تحریر: خطیب اعظم بانی تنظیم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ
حوزہ نیوز ایجنسی | ہمارے اکثر خواب جھوٹے ہوتے ہیں۔ لیکن انبیاؐ کے خواب سچے ہوتے ہیں۔ خدا وند عالم انبیاؐءکرام اور ائمہؐ کو مختلف ذرائع سے پیغام بھیجتا ہے۔ کسی کے پاس فرشتہ جاتا ہے۔ کسی کے پاس جناب جبرئیل ہی جاتے ہیں جو فرشتوں میں افضل ہیں۔ کسی سے درخت کے ذریعہ باتیں ہوتی ہیں اور کسی سے کسی اور ذریعہ سے گفتگو ہوتی ہے۔ وحی ، الہام ، القا ، تحدیث کی طرح معصوموںؐ کے خواب بھی الہیٰ پیغام رسانی کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔ جناب ابراہیمؐ کا خواب مشہور ہے۔ جناب یوسفؐ کا خواب بھی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اور یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جناب یوسفؐ کو خدا نے خواب کی تعبیر کا علم دیا تھا۔ جناب یوسفؐ کے واقعہ سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبیؐ کا خواب سچا ہوتا ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس کو خدا کی طرف سے تعبیر خواب کا علم دیا جاتا ہے اسی کو تعبیر خواب بیان کرنے کا حق ہے باقی ہم آپ یا تعبیر خواب کی جو کتابیں چھپی ملتی ہیں جن کی نہ کوئی سند ہے نہ بنیاد ، یہ سب تک بندیاں ہیں لگ گیا تو تیر نہیں توتکا۔
امام حسین علیہ السلام اور واقعہ کربلا کے متعلق سچے خوابوں کا ایک سلسلہ کتابوں میں ملتا ہے۔ میں یہاں پر ان میں سے چند خواب نقل کرنا چاہتا ہوں تاکہ نوجوانوں کی معلومات میں اضافہ ہو اور بزرگوں کی دور رس نگاہیں ان واقعات سے نئے نئے سبق حاصل کریں اور معاشرہ کی تعمیر و اصلاح میں ان سے کام لیں۔ کیونکہ واقعہ کربلا کا مقصد اور فائدہ یہی ہے کہ افراد اور معاشرہ کی کرداری ، اخلاقی ، دینی اصلاح اور ترقی ہو۔ ہم حسینیوں کے پاس علم و عمل کے خزانے موجود ہیں جن پر ہماری غفلتوں اور ناواقفیتوں کی گرد جمی ہے۔ ہم ہیرے کو شیشہ سمجھ رہے ہیں اور غیر ان ہیروں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ میں ایک نے بضاعت اور کم علم آدمی ہوں لہذا سب لیاقت واقعات اور اس کے نتائج کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کروں گا۔
پہلا خواب
مشکوٰۃ میں درج ہے کہ ام الفضل زوجہ جناب عباس عم رسولؐ اللہ نے خواب دیکھا کہ آپ کی گود میں جسم پیغمبرؐ کا ایک ٹکڑا جسم مبارک سے جدا کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ آپ یہ خواب دیکھ کر بہت پریشان ہوئیں اور حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ نے اپنا پریشان خواب بیان کیا حضورؐ نے فرمایا تمھارا خواب مبارک ہے۔ انشاء اللہ فاطمہؐ کا ایک بچہ پیدا ہوگا جس کی تم پرورش کروگی۔ چنانچہ چند دن کے بعد امام حسینؐ پیدا ہوئے۔ جن کو میں نے دودھ پلایا۔ قثم ابن عباس ، اور امام حسینؐ رضاعی بھائی ہیں۔
)سبق : اکثر خدائی امور کو ہم اپنے لئے برا سمجھتے ہیں جبکہ ان میں ہماری بھلائی ہوتی ہے(
دوسرا خواب
ناسخ التواریخ میں ہے کہ ہند زوجہ ابو سفیان نے جناب عائشہ کے پاس آ کر اپنا خواب بیان کیا کہ میرے سر پر ایک روشن آفتاب ظاہر ہوا۔ پھر اس آفتاب سے دوسرا آفتاب پیدا ہوا۔ پھر مجھ سے ایک کالاچاندپیدا ہوا اور اس کالے چاند سے دوسرا کالاچاند پیدا ہوا۔ اور دوسرا کالاچاند دوسرے روشن آفتاب کو نگل گیا۔ دنیا تاریک ہو گئی اور کالے ستارے آسمان پر پھیل گئے۔ حضورؐ نے خواب سن کر دو بار فرمایا اے دشمن خدا دور ہو جا۔ دور ہو جا۔ تونے میرے غم میں اضافہ کر دیا۔ تو نے خواب نہیں سنایا ہے بلکہ میرے پیاروں کی سنانی سنائی ہے۔ پھر آپ نے تعبیر بیان فرمائی ۔
پہلا آفتاب علیؐ ہیں دوسرا آفتاب حسینؐ ہیں پہلا کالاچاند معاویہ ہے دوسرا کالاچاند یزید ہے۔ جو میرے فرزند حسینؐ کا قاتل ہے۔ اور شہادت حسینؐ کے بعد بن امیہ کی حکومتیں رہیں گی جو کالے ستارے ہیں۔
)سبق : نبیؐ کے پاس علم غیب ہوتا ہے۔ اور تمام مخالفین علیؐ و اولاد علیؐ دشمن خدا و گمراہ ہیں اور گمراہی پھیلانے کا ذریعہ ہیں۔(
تیسرا خواب
اعثم کوفی ، روضۃ الاحباب ، جیب السیر وغیرہ میں ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام جب صفین کے لئے روانہ ہوئے تو بابل کی زمین سے گزر کر کربلا پہنچے جہاں فرات کے کنارے چند خرمے کے درخت تھے۔ ابن عباس سے پوچھا یہ کون زمین ہے۔ ابن عباس نے کہا مجھے نہیں معلوم۔ فرمایا اگر تم کو معلوم ہو جائے تو تم زار و قطار روؤگے اس کے بعد حضرت امیرؐ خود اتنا روئے کہ ڈاڑھی تر ہو گئی۔ پھر امام حسینؐ کو بلا کر فرمایا آج تمھارا باپ اولاد ابو سفیان کے ہاتھوں شدید تکلیف اٹھا رہا ہے۔ کل تم ان کے ہاتھوں زیادہ شدید تکلیف اٹھاؤ گے۔ صبر کرو بیٹا پھر آپ نے وضو فرمایا۔ چند رکعتیں نماز کی پڑھیں اور تھوڑی دیر کے لئے آرام فرمایا۔
بیدار ہوکر ابن عباس کو بلایا۔ اور فرمایا میں نے عجیب خواب دیکھا ہے کہ کچھ روشن چہروں کے مالک لوگ تلواریں لگائے اور سفیدعلم لئے اترے اور انھوں نے اس سرزمین کے چاروں طرف خط کھینچا۔ اس وقت خرموں کے ان درختوں کی شاخیں زمین پر سر پٹک رہی تھیں اور ایک نہر جس میں تازہ خون بھرا ہے اور میرا حسینؐ فریاد کر رہا ہے۔ اور کوئی اس کی فریاد پر توجہ نہیں کرتا۔ پھر ان روشن چہرے والوں نے کہا کہ اے آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صبر کرو۔ تمھارے قاتل بدترین مخلوقات ہیں۔ اور اے حسینؐ تم کو مبارک ہو کہ جنت تمھارے قدموں کی مشتاق ہو رہی ہے۔ سب روشن چہرے والے میرے پاس آئے اور تعزیت پیش کرنے لگے۔ پھر آنکھ کھل گئی۔
اے ابن عباس رسولؐ نے مجھے خبر دی تھی کہ میں اس زمین پر یہ خواب دیکھوں گا۔ یہاں اولاد فاطمہؐ دفن ہو گی۔ اہل آسمان اس زمین کو کربلا کہتے ہیں۔
اس کے بعد آپ نے زمین کربلا پر جناب عیسیٰ کا آنا مفصل طور پر بیان فرمایا اور اس قدر روئے کہ غش آ گیا۔پھر بیدار ہو کر آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ آپ امام حسین علیہ السلام کو بار بار صبر کی وصیت فرماتے تھے۔
)سبق : جناب امیرؐ بھی پیغمبر کی طرح علم غیب کے مالک تھے اور حضورؐ نے آپ کو رتی رتی واقعات کی خبر دی تھی۔آپ نے زمین کربلا میں واقعہ کربلا سے پہلے امام حسینؐ اور دوسروں کو واقعہ کربلا کی خبر دی۔ اور واقعہ کے شروع اور آخر میں آپ کا نماز پڑھنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ واقعہ کربلا کا تذکرہ کرنے والوں کا فرض ہے کہ پابند صوم و صلوۃ ہوں اور پابند دین ہوں (
چوتھا خواب
تاریخ محمد ابن ابی طالب میں ہے کہ امام حسین علیہ السلام مدینہ سے چلنے سے پہلے بار بار قبر پیغمبرؐ پر گئے۔ ایک بار قبر پر سو گئے اور خواب میں حضورؐ کو دیکھا۔ حضورؐ نے امام پر سلام فرمایا اور فرمایا تمہارے باپ بھائی میرے پاس آ چکے اب ہم تمھارے مشتاق ہیں۔ بیٹا جلدی آؤ۔ ہمارے ساتھ جنت میں تمھاری بھی ایک جگہ ہے ۔ جس تک تم بغیر شہادت نہیں پہنچو گے۔ آؤ بیٹا جلدی آؤ۔
)سبق : خدانے جنت کے سردار کے لئے یہ راستہ کہ شہادت سے گزر کر جنت میں تشریف لائیں اسی لئے معین فرمایا ہے کہ ہم اس بات کا یقین کر لیں کہ بغیر عمل کوئی مومن جنت میں جانے کا خیال نہ کرے۔(
پانچواں خواب
تاریخ خمیس اور اسد الغابہ میں ہے کہ جناب عبد اللہ ابن جعفر نے جب امام حسینؐ علیہ السلام کو سفر سے روکنے پر اصرار کیا تو آپ نے فرمایا کہ خواب میں نانا نے مجھے ایک حکم دیا۔ جس کی تعمیل کے لئے مجھے یہ سفر کرنا ضروری ہے۔
مقتل ابی مخنف میں ہے کہ جب جناب محمد حنفیہ نے آپ کو مدینہ سے روانگی کے وقت روکا تو آپ نے فرمایا کہ خواب میں نانا نے مجھ کو سینہ سے لگایا۔ میری پیشانی چومی اور فرمایا بیٹا عراق کا سفر کرو۔ کیونکہ الہیٰ فیصلہ یہی ہے کہ تم کو تمھارے خون میں لتھڑا ہوا اور شہید دیکھے یہ سنتے ہی محمد حنفیہ تڑپ کر روئے اور مہار ناقہ چھوڑ دی اور عرض کی حضور تشریف لے جائیں مگر عورتوں کو کیوں ساتھ لے جا رہے ہیں۔ فرمایا خدا ان کو بھی اپنی راہ میں سخت قید و مشقت کی حالت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ محمد حنفیہ روئے اور امامؐ کو رخصت کر دیا۔
چھٹا خواب
قصر بنی مقاتل سے روانہ ہو کر راستہ میں امام حسینؐ نے جناب علی اکبرؐ سے اپنا خواب بیان فرمایا کہ بیٹا میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا وقت شہادت قریب ہے۔ جناب علی اکبرؐ نے کہا جب ہم حق پر ہیں تو ہم شوق سے راہ خدا میں جان دیں گے۔ امامؐ نے اپنے فرزند کو دعا دیتے ہوئے فرمایا خدا نے بیٹوں کو ان کے باپ کی طرف سے جو جزائیں دی ہوں ان جزاؤں میں سب سے بہتر جزا خدا تم کو دے۔
آخری خواب
جب ۹ / محرم کو پسر سعد نے فوج کو حملہ کا حکم دیا تو فوج خیموں کی طرف بڑھ رہی تھی اور امامؐ جناب زینبؐ سے فرما رہے تھے کہ میں نے ابھی ابھی خواب دیکھا ہے کہ نانا میرے مشتاق ہیں جناب زینبؐ بے قرار ہو کر رو رہی تھیں۔ آپ نے صبر کی وصیت کرتے ہوئے آخری فقرہ فرمایا کہ اے بہن صبر کرو تاکہ دشمن میری شماتت نہ کر سکے اور میرا مذاق نہ اڑا سکے۔
امامؐ اپنی بہن کو جانتے تھے کہ ان کا کوئی کام دشمن کو ہنسنے کا موقع نہیں دے سکتا لیکن شاید امامؐ اپنی ترجمانی کے ذریعے اپنے غلاموں ، عزاداروں ، شیعوں کو پیغام دے رہے تھے کہ ایسے کام نہ کرنا کہ تمھاری وجہ سے دشمن ہمارا مذاق اڑا سکے۔
اے کاش ہم اپنے امامؐ کی آرزو پوری کرتے۔
مقالات خطیب اعظم رہ
جلد: 4 صفحہ: 75
ناشر: تنظیم المکاتب لکھنو
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔