حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اہل بیتؑ عالمی اسمبلی کے رکن حجۃ الاسلام والمسلمین علی رضا ایمانی مقدم نے سید حسن نصراللہ کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انہوں نے لبنان میں شیعہ اور سنی برادریوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مشہد مقدس میں سید مقاومت، شہید سید حسن نصراللہ کے چہلم کی مناسبت سے ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر علماء، اساتذہ، حوزہ علمیہ خراسان کی اعلیٰ کونسل کے چند اراکین، اور متعدد ائمہ جماعات شریک ہوئے۔ تقریب میں شہید سید حسن نصراللہ کی شخصیت اور خدمات پر مبنی ایک کتاب کی رونمائی بھی کی گئی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سید حسن نصر اللہ کے دوست حجۃ الاسلام والمسلمین علی رضا ایمانی مقدم نے سید حسن نصر اللہ کی خدمات اور جدوجہد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے حضرت فاطمہ زہراؑ کی شہادت کی مناسبت سے تعزیت پیش کی اور شہید نصراللہ کے ساتھ گزارے لمحات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ جہاد اور مقاومت کے محاذ پر موجود رہے۔
انہوں نے بتایا کہ سید حسن نصراللہ 1977 میں لبنان واپس آئے اور شہید سید عباس موسوی کے ساتھ مل کر بعلبک میں ایک حوزہ علمیہ قائم کیا۔ 1982 میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف لبنانی عوام کے ساتھ مل کر ایرانی افواج کی مدد سے مزاحمتی تحریک کو منظم کیا اور حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔
حجۃ الاسلام ایمانی مقدم نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سید حسن نصراللہ کو ایک مکتب قرار دیا، جیسا کہ انہوں نے شہید قاسم سلیمانی کے بارے میں فرمایا تھا۔ انہوں نے کہا: "رہبر انقلاب سید حسن نصراللہ کی شہادت پر گہرے غم کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں ان کے لیے اب بھی سوگوار ہوں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ شہید سید حسن نصراللہ صرف لبنان اور شام تک محدود نہیں رہے بلکہ عالمی سطح پر آزادی کی تحریکوں کے لیے ایک مشعل راہ تھے۔
عالمی اہل بیتؑ اسمبلی کے رکن نے شہید کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی اخلاص اور ولایت کے ساتھ گزر رہی تھی۔ انہوں نے لبنان میں شیعہ اور سنی برادریوں کے درمیان اتحاد و ہم آہنگی پیدا کی اور صہیونی ریاست کے خلاف جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا۔