حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عالمی انجمنِ علمائے مقاومت کے سربراہ شیخ ماہر حمود نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ خونریز جھڑپیں، قتلِ عام، اسلحہ، حملے، پسپائی، قبائلی مسائل اور دیگر واقعات جو آج شام میں رونما ہو رہے ہیں، وہ امریکہ اور اسرائیل کی سربراہی میں ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہماری امت کے بدترین مرحلوں میں سے ایک ہے، جہاں حقیقت گم ہو گئی ہے، مقاصد پراکندہ ہو گئے ہیں اور ہماری امت خدا کی مقرر کردہ اعلیٰ خصوصیات سے مسلسل دور ہوتی جا رہی ہے۔
شیخ حمود نے مزید کہا کہ انتقالی حکومت، جو احمد الشرع کی قیادت میں ترکی، قطر اور علاقے کے اتفاق سے امریکہ کے منصوبوں کے تحت وجود میں آئی تھی۔ یہ حکومت پہلے مرحلے میں ترکی اور امریکیوں کے درمیان معاہدے کا نتیجہ تھی۔
عالمی علمائے مقاومت کے صدر نے کہا کہ جبل العرب کے ایک گروپ کا اسرائیل سے حمایت طلب کرنا، جرمانا واقعات سے پہلے، اسرائیل کی شام میں جلدی مداخلت کو ظاہر کرتا ہے۔ اسرائیل کی تیز مداخلت، عام طور پر دمشق اور خاص طور پر وزارتِ دفاع پر بمباری واضح طور پر بتاتی ہے کہ اسرائیل کا مقصد دروزیوں کے تحفظ سے کہیں آگے ہے جیسا کہ وہ دعویٰ کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان عناصروں نے صحیح اسلامی ثقافت حاصل نہیں کی۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو داعش، جبهة النصرة اور دیگر گروپوں کے پھیلائے ہوئے زہر سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ بات دوسرے گروپوں پر بھی کچھ حد تک صادق آتی ہے۔ اس بڑے خطرے کا سامنا کرتے ہوئے، سب ایک شطرنج کے مہرے کی طرح بن جاتے ہیں جنہیں صیہونی اپنے ردعمل کے ذریعے شطرنج کی اس تختی پر حرکت دیتے ہیں جسے وہ اپنی مرضی سے کنٹرول کرتے ہیں۔
لبنانی سنی عالم دین نے کہا کہ اسرائیل کا مقصد، دروزیوں کے تحفظ سے کہیں آگے ہے۔ اس کا اصل مقصد، خصوصی طور پر امریکی حامیوں کو ایک پیغام دینا ہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ اسرائیل ہے جو خطے کے نقشے کو طے کرتا ہے اور توازن قائم کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات اہم نہیں ہے کہ امریکہ اسرائیل کے مفادات کا کتنا پابند ہے، اسرائیل اپنے اتحادی اور حامیوں سمیت اپنے مفادات کے تعین میں مزید اضافے کے لیے شام کو تقسیم کرے گا، جیسے کہ بن گوریون نے اس کی بنیاد سے ہی بات کی تھی اور وہ دو ممالک کی نشاندہی کرتا ہے جو اسرائیل کی سلامتی کے دعوے کے تحفظ کے لیے تقسیم ہونے چاہیے وہ شام اور عراق ہیں۔
شیخ حمود نے آخر میں کہا کہ اس تقسیم کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ دمشق میں کوئی مضبوط مرکزی حکومت نہ ہو، اس سے قطع نظر کہ اس کے روابط کیا ہیں۔ نتیجتاً، اسرائیل نے یہ گستاخانہ حملے کرنے کی جرأت کی جو امریکہ کی خواہشات کے خلاف ہیں۔









آپ کا تبصرہ