۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
آیت اللہ کعبی

حوزہ/ رکن مجلس خبرگان رہبری اور نائب صدر جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، آیت اللہ عباس کعبی نے صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف تماشائی بنے رہنے کو حرام قرار دیتے ہوئے مزاحمتی محاذ کی حمایت کو دینی فریضہ قرار دیا اور کہا کہ ہر فرد اپنی استطاعت کے مطابق مزاحمت کی حمایت کرے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رکن مجلس خبرگان رہبری اور نائب صدر جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، آیت اللہ عباس کعبی نے صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف تماشائی بنے رہنے کو حرام قرار دیتے ہوئے مزاحمتی محاذ کی حمایت کو دینی فریضہ قرار دیا اور کہا کہ ہر فرد اپنی استطاعت کے مطابق مزاحمت کی حمایت کرے۔

آیت اللہ کعبی نے کہا کہ اسلام کی حقیقی پیشرفت اور ترقی کے لیے مزاحمت کلیدی کردار رکھتی ہے، اور اس کی بنیاد انقلاب اسلامی اور نبی کریم (ص) کے انقلاب میں موجود ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نبی اکرم (ص) نے ابتدائی دنوں میں مزاحمت کی بنیاد پر ایک مضبوط اسلامی معاشرہ تشکیل دیا۔ یہی مزاحمتی روح انقلاب اسلامی ایران کے ذریعے دوبارہ ابھری اور آج صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کی شکل میں جاری ہے۔

آیت اللہ کعبی نے نبی کریم (ص) کی جدوجہد کو تین مراحل میں تقسیم کیا: پہلا مرحلہ:ابتدائی خفیہ دعوت اور اسلام کی ترویج۔ 2. دوسرا مرحلہ: مدینہ میں اسلامی حکومت کی بنیاد اور دفاع۔ تیسرا مرحلہ: اسلام کی عالمگیر فتوحات اور دین کی تبلیغ۔

انہوں نے کہا کہ اگر مزاحمت نہ ہوتی تو اسلام اپنے دشمنوں کے مقابلے میں کامیاب نہ ہوتا۔ آج انقلاب اسلامی کے بعد مزاحمت کا سب سے بڑا محاذ غزہ اور لبنان ہیں، جہاں مزاحمت اسلامی اقدار کی بقا کے لیے سرگرم ہے۔

آیت اللہ کعبی نے کہا کہ استکبار کے خلاف جدوجہد کے لیے طاقت کا حصول واجب شرعی ہے۔ یہ طاقت صرف عسکری نہیں بلکہ اقتصادی، سیاسی اور علمی میدانوں میں بھی حاصل کی جانی چاہیے تاکہ امت مسلمہ کے لیے مضبوط دفاع ممکن ہو۔

انہوں نے داعش کو اسرائیل کے تحفظ کا ایک منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ "طوفان الاقصیٰ" نے تمام استکباری منصوبے ناکام بنا دیے ہیں۔ صیہونی حکومت آج بدترین حالات کا سامنا کر رہی ہے اور اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔

آیت اللہ کعبی نے کہا کہ موجودہ حالات میں صیہونی مظالم کے خلاف خاموش رہنا شرعاً حرام ہے۔ ہر مسلمان کو اپنی استطاعت کے مطابق مزاحمتی محاذ کی مدد کرنی چاہیے، خواہ وہ مالی امداد ہو، فکری رہنمائی ہو، یا دشمن کے پروپیگنڈے کا توڑ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .