حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ اور جامعۃ المصطفیٰ کے استاد و محقق حجۃ الاسلام والمسلمین مجتبیٰ نجفی نے ایک تحریر میں شہید آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کی پہلی برسی کے موقع پر ان کی شخصیت اور خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
انہوں نے تحریر کیا:
شہید آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی، اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر، کی شہادت کو ایک سال گزر چکا ہے۔ وہ مردِ مومن جس نے اخلاص اور استقامت کے ساتھ عوام کی خدمت کو اپنا دینی فریضہ سمجھا اور عدل و انصاف کی راہ میں کبھی بھی حق سے پیچھے نہ ہٹے۔ یہ تحریر ایک ملت کے جذبات کی ترجمان ہے جو اب بھی ان کے فقدان کا درد دل میں محسوس کرتی ہے۔
آیت اللہ رئیسی نے نوجوانی ہی سے علم دین اور عدلپسندی کے جذبے کے تحت فقاہت کی راہ اپنائی۔ انہوں نے حوزہ علمیہ قم کے ممتاز اساتذہ خصوصاً شہید آیت اللہ بہشتی سے استفادہ کیا، اور مظلوموں کی حمایت و حقطلبی کو اپنی زندگی کا شعار بنایا۔ ان کی شخصیت میں اخلاص، صداقت، قاطعیت اور عوام دوستی نمایاں تھی۔ ان کی عوام کے لیے عاجزی، محروموں کے لیے ہمدردی، اور بدعنوانی کے خلاف پختہ عزم نے انہیں ایرانی قوم کے دلوں میں بسا دیا۔
وہ اپنی تمام ذمہ داریوں، بالخصوص عدلیہ کی صدارت اور صدارتِ جمہوریہ کے دوران، عدالت کے بڑے حامی اور مدافع کے طور پر جانے گئے۔ انہوں نے استقامت کے ساتھ بدعنوانی کے خلاف جہاد کو اپنی ترجیح بنایا اور حکومتی ڈھانچے کو عوامی خدمت کے لیے مؤثر بنانے کی سعی کی۔
خارجہ پالیسی میں بھی ان کا کردار نمایاں رہا۔ انہوں نے محورِ مقاومت کو مضبوط کیا اور دنیا کے مظلوموں خصوصاً فلسطین، لبنان اور یمن کے عوام کی بھرپور حمایت کی۔ ان کا مؤقف تھا کہ ایران کو مظلوم اقوام کے ساتھ کھڑا رہنا چاہیے اور ظلم کے مقابلے میں خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ اقتصادی میدان میں، سخت ترین پابندیوں کے باوجود، انہوں نے ملک کو بیرونی انحصار سے نجات دلانے، داخلی پیداوار کی حمایت اور عوام کی معیشت بہتر بنانے کی کوششیں کیں۔
ان کی شہادت کی خبر، جو ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں پیش آئی، نے نہ صرف ایرانی قوم بلکہ دنیا بھر کے مظلوم عوام میں غم و اندوہ کی لہر دوڑا دی۔ ان کی وفات صرف ایران کا نقصان نہ تھی بلکہ وہ ان رہنماؤں میں سے تھے جو راہِ حق کی کٹھن راہوں کے مسافر ہوتے ہیں۔ ایران اور بیرون ملک میں ان کی یاد میں منعقدہ تعزیتی تقاریب اس بات کی گواہ تھیں کہ ان کی شخصیت نے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا۔ ملک بھر سے ہزاروں سوگواروں نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ ان کی یادگار تقریبات میں شرکت کی۔
شہادتِ آیت اللہ رئیسی، آئندہ نسلوں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ وہ عدالت، مزاحمت اور ظلم کے خلاف استقامت کی راہ کو جاری رکھیں۔ ان کی میراث صرف سیاسی فیصلوں میں نہیں بلکہ عوامی خدمت، عدالت پسندی اور خاکساری میں نمایاں ہے۔
آیت اللہ رئیسی صرف ایک صدر نہ تھے بلکہ وہ عدل، مزاحمت اور خدمت کا استعارہ تھے۔ اگرچہ ان کی شہادت ایک المناک سانحہ ہے، لیکن ان کا نام اور یاد ایرانی قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس تحریر کا اختتام شہید رئیسی کے ایک جملے سے ہوتا ہے:
"ہم آئے ہیں تاکہ عدالت کو نافذ کریں، کسی دھمکی سے نہیں ڈرتے اور جب تک جان باقی ہے، عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔"
یہ تحریر ہر اُس شخص کے لیے پیغام ہے جو عدل کے درد سے آشنا ہے کہ شہداء کا راستہ کبھی رکتا نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ شہداء کا خون ہمیشہ معاشرے کو نئی زندگی دیتا ہے اور راہِ حق کو روشن کرتا ہے۔









آپ کا تبصرہ