں کو آزادی  ملی اورحق داروں کو ان کا حق ملا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کہتے ہیں" امام حسین (ع) کی شہادت میں ایک عالمگیر پیغام ہے" یقینا جن معاشروں نے اس پیغام کو لیا وہ غلامی اور بے انصافی کی زنجیروں سے آزاد ہو گئے اور جن معاشروں اور ملکوں نے نہیں سمجھا وہ اسی دلدل میں پھنسے رہ گئے۔ ہیروز ورشپ  کے مصنف کارلائل نے کہاتھا کہ " شہادت حسینؑ کے واقعہ پر جس قدر غور و فکر کی جائے گی اسی قدر اس کے اعلیٰ مطالب روشنی میں آتے جائیں گے"۔

بنگال کے معروف ادیب رابندر ناتھ ٹیگور(۱۸۶۱ءتا۱۹۴۱ء)نے کہا: "سچ اور انصاف کو زندہ رکھنے کے لئے فوجوں اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ  قربانیاں دے کر بھی فتح حاصل کی جا سکتی ہے، جیسے امام حسین ؑنے کربلا میں قربانی دے فتح حاصل کی۔ تب ہی تو دنیا کی اہم انقلابی تحریکوں میں عاشور کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ جس وقت ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا تومہاتما گاندھی نے کہا تھا : حسینی اصول پر عمل کرکے انسان نجات حاصل کرسکتا ہے۔

یقینا امام حسین علیہ السلام آزادی، سچ، حق، انصاف  اور انسانیت کے لیڈر ہیں تب ہی تو  واقعہ کربلا کے بعد سے آج تک ہر ملک،شہر اور ہرقوم و قبیلہ میں ان کا غم اور ذکر پایا جاتا ہے اور تا  قیامت پایا جاتا رہے گا۔ اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ پالنے والے روز محشر تمام عزادروں کو  شہداء کربلا میں محشور فرما آمین والحمد للہ رب العالمین۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Ali mahdi IN 07:21 - 2021/08/19
    0 0
    Subhan allah bohut acha likha he haqeqat me insani rishton ki bunyad imam Husain hen Hoza news ki kaweshen qabool hun