جمعرات 17 جولائی 2025 - 18:10
یزیدی لشکر امام کو پہچانتا تھا، لاعلمی کا دعویٰ بے بنیاد ہے: حجۃ الاسلام مولانا عسکری امام خان

حوزہ/ کیا واقعی کربلا کے معرکے میں شریک یزیدی لشکر یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے مقابل کون ہے؟ کیا وہ محض ایک "باغی" کے خلاف لڑنے نکلے تھے؟ حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا عسکری امام خان، جو اس وقت پونہ (ہندوستان) میں تبلیغی خدمات انجام دے رہے ہیں، ان اہم سوالات کا گہرا اور تاریخی و عقلی تجزیہ کرتے ہوئے حقائق سے پردہ ہٹاتے ہیں۔ ذیل میں ان سے لیا گیا خصوصی انٹرویو پیش خدمت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، کربلا کے سانحے کے بارے میں ایک اہم اور قابلِ غور سوال یہ ہے کہ آیا یزیدی لشکر کو امام حسین علیہ السلام کی معرفت حاصل تھی یا وہ صرف اپنے گمان میں ایک "باغی" کے خلاف لڑ رہے تھے؟ کیا ان کے عمل کو لاعلمی کی بنیاد پر معاف کیا جا سکتا ہے؟ یا حقیقت اس کے برعکس ہے؟

انہی سوالات کے جواب اور اس مسئلے کی تاریخی، عقلی اور دینی وضاحت کے لیے حوزہ نیوز ایجنسی نے ہندوستان کے ممتاز مبلغ، محقق اور دینی اسکالر حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا عسکری امام خان صاحب سے خصوصی گفتگو کی ہے، جو ان دنوں ہندوستان کے شہر پونہ میں تبلیغی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

یہ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ واقعۂ کربلا کے ایک اہم پہلو کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے، اور ان تاریخی مغالطوں کا ازالہ کیا جا سکے جو بعض سادہ ذہنوں میں پیدا کیے جاتے ہیں۔

حوزہ: بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یزیدی فوج کو امام حسین علیہ السلام کی شناخت نہیں تھی۔ کیا یہ تاریخی اعتبار سے درست ہے؟

مولانا عسکری امام خان:

جواب: سب سے پہلے تمام عزاداروں کی خدمت میں ایامِ عزا، ایامِ مصیبتِ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا اصحاب و اہل بیت پر تسلیت و تعزیت عرض کرتے ہیں، اور دعا گو ہیں کہ ہمیں ان کے راستے پر ثابت قدمی اور معرفتِ حقیقی نصیب ہو۔

جیسا کہ آپ نے سوال کیا،بیشک یہ بات سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے کہ لشکر یزید کو امام کی معرفت نہیں تھی۔ واقعۂ کربلا میں دشمن کی فوج کو امام حسین علیہ السلام کی ذات مبارک، ان کا نسب، ان کی منزلت اور ان کا ہدف سب کچھ معلوم تھا۔ عمر بن سعد جیسے افراد نے خود اپنی فوج کو دھوکہ دیتے ہوئے انہیں جنت کی خوشخبری دے کر امام کے خلاف ابھارا، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برسرِ پیکار ہو رہے ہیں۔

حوزہ: اگر انہیں معرفت تھی تو پھر وہ اس عظیم ظلم پر آمادہ کیسے ہو گئے؟

مولانا عسکری امام خان

یہ معرفت کے باوجود دنیا پرستی، مال و مقام کی ہوس، اور حرام خوری کی وجہ سے تھا۔ امام کے خطبات اور ان کی معرفتی گفتگو عاشور کے دن سن کر بھی وہ راہِ باطل پر ڈٹے رہے۔ امام نے نہ صرف اپنا تعارف کرایا بلکہ انہیں شقاوت و بدبختی سے روکا، لیکن ان کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی۔

حوزہ: بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ لشکر یزید کے کچھ افراد ممکن ہے ناواقف ہوں، کیا اس کی کوئی گنجائش ہے؟

مولانا عسکری امام خان:

شاید ابتدا میں کچھ لوگ لاعلم ہوں، لیکن جیسے جیسے واقعہ آگے بڑھا، امام کے خطبات، ان کے کلمات اور ان کا کردار سب کے سامنے آیا۔ حتیٰ کہ بعض لشکری راہِ حق کو پہچان کر فرار بھی کر گئے۔ تاریخی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض سپہ سالار ہزاروں کے ساتھ چلے تھے لیکن کربلا پہنچتے پہنچتے صرف چند سو رہ گئے، باقی حق کی پہچان کے بعد پلٹ گئے۔

حوزہ: کیا آپ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ بعض افراد نے امام کے قتل کے بعد انعام کا مطالبہ کیا؟

مولانا عسکری امام خان:

بالکل، یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ وہ سب جانتے تھے کہ انہوں نے کس کا قتل کیا ہے۔ ابن زیاد اور یزید سے انعامات و اکرام کے طالب ہونا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر اس جرم کا ارتکاب کر رہے تھے، لاعلمی یا خیر کی نیت اس معاملے میں سراسر باطل ہے۔

حوزہ: بعض افراد امام کو پہچانتے ہوئے بھی ان پر حملہ آور ہوئے، کیا یہ لوگ منافق شمار ہوں گے؟

عسکری امام خان:

جی ہاں۔ بعض نے کھلے الفاظ میں امام کے نبی زادے ہونے کا اعتراف کیا، جیسا کہ سنان بن انس نے امام کو شہید کرتے وقت کہا کہ میں جانتا ہوں کہ تم رسول خدا کے فرزند ہو، لیکن پھر بھی تمہارا سر قلم کر رہا ہوں۔ یہ ایمان کے بعد کفر کی بدترین مثال ہے۔

حوزہ: آخر میں آپ اس پورے واقعے کے بارے میں کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟

مولانا عسکری امام خان:

خلاصہ یہ ہے کہ یزیدی لشکر کا کوئی بھی فرد "قاصر" اور "نادان" نہ تھا۔ سب جانتے تھے کہ وہ کس ہستی کے مقابل صف آرا ہیں۔ ان کے جرم میں لاعلمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل حرم کو اسیر کرنے سے لے کر شام و کوفہ میں بے حرمتی تک ہر عمل ایک باعلم و دانستہ ظلم تھا، جس کا انجام دنیا و آخرت کی رسوائی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha