۲۵ آذر ۱۴۰۳ |۱۳ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 15, 2024
حزب الله يعلن استهداف تحركات لجنود "إسرائيليين"

حوزہ/اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تنازع ایک پیچیدہ سیاسی، مذہبی اور سماجی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ 1982ء میں جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا اور وہاں کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا تو یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی قوانین کے خلاف تھا، بلکہ لبنان کی خودمختاری اور اس کی عوام کے لیے بھی ناانصافی تھی، اسی تناظر میں حزب اللہ کا قیام ہوا، جو ایک مزاحمتی تحریک کے طور پر ترقی پا کر اسرائیل کی قبضہ کردہ زمین کو واپس لینے کے لیے کوشاں رہی۔

تحریر: سید ساجد حسین محمد

حوزہ نیوز ایجنسی| اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تنازع ایک پیچیدہ سیاسی، مذہبی اور سماجی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ 1982ء میں جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا اور وہاں کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا تو یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی قوانین کے خلاف تھا، بلکہ لبنان کی خودمختاری اور اس کی عوام کے لیے بھی ناانصافی تھی، اسی تناظر میں حزب اللہ کا قیام ہوا، جو ایک مزاحمتی تحریک کے طور پر ترقی پا کر اسرائیل کی قبضہ کردہ زمین کو واپس لینے کے لیے کوشاں رہی۔

زمین کا دفاع کرنا ہر ملک اور کمیونٹی کا اخلاقی اور قانونی حق ہے۔ لبنانیوں کے لیے اپنے وطن کو غیر ملکی طاقتوں سے بچانا ضروری تھا اور حزب اللہ نے اسی احساس کے ساتھ اپنی تحریک کی شروعات کیں۔ اس تنازع کے دوران، حزب اللہ کا بنیادی مقصد اپنی زمین کی حفاظت اور اسرائیل کے قبضے کی مخالفت تھا۔ اپنی زمین کو واپس لینے کی لڑائی میں کسی کمیونٹی کا مزاحمت کرنا غلط نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ ان کی زمین اور زندگی کے تحفظ کا سوال ہے۔

اسرائیل نے تاریخ میں کئی بار، تنازع کے دوران بڑے پیمانے پر فضائی حملے اور فوجی کارروائیاں کیں، جن میں بچوں اور معصوم شہریوں کی جانیں گئیں۔ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں کئی بار ان مقامات کو نشانہ بنایا گیا، جہاں عام شہری رہتے تھے۔ ایسے معاملات میں، خاص طور پر 2006 کی لبنان جنگ کے دوران، بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں نے اسرائیل کی بربریت کی تنقید کی، جس میں بچوں اور معصوموں کا قتل کیا گیا، یہ حملے نہ صرف غیر قانونی تھے، بلکہ انسانیت کے خلاف بھی تھے۔ اسرائیل کی جانب سے ان بے گناہ شہریوں کا مارنا ایک ایسا جرم ہے جسے بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرم مانا جانا چاہیے۔

اس کے برعکس، حزب اللہ نے ہمیشہ یہ یقینی بنانے کی کوشش کی کہ ان کی لڑائی صرف فوجیوں اور قبضہ کرنے والی قوتوں کے خلاف ہو۔ کوئی بھی رپورٹ یہ ثابت نہیں کر سکتی کہ حزب اللہ نے جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنایا ہو، جبکہ اسرائیل نے کئی بار شہری آبادی پر حملے کیے ہیں۔ اس دوہرے معیارات کو سمجھنا ضروری ہے کہ کون اپنے حقوق کا دفاع کر رہا ہے اور کون بے گناہ شہریوں پر حملہ کر رہا ہے۔

اسرائیل کا بچوں اور شہریوں کو مارنا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے، بلکہ یہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ حزب اللہ کے تنازع کو محض دہشت گردی کے طور پر دیکھنا ایک سٹیریو ٹائپ ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے حقوق اور زمین کا دفاع کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .