۱۳ مهر ۱۴۰۳ |۳۰ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Oct 4, 2024
News ID: 402887
30 ستمبر 2024 - 23:31
سید حسن نصر اللہ

حوزہ/سید عباس موسوی کو بھی شہید کر کے غاصب اسرائیل یہ سمجھتا تھا کہ وہ اپنی اس دہشت گردی اور درندگی کے ذریعے اہل مقاومت کے حوصلوں کو پست کر دے گا مگر؛ جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں  ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے

تحریر: مولانا سید احسان احمد (امام جمعہ ہیگڑے نگر بنگلور)

حوزہ نیوز ایجنسی | شہید عباس موسوی، جو حزب اللہ کے سابق جنرل سیکرٹری تھے، 16 فروری 1992 کو صیہونی حملے میں شہید ہوئے۔ انہیں اور ان کے خاندان کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ لبنان کے جنوبی علاقے میں ایک کار میں سفر کر رہے تھے، ہوا یہ تھا کہ جب وہ جنوبی لبنان کے ایک گاؤں میں ایک عوامی تقریب سے خطاب کر کے واپس جا رہے تھے، اسی دوران غاصب اسرائیلی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے ان کی گاڑی پر میزائل حملہ کیا، اس حملے میں شہید عباس موسوی کے ساتھ ان کی بیوی، ان کے چھوٹے بیٹے اور کئی ساتھی بھی شہید ہو گئے۔

اسرائیل یہ سمجھتا تھا کہ وہ اپنی اس دہشت گردی اور درندگی کے ذریعے اہل مقاومت کے حوصلوں کو پست کر دے گا مگر؛

جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں

ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے

اسرائیل نے آج تک اپنی سابقہ حماقتوں سے سبق حاصل نہیں کیا اور وہ اپنی بے رحمانہ، سفاکانہ اور دہشت گردانہ غلطیاں دھراتا جا رہا ہے۔

کل بھی عباس موسوی کی شہادت حزب اللہ کے لیے ایک بڑا نقصان واقع ہوئی تھی، لیکن ان کی شہادت کے بعد شہید حسن نصر اللہ کو سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا، جنہوں نے حزب اللہ کی قیادت کو مزید مضبوط کیا اور تنظیم کو نئی بلندیوں پر پہنچایا اور حزب اللہ پہلے سے کہیں زیادہ مقاومت کا استعارہ بن گئی۔

سید عباس موسوی کی شہادت کو حزب اللہ اور اس کے حامیوں کے درمیان مقاومت کی علامت کے طور پر یاد کیا جانے لگا اور حسن نصر اللہ، حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری کے طور پر، اپنی قیادت کے دوران کئی اہم کاموں کے لیے جانے جانے لگے۔ انہوں نے عسکری، سیاسی اور سماجی محاذوں پر حزب اللہ کو مضبوط کیا، اور لبنان کے اندر اور باہر تنظیم کی اہمیت میں اضافہ کیا، ان کی قیادت میں حزب اللہ کو لبنان میں ایک طاقتور قوت اور عالمی سطح پر ایک اہم تنظیم کے طور پر تسلیم کیا گیا، وہ فلسطین ہی نہیں، بلکہ دنیا کے محرومین و مستضعفین و مظلوم کے دلوں کی ڈھڑکن بن گئے۔

شہید سید حسن نصر اللّٰہ کے چند اہم کارنامے یہ ہیں:

صیہونیوں کے خلاف مزاحمت کی قیادت:

سید المقاومہ شہید حسن نصر اللہ کی سب سے بڑی کامیابی صیہونیوں کے خلاف مزاحمت میں ہے، ان کی قیادت میں حزب اللہ نے 1992 اور 1999 کی دہائی میں غاصب اسرائیلی افواج کے خلاف کامیاب گوریلا جنگ لڑی۔ اس جنگ کے نتیجے میں ان کا بڑا بیٹا ہادی 1997 میں اٹھارہ برس کی عمر میں اسرائیلی حملے میں شہید ہوگیا۔

2000 میں غاصب اسرائیل نے جنوبی لبنان سے بڑی رسوائی کے ساتھ اپنی فوجیں واپس بلا لیں، جو نصر اللہ اور حزب اللہ کے لیے ایک بڑی فتح تھی۔

2006 میں غاصب اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 33 دن کی جنگ ہوئی، جسے "جولائی جنگ" یا "33 روزہ جنگ" بھی کہا جاتا ہے، اس جنگ کے دوران حزب اللہ نے اسرائیل کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا، جس میں حوزہ علمیہ قم و نجف کے اس شیر دل طالب علم نے اسرائیل کو دھول چٹا دی، آج بھی یہ جنگ ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔

حزب اللہ کو ایک سیاسی جماعت میں تبدیل کرنا:

شہید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کو محض ایک عسکری تنظیم سے نکال کر ایک سیاسی جماعت میں تبدیل کیا۔ 1992 میں، حزب اللہ نے پہلی بار لبنانی پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد حزب اللہ لبنان کی سیاست میں ایک اہم جماعت بن گئی اور کئی بار کابینہ میں شامل ہوئی۔

سید حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے لبنان میں شیعہ مذہب کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور اسے ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم فراہم کیا۔

عوامی حمایت اور خطابت:

شہید حسن نصر اللہ ایک بہترین خطیب اور عوامی رہنما کے طور پر جانے پہچانے گئے، ان کی تقریریں نہایت پرجوش اور جذباتی اور امنگیں پیدا کرنے والی تھیں، جس نے انہیں لبنان اور دیگر عرب دنیا میں بے پناہ عوامی حمایت اور مقبولیت دلائی۔ ان کی تقریروں نے حزب اللہ کے پیغامات کو پھیلانے اور اسرائیل اور مغرب کے خلاف مزاحمت کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

مدافع حرم :

2011 میں شروع ہونے والی شام کی خانہ جنگی میں حزب اللہ نے اہم کردار ادا کیا، شہید حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں اپنی فوجیں بھیجیں اور مختلف محاذوں پر باغیوں اور داعش کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ اس طرح وہ مدافع حرم بھی کہلائے اور اُنھوں نے شام میں حزب اللہ کی عسکری طاقت کو بڑھایا اور اس طرح شہید نصر اللہ شام میں بھی ایک اہم عسکری رہنما کے طور پر اور زیادہ نمایاں ہوگئے۔

سماجی کام:

شہید حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے لبنان میں سماجی اور فلاحی کاموں کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کیا، جن میں، اسپتال اور تعلیمی ادارے شامل ہیں، معاشی امداد، خاص طور پر جنگ سے متاثرہ علاقوں میں، اس سماجی کام نے حزب اللہ کو لبنان میں مضبوط عوامی حمایت اور عوام الناس کے دلوں میں محبت عطا کی۔

بین الاقوامی اثر و رسوخ:

شہید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کو ایک ایسی تنظیم کے طور پر پیش کیا جو صرف لبنان تک محدود نہیں، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ اور عالمی سطح پر اسرائیلی اور مغربی مداخلت کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔ الحمد للہ ان کی قیادت میں ہی حزب اللہ کی کارروائیاں اور اثر ورسوخ لبنان سے باہر فلسطین، شام اور دیگر عرب ممالک دنیا تک پھیل چکے ہیں۔

اسرائیل کے خلاف جنگی حکمت عملی:

شھید حسن نصر اللہ نے صہیونیوں کے خلاف گوریلا جنگ کی حکمت عملی اپنائی، جس میں سرنگیں بنانا، راکٹ حملے اور جدید عسکری تکنیکوں کا استعمال شامل تھا۔ حزب اللہ کی اس حکمت عملی نے صیہونیوں کو بھاری نقصان پہنچایا اور تنظیم کو ایک مضبوط فوجی قوت کے طور پر تسلیم کیا۔

ان کو کئی مرتبہ شہید کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن آخر 27 ستمبر 2024 کو مقاومت کا یہ سورج شہادت کی ابدی معراج پر پہنچ کر لازوال ہوگیا، اب اس کی شہادت کی تابناک کرنوں سے ظلم و ستم کے اندھیرے خوف زدہ ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .