پیر 1 دسمبر 2025 - 13:38
گزشتہ زمانے کے مومنین کا ایمان بارش پر ہم سے کہیں زیادہ پختہ کیوں تھا؟

حوزہ/ حضرت ابراہیم علیہ السلام رزق، شفا اور بارش کو محض مادی اسباب کا نتیجہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے براہِ راست خدا کا کام قرار دیتے تھے۔ قرآن کریم بھی انسان کے دل میں یہی یقین راسخ کرنا چاہتا ہے کہ حقیقی فاعل صرف خدا ہے، جب کہ ظاہری اسباب ہمیشہ کارگر نہیں کرتے۔ اسی لیے انسان کو چاہیے کہ اپنے دل میں ایمان کو خالص اور مضبوط کرے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرحوم علامہ مصباح یزدی نے ایک خطاب میں «روزی، شفا اور بارش کے حقیقی اسباب و عوامل» پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ جس درجے کا توحید کی معرفت حضرت ابراہیم علیہ السلام رکھتے تھے، وہ عام انسانوں کی سوچ سے بہت بلند ہے۔

انہوں نے آیتِ کریمہ «وَالَّذِی هُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِینِ» (سورہ شعراء، آیت 79) کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں:

میرا رب وہ ہے جو مجھے کھلاتا ہے، جو پانی میرے ہونٹوں تک پہنچاتا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ اللہ غذا پیدا کرتا ہے، بلکہ کہتے ہیں کہ اللہ مجھے خود کھلاتا ہے۔

اسی طرح جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ میرا رب ہی شفا دیتا ہے — نہ کبھی کبھار، بلکہ ہر مرتبہ وہی شفا دینے والا ہے۔

یہ وہ خاص درک ہے جو ہماری عام سوچ سے مطابقت نہیں رکھتا، اور اکثر ہم ان تصورات کو محض تعارف یا نسبت کے طور پر لیتے ہیں، جبکہ حقیقتاً ہم اسبابِ طبیعی کو اصل سمجھتے ہیں۔

علامہ مصباح نے کہا کہ جب بارش ہوتی ہے تو ہم فوراً سائنسی وجوہات گنواتے ہیں کہ بخارات اٹھتے ہیں، بادل بنتے ہیں، ٹھنڈک سے پانی بنتا ہے اور پھر زمین کی کشش سے بارش ہو جاتی ہے۔ لیکن قرآن چاہتا ہے کہ مسلمان کا یقین ہو کہ بارش اللہ ہی نازل کرتا ہے۔

پرانے زمانے کے لوگ اور کسان اس حقیقت کو دل سے مانتے تھے۔ جب وہ کھیتی کرتے تھے تو ان کا حقیقی اعتماد خدا پر ہوتا تھا کہ بارش وہی برسائے گا۔

ٹکنالوجی کے ذریعے صرف بادلوں کو بارش کے قبل بنانے سے ہمیشہ بارش نہیں ہوتی؛ کبھی بارش آ جائے تو بھی فصلیں آفت کا شکار ہو جاتی ہیں۔

بسا اوقات برسوں سے خشک علاقے میں اچانک برف باری ہو جاتی ہے۔

ایسے واقعات انسان کو یقین دلاتے ہیں کہ اسباب کے پسِ پشت ایک اور نظام بھی کارفرما ہے جسے ہم نہیں جانتے۔

اسی لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے دل میں اس خالص اور صاف ایمان کو دوبارہ زندہ کریں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha