۱۳ مهر ۱۴۰۳ |۳۰ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Oct 4, 2024
سید ایمان احمد

حوزہ/ یاد رکھیں، شہید کا خون مٹی میں گم نہیں ہوتا بلکہ ظلم کے تخت و تاج کو ہلا دیتا ہے۔ ہر شہادت کے بعد آپ نے دیکھا کہ آپ پہلے کے مقابلے میں قوی تر ہوتے رہے ہیں کیونکہ یہ قربانیاں فرد کو فانی اور قوم کو ابدی بنا دیتی ہیں روحانی جنگیں مادی جنگوں کو شکست دیتی ہیں۔

تحریر: مولانا سید ایمان احمد

حوزہ نیوز ایجنسی | سید حسن نصر اللہ کی شہادت نے دلوں کو رنجیدہ کر دیا ہے، لیکن یاد رکھیے کہ شہادت ہماری رگوں میں بہنے والا وہ خون ہے جو ہمیشہ عظمت کی بنیاد بنتا ہے۔ تاریخ اس پر مہر ثبت کرتی ہے کہ شہادتوں کے بعد فتح کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہ صرف ایک شہید کی بات نہیں ہے، حال ہی میں دنیا نے اس مجاہد سے قبل ایرانی صدر شہید ابراہیم رئیسی، قاسم سلیمانی، اور اسماعیل ہنیہ جیسے عظیم قربانیوں کو دیکھا ہے۔

‎آپ مایوسی کو دل میں جگہ نہ دیں، اس سے پہلے بھی ہمارے عزیز و عظیم ہستیاں راہِ خدا میں شہید ہوتی آئی ہیں۔ خونِ شہداء کے مقدس لہو نے انسانیت کی روح کو زندگی کی روشنی عطا کی ہے،۔ ماضی کو یاد رکھیے،کے ہر بار عظیم شہادتوں کے بعد دلوں میں یہ سوال ابھرا کہ اب قوم کا کیا ہوگا؟

آپ کو معلوم ہے کے ایران و عراق نے اپنے بہت سے نایاب عزیزوں کو راہِ خدا میں قربان کیا ہے۔ انقلابِ اسلامی سے قبل اور بعد میں، آیت اللہ خمینی (رح) نے بھی اپنے بہت سے قریب ترین افراد کو کھویا ہے، جن میں ان کے فرزندِ عزیز سید مصطفی خمینی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، عباس بابائی، شہید ابراہیم ہادی، شہید چمران جیسے نایاب گوہر بھی اس ملت کے دامن سے بچھڑ چکے ہیں۔

‎یہی نہیں بلکہ انقلاب کی کامیابی میں 17 ہزار خواتین شہداء کا بھی حصہ ہے جن کی قربانیوں نے حیرت انگیز مناظر تخلیق کیے، انہیں بھی ہم نے کھو دیا۔

‎ایران میں بہشتِ زہرا اور دیگر مقامات پر لاکھوں گمنام شہداء دفن ہیں، انہیں بھی ہم نے کھویا۔

‎آیت اللہ شہید بہشتی، آیت اللہ مطہری، شہید محمد باقر الصدر، اور شہید موسٰی الصدر، جنہیں لیبیا سے لاپتہ کر دیا گیا اور آج تک ان کا کوئی پتہ نہیں چلا، انہیں بھی ہم نے کھو دیا۔

‎خاندانِ آیت اللہ محسن الحکیم کے 118 سے زائد افراد کو شہید کیا گیا، ہم نے انہیں بھی کھو دیا۔

‎آیت اللہ باقر الصدر کی بہن کو ان کے سامنے بے دردی سے شہید کیا جارہا تھا اور بہن کہتی رہیں ،بھائی آپ سر تسلیم خم نہ کریے گا، ہم نے انہیں بھی کھو دیا۔

‎جب آیت اللہ خمینی (رح) دنیا سے رخصت ہوئے تو اس وقت بھی دنیا نے کہا، اب کیا ہوگا؟ تو ہم نے آیت اللہ خامنہ ای کو ان کا جانشین دیکھا، اور ہم نے آیت اللہ خمینی (رح) کو بھی کھو دیا۔

‎32 سال پہلے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید عباس موسوی کو شہید کر دیا گیا تو اسرائیل نے کہا کہ اب حزب اللہ کا سارا کھیل ختم ہوگیا۔ لوگوں نے اس وقت بھی کہا کہ اب قوم کا کیا ہوگا؟ لیکن پھر ہم نے ایک مجاہد سید حسن نصر اللہ کو ظاہر ہوتے دیکھا، جس نے اسرائیل کو لوہے کے چنے چبوا دیے۔

‎سوال یہ ہے کہ ان تمام شہادتوں کے بعد کیا ہم ہار گئے تھے؟ کیا اسلام کمزور ہوگیا تھا؟

‎کیا ایران و عراق میں لاکھوں افراد اور علماء کی شہادت کے بعد انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا تھا؟

‎نہیں، بلکہ ہر بار تقدیر کی گہرائیوں سے ایک گمنام مجاہد ابھرتا رہا جو امن و انسانیت کے مشن کو اپنے کارواں کے ساتھ آگے لے کر بڑھتا رہا۔ اسی طرح ہر قطرۂ خون نئی زندگی کو جنم دیتا ہے۔

پروردگار نے‎ ہمارے درمیان انبیاء ع اور اہل بیعت ع کو بھیجا جب ان میں سے بعض ہمارے درمیان نہیں رہے اور بعض شہید ہو گئے تو لوگوں نے اس وقت بھی یہی سوال کیا کہ اب کیا ہوگا امت کا؟ لیکن آج تک ہمارے پاس آخری نجات دھندہ موجود ہے۔

‎یاد رکھیں، شہید کا خون مٹی میں گم نہیں ہوتا بلکہ ظلم کے تخت و تاج کو ہلا دیتا ہے۔ ہر شہادت کے بعد آپ نے دیکھا کہ آپ پہلے کے مقابلے میں قوی تر ہوتے رہے ہیں کیونکہ یہ قربانیاں فرد کو فانی اور قوم کو ابدی بنا دیتی ہیں روحانی جنگیں مادی جنگوں کو شکست دیتی ہیں۔۔

‎دشمن صیہونی (Zionist) سمجھتا ہے کہ اس نے ہمیں ختم کر دیا ہے، لیکن عاشقانِ شہداء شہید ہونے سے ختم نہیں ہونے والے، بلکہ آسمانی فرشتوں کی مانند بارش کے قطروں کی طرح برسیں گے ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا اور وہ ہمیشہ ظالموں پر مسلط رہیں گے۔ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں شہید ہو کر زمانے کو شہادت کی میراث دے کر ابدی پیغام دیا کہ شہید ظالم کے لیئے عذاب اور زوال کا آغاز ہے جو اس پر نازل ہو کر رہے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .