اسلام میں حاکم کا انتصاب و انتخاب، رہبرِ معظم کی نگاہ میں

حوزہ/ اسلام میں حاکمِ اعلیٰ، اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ بندوں کے لیے قانون بنانے اور نافذ کرنے کا حق فقط خدا کو حاصل ہے۔ خدا خود آکر کسی معاشرے پر حکومت نہیں کرتا، بلکہ اپنے نمائندے مقرر فرماتا ہے۔ انہیں حکمِ خدا کے مطابق بندوں پر حکومت کرنے اور شریعت کی شکل میں قانون نافذ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

تحریر: محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسی| اسلام میں حاکمِ اعلیٰ، اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ بندوں کے لیے قانون بنانے اور نافذ کرنے کا حق فقط خدا کو حاصل ہے۔ خدا خود آکر کسی معاشرے پر حکومت نہیں کرتا، بلکہ اپنے نمائندے مقرر فرماتا ہے۔ انہیں حکمِ خدا کے مطابق بندوں پر حکومت کرنے اور شریعت کی شکل میں قانون نافذ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

یہاں تک مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں، لیکن یہ حکم انبیاء کے دور تک محدود تھا۔

ہمارے زمانے میں کوئی نبی موجود نہیں ہے۔

اہلِ تشیع کے نزدیک اس میں امامِ معصوم بھی شامل ہیں۔ امامِ معصوم بھی خدا کی طرف سے منصوب حاکم ہوتے ہیں اُسے معاشرے پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

زمان معصوم میں نبی یا امام کی رحلت یا شہادت کے بعد معاشرے کا حاکم پھر خدا منتخب کرتا ہے، لوگ منتخب نہیں کرسکتے۔ اگر کریں تو یہ درست نہیں، اور وہ طاغوت کہلائے گا۔ یہاں تک کوئی اختلاف نہیں۔

دوسرا مرحلہ:

نبی یا رسول موجود ہوں لیکن اُن کے ہاتھ میں حکومت نہ ہو، جیسے حضرت سلیمان پیغمبر، حضرت داوود نبی اور ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کو ظاہری حکومت نہیں ملی ۔

اگر ہر صورت میں حکومت کو حاصل کرنا واجب ہوتا تو سارے پیغمبر اس کے حصول کے لیے جہاد کرتے، لیکن پیغمبروں نے لوگوں کو شعور دینے کی کوشش کی، جیسا کہ حضرت یوسف، جو فرعون کے وزیر بنے۔

یہاں حضرت یوسف کا وزیر بننا خدا اور اس کی حاکمیت کا انکار نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے دائرہ اختیار میں کوشش جاری رکھی اور بعد میں کامیاب ہوئے۔

اسی طرح حضرت موسیٰ نے قصرِ فرعون میں پرورش پائی، لیکن وہ خدائی نمائندے تھے، کبھی فرعون کو حاکمِ اعلیٰ تسلیم نہیں کیا۔

اس دوسرے مرحلے میں، جب کہ خدا کا منصوب حاکم موجود ہو اور لوگ غیر منصوب افراد کو چنیں، تو وہ حاکم بھی طاغوت کہلائے گا۔

تیسرا مرحلہ:

خدا کا منصوب نمائندہ موجود ہو، لیکن لوگ اُسے قبول نہ کریں، بعد میں اُسی کو منتخب کریں، تو وہ حاکم بھی الٰہی حاکم ہوگا۔ جیسے رسولِ خدا کے بعد امام علی علیہ السلام پچیس سال تک حاکم نہ رہے، بعد میں انصار، مہاجرین، اہلِ کوفہ، اہلِ مصر اور مضافات کے مسلمانوں نے آکر آپ کو حاکم منتخب کیا۔

یہاں ہمارے لیے دو چیزیں مشعلِ راہ ہیں:

1. خود امام علی علیہ السلام کا دین اور معاشرے کی حفاظت کے لیے خلفاء کے ساتھ تعاون کرنا اور مفید مشورے دینا۔

2. اپنا حق غصب ہونے کے باوجود حضرت عمر کے فلسطین جانے پر اُن کا نائب بن کر واپسی تک مسلمانوں کی حکومت اور نظم و ضبط کو سنبھالنا۔

اسی طرح آپ کے خاص چاہنے والوں جیسے حضرت سلمان فارسی اور حضرت عمار یاسر کا کوفہ اور مدائن کی گورنری کو قبول کرنا۔

ان دو باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اپنے عقائد، نظریات اور اہداف کے ساتھ کسی بھی حکومتی نظام میں شامل ہونا ممکن ہے۔ انہیں طاغوتی، کافر یا مشرک کہنا بلکل بھی درست نہیں۔

چوتھا مرحلہ:

عصر غیبت یعنی ہمارا دور، اگر خدا کا منتخب نمائندہ موجود نہ ہو، تو کیا کوئی حاکم ہوگا یا نہیں؟

اگر نہیں، تو معاشرے میں انتشار لازم آئے گا، یا دشمن ہم پر حکومت کریں گے، قانون بنائیں گے اور ہم پر مسلط ہوں گے، اور ہم تسلیم کریں گے۔

اگر جہاد کا اعلان کیا جائے اور دشمن کو شکست دی جائے، تو سوال پیدا ہوگا کہ اس کے بعد حاکم کون اور کیسے بنے گا؟

اہلِ سنت کے نزدیک حاکم بنانے کے کئی طریقے ہیں:

کوئی شخص اپنی رائے مسلط کرے اور بیعت لے، جیسے حضرت ابوبکر۔

کوئی شخص دوسرے کو نامزد کرے، جیسے حضرت عمر کو حضرت ابوبکر نے۔

شوریٰ منتخب کرے، جیسے حضرت عثمان۔

عوام منتخب کریں، جیسے حضرت علی خلیفہ چہارم بنے۔

یا طاقت کے ذریعے مسلط ہو، جیسے امیرِ شام، پھر موروثی حکومت بن جائے، جیسے بنی امیہ، بنی عباس، عثمانی حکومت یا بادشاہت۔

لیکن اہلِ تشیع کے نزدیک حاکم بننے کے صرف دو معیار ہیں:

1. مشروعیت ،خدا کی طرف سے منصوب ہونا، جیسے پیغمبر اور ائمہ معصومین۔

2. مقبولیت — یعنی دینی شرائطِ کے ساتھ عوامی انتخاب۔

ان کے علاوہ تشیع کے عقائد کے مطابق کوئی تیسرا آپشن موجود نہیں۔

اسی لیے رہبرِ معظم فرماتے ہیں کہ "عصرِ غیبت میں حاکم بننے کا واحد راستہ یہ ہے کہ (اسلامی معیارات کے مطابق کسی دیندار فقیہ یا عالم کو جمہوری طریقے سے منتخب کیا جائے(الیکشن کے ذریعے)"(کتاب "ولایت و حکومت"، صفحہ 260)

احادیث اور روایات:

امیر المؤمنین علیہ السلام سے روایت ہے:

"الواجب في حكم الله وحكم الاسلام علی المسلمين بعد ما يموت امامهم أو يُقتل..."

دوسری حدیث:

"اَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ هَذَا أَمْرُكُمْ لَيْسَ لِأَحَدٍ فِيهِ حَقٌّ إِلَّا مَنْ أَمَرْتُمْ."ترجمہ: "اے لوگو! یہ تمہارا معاملہ ہے، اس میں کسی کو حق حاصل نہیں، سوائے اس کے جسے تم نے منتخب کیا ہو۔

اس جیسی کئی احادیث رہبر معظم نے اس موضوع پر نقل فرمائی ہیں۔

ان احادیث کی روشنی میں رہبر معظم فرماتے ہیں کہ

جہاں اور جس زمانے میں حاکم منصبِ الٰہی پر فائز نہ ہو، یا شخصیت تو منصبِ الٰہی پر فائز ہو مگر اس کے ہاتھ میں حکومت نہ ہو، تو وہاں لوگوں کی طرف سے انتخاب کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے۔ یہاں اسلام نے لوگوں کو حقِ انتخاب عطا کیا ہے۔ اس انتخاب میں مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں؛ دونوں مل کر حاکم کا انتخاب کریں گے۔ (کتاب: ولایت و حکومت، صفحہ 264)

رہبر معظم تاکید کے ساتھ فرماتے ہیں:

"تشیع کا اصل عقیدہ یہ ہے کہ حاکم خدا کی طرف سے منصوب ہوگا۔ اس عقیدے کا عصرِ غیبت میں انتخاب کے ذریعے حاکم چننے سے کوئی تضاد نہیں ہے۔ یہ انتخاب بھی اسی انتصاب کی ایک صورت ہے۔ یہاں انتخاب، خدا کے انتصاب کے مقابلے میں عرضی (independent) نہیں بلکہ طولی (dependent) ہے۔ جہاں خدا کا منسوب و منتخب حاکم موجود ہو، وہاں لوگوں کو انتخاب کا کوئی حق حاصل نہیں۔

وہ مواقع یا وقت اور زمان و مکاں، جہاں خدا کا منتخب حاکم یعنی نبی یا امام موجود نہ ہو، وہاں انتخاب (الیکشن) کو حجیت حاصل ہے۔

زمانۂ غیبت میں، یعنی ہمارے موجودہ دور میں، یہی انتخاب حجت ہے۔"(حوالہ: کتاب ولایت و حکومت، صفحہ 265)

درج بالا مطالب میری ذاتی گفتگو نہیں، بلکہ یہ عصرِ حاضر کے عظیم اسلامی مفکر، مجاہد، فقیہ اور سیاستدان حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بیانات ہیں۔

اگر کوئی صرف وضو، غسل اور مسئلۂ رؤیت ہلال کے علاوہ اجتماعی و سیاسی مسائل میں بھی رہبر معظم کا مقلد ہے، تو اس پر عصرِ حاضر میں اپنی ذمہ داریاں مشخص ہیں۔

جو واقعی رہبر معظم کے مقلد ہیں اور ان کے افکار سے آشنا ہیں، وہ کبھی بھی عصرِ حاضر میں سیاسی میدان میں سرگرم شخصیات کو کافر، مشرک یا نظامِ امامت کا منکر نہیں سمجھیں گے، بلکہ ان شخصیات کو تقویت دیں گے تاکہ سیاسی میدان میں تشیع کو مضبوط کیا جا سکے۔

خداوندِ عالم ہمیں مخصوص دائرے سے نکل کر عملی میدان میں رہبر معظم کے افکار کو پڑھنے، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha