جمعہ 18 جولائی 2025 - 09:42
شام؛ شیعہ سنی نہیں، عالمی استعمار کا کھیل!

حوزہ/ ہمیں اس نازک دور میں حقیقت کو جذبات سے نہیں، بصیرت سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ برسوں سے جو کچھ شام کی سرزمین پر ہو رہا ہے، اُسے محض شیعہ سنی تناظر میں دیکھنا نہ صرف سطحی سوچ ہے، بلکہ استعمار کی اُس خطرناک سازش کا شعوری یا لاشعوری طور پر حصہ بن جانا بھی ہے، جس نے امتِ مسلمہ کو ٹکڑوں میں بانٹ کر مغرب کے قدموں میں ڈال دیا ہے۔

تحریر: مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| ہمیں اس نازک دور میں حقیقت کو جذبات سے نہیں، بصیرت سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ برسوں سے جو کچھ شام کی سرزمین پر ہو رہا ہے، اُسے محض شیعہ سنی تناظر میں دیکھنا نہ صرف سطحی سوچ ہے، بلکہ استعمار کی اُس خطرناک سازش کا شعوری یا لاشعوری طور پر حصہ بن جانا بھی ہے، جس نے امتِ مسلمہ کو ٹکڑوں میں بانٹ کر مغرب کے قدموں میں ڈال دیا ہے۔
چنانچہ قرآن ہمیں تنبیہ کرتا ہے:
“وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ” (اور ان لوگوں جیسے نہ ہو جاؤ جو واضح نشانیوں کے بعد بھی تفرقے میں پڑ گئے – آلِ عمران 105)

ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ شام کی جنگ کا اصل محرک فرقہ واریت نہیں تھا۔ یہ ایک عالمی منصوبہ تھا— “گریٹر اسرائیل” کے قیام کا خواب، جسے امریکہ اور اسرائیل کئی دہائیوں سے پال رہے تھے۔ اس منصوبے میں شام ایک بڑی رکاوٹ تھا۔ بشار الاسد کی حکومت نے فلسطین کے حق میں ہمیشہ واضح موقف اختیار کیا، لبنان میں مزاحمتی تحریکوں کی پشت پناہی کی، اور اسرائیل کے غاصبانہ اقدامات کی کھل کر مخالفت کی۔ چنانچہ امریکہ و اسرائیل نے اسے ہر صورت میں ہٹانا ضروری سمجھا۔

اس منصوبے کی بنیاد 1982 میں شائع ہونے والی اسرائیلی تھنک ٹینک رپورٹ “A Strategy for Israel in the 1980s” میں واضح طور پر ملتی ہے، جس میں عرب ممالک کو اندرونی لسانی و مذہبی بنیادوں پر توڑنے کی تجویز دی گئی【1】۔

اسی مقصد کے تحت دنیا بھر سے انتہاپسند عناصر کو اکٹھا کیا گیا، ان پر “جہاد” کا لبادہ چڑھایا گیا، اور شام پر یلغار کرائی گئی۔ اُن دہشتگردوں کی قیادت میں ایسے افراد شامل ہیں جو نہ سنی ہیں نہ شیعہ— اصلاً مسلمان ہی نہیں ہیں خالص استعمار کے تربیت یافتہ ایجنٹ ، جیسے جولانی، جس کے بارے میں مغربی اخبارات Haaretz اور Times of Israel خود اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ پر مامور ہے【2】۔

یہاں تک کہ اس طویل جنگ کے دوران جب یہی دہشتگرد زخمی ہوتے، تو ان کا علاج اسرائیل کے اسپتالوں میں ہوتا【3】۔ یہ حقیقت اس پوری جنگ کے پیچھے کار فرما اصل قوتوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے— کہ نام اسلام کا، مگر کام اسرائیل کا!

افسوس کہ ہم میں سے کچھ افراد نے اس جنگ کو صرف “شیعہ سنی مسئلہ” سمجھا۔ ہم نے جو کچھ سنا، بغیر تحقیق قبول کر لیا۔ میڈیا نے جو بتایا، ہم نے وہی دہرایا۔ بشار الاسد کو “شیعہ” کہہ کر سنیوں پر ظلم کا الزام لگا دیا گیا، حالانکہ وہ خود سنی العقیدہ ہے【4] اور شام کے سماجی و سیاسی نظام میں فرقہ واریت کا نام و نشان نہیں تھا۔ ہم نے خود شام کا متعدد بار سفر کر کے دیکھا ہے ، پڑھا ہے— وہاں کے بازار، مدارس، مساجد، مزارات، اور یونیورسٹیاں— سب میں مختلف مکاتبِ فکر کے افراد ایک ساتھ زندگی گزارتے نظر آتے تھے۔ مساجد میں اختلاف نہیں تھا شیعہ سُنی ایک ساتھ نماز پڑھتے تھے ، اور دلوں میں مسلک کی دیواریں نہیں تھیں۔

درحقیقت اسد حکومت کے خلاف “شام میں سنیوں پر ظلم” کا جو شور اٹھایا گیا، وہ محض ایک جھوٹا اور منصوبہ بند پروپیگنڈہ تھا، جو امریکہ، اسرائیل اور ان کے استعماری حواریوں نے کروایا۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد فرقہ واریت کو ہوا دینا اور شام کی مزاحمتی قوت کو اندر سے توڑنا تھا۔

رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی حدیث یہاں صادق آتی ہے: “إذا ظهرت الفتن وقطّعت الأرحام وتُرك الأمر بالمعروف، فانتظر البلاء” (جب فتنے ظاہر ہوں، رشتے ٹوٹیں، اور امر بالمعروف ترک کر دیا جائے، تو بلاء کا انتظار کرو – بحار الأنوار، ج 74، ص 312) صحیح بخاری، کتاب الفتن، حدیث نمبر: 7068

افسوس کہ ہمارے سادہ لوح مسلمان بار بار ایسی سازشوں کا شکار ہوتے ہیں، اور بار بار استعمار کے بچھائے ہوئے جال میں الجھ جاتے ہیں— یہ سوچے بغیر کہ دشمن ان کے جذبات کو ہتھیار بنا کر خود اُن کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔

ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جو ظلم شام میں ہوا، وہ صرف حکومت یا فوج کی طرف سے نہیں تھا— بلکہ زیادہ تر خونریزی انہی نام نہاد “مجاہدین” دہشتگردوں کے ہاتھوں ہوئی، جنہیں استعمار نے پالا پوسا، اور جنہوں نے اسرائیل کے خلاف ایک پتھر تک نہ اُٹھایا، مگر دمشق، حلب، اور ادلب کو راکھ میں بدل دیا۔جیسا کہ امام علیؑ نے فرمایا: “الجَهلُ عَدوُّ نَفسِه” (جہالت انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے – نہج البلاغہ، حکمت 31)

اب جبکہ ایک بار پھر شام پر حملے ہو رہے ہیں، اور کچھ مخصوص عناصر اسے “شیعوں کی خوشی” یا “سنیوں کا انتقام” بنا کر پیش کر رہے ہیں، تو ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم اب بھی اسی پرانی سازش کے جال میں الجھنے کو تیار ہیں؟

قرآن نے واضح طور پر کہا: “تِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ” (یہ دن ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں – آلِ عمران 140)

آج اگر شام ہے، تو کل کوئی اور ہوگا— اور اگر ہم نے دشمن کو پہچاننے کے بجائے ایک دوسرے کو نشانہ بنایا، تو وہ دن بھی دور نہیں جب ہم بھی ان سازشوں کے شکار بن جائیں ۔

اب وقت ہے کہ ہم اپنی فکر کی بنیاد فرقے کے بجائے امت پر رکھیں۔ ہمیں پہچاننا ہوگا کہ اصل جنگ انسانیت کی ہے سچ اور جھوٹ کی ہے حق و باطل کی ہے۔ اور باطل کا چہرہ امریکہ ہے، اسرائیل ہے، اور وہ ہر فرد ہے جو انسانیت اور امت کو بانٹنے کی سازش میں شریک ہے— چاہے وہ کسی بھی لباس میں کیوں نہ ہو۔
اور جیسا کہ قرآن فرماتا ہے: “إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ” (بیشک تمام مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں – الحجرات 49:10)

آئیے، ہم شیعہ سنی کے خول سے نکل کر، استعمار کے خلاف ایک امت بن کر کھڑے ہوں۔ کیونکہ دشمن ہمیں فرقوں میں بانٹ کر نہیں، امت بننے سے ڈرتا ہے۔

حوالہ جات:
‏ 1. Oded Yinon, A Strategy for Israel in the 1980s, Kivunim (1982)
‏ 2. Haaretz, July 2017; Times of Israel, 2015 — “Israel treated over 1600 Syrian rebels”
‏ 3. UNDOF Report, 2015: Israel-rebel communications
‏ 4. Patrick Seale, Asad: The Struggle for the Middle East; Joshua Landis, SyriaComment
‏ 5. Tim Anderson, The Dirty War on Syria, Global Research
6. صحیح بخاری، کتاب الفتن، حدیث نمبر: 7068
بحار الأنوار، علامہ مجلسیؒ، ج 74، ص 312
7. نہج البلاغہ، حکمت 31
8. قرآن مجید، سورۂ آل عمران 3:140، سورۂ الحجرات 49:10، سورۂ آل عمران 3:105

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha