تحریر: مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا کے نقشے پر جو آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی ہے وہ صرف سرحدی جھڑپوں یا وقتی ٹکراؤ کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ بڑی طاقتوں کے بنائے ہوئے کھیل کا حصہ ہے، جس کا مرکز و محور امریکی مفادات ہیں۔ اسرائیل اگر سینکڑوں کلومیٹر دور اپنے دشمنوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو یہ ہماری بھول ہے کہ وہ یہ کام تنہا کر رہا ہے؛ دراصل وہ خود ایک پراکسی ریاست ہے، امریکہ کا بازو اور اس کی بین الاقوامی سیاست کا حربہ ہے۔ امریکہ نے اسے مالی، عسکری اور سفارتی ہر سطح پر وہ قوت فراہم کی ہے، جس کے بغیر یہ چھوٹی سی ریاست اتنے بڑے دعوے کرنے کے قابل نہ تھی۔
جہاں تک حماس کو ختم نہ کرنے کا سوال ہے، یہ محض عسکری کمزوری یا انتخاب نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سیاسی حکمتِ عملی ہے۔ دشمن کو زندہ رکھ کر جواز باقی رکھا جاتا ہے — جب خطے میں کوئی نئی چال چلنی ہو، جب قبضے کو بڑھانا مقصود ہو، یا جب کسی عرب یا مسلم ملک پر دباؤ ڈالنا ہو، تو اسی نام کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ کھیل اسی وقت تک کامیاب ہے جب اس کے پیچھے کوئی بڑی طاقت کھڑی ہو — اور آج وہ طاقت امریکہ ہے۔
🔹 امریکہ اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ:
اسرائیل اپنے بل بوتے پر نہیں کھڑا۔ اس کی جڑیں صہیونی تحریک میں ہیں، اور اس کا وجود مغربی طاقتوں کی پالیسیوں کا مرہونِ منت ہے۔ برطانیہ نے بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے فلسطین میں صہیونی ریاست کے قیام کی بنیاد رکھی، اور پھر امریکہ نے اس پودے کو نہ صرف سینچا بلکہ ایک تناور درخت بنا دیا۔ آج اسرائیل کو سالانہ اربوں ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد امریکہ دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیل فلسطین میں ظلم کرتا ہے، شام پر میزائل داغتا ہے، لبنان میں دھماکے کراتا ہے اور ایران کے جرنیلوں کو مار ڈالتا ہے، لیکن دنیا خاموش رہتی ہے۔ اقوامِ متحدہ جیسے ادارے بھی امریکہ کی ویٹو پاور کے قیدی ہیں۔ دراصل اسرائیل کی ہر “بہادری” کے پیچھے امریکہ کی چھتری ہے۔
🔹 قرآن کی روشنی میں حقیقت:
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: ﴿لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ﴾ (المائدہ: ۵۱) یعنی یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو تم میں سے انہیں دوست بنائے گا وہ انہی میں سے ہو گا۔
یہ آیت امت مسلمہ کو متنبہ کرتی ہے کہ طاقت اور تحفظ کے لیے دوسروں کے سہارے پر بھروسہ نہ کیا جائے۔ مگر آج کا المیہ یہ ہے کہ سعودی عرب سمیت کئی مسلم ریاستیں اپنی بقا کے لیے امریکہ جیسے دھوکے باز اتحادیوں کے محتاج بن گئے ہیں۔
🔹 حماس کا وجود کیوں باقی رکھا گیا ؟
اگر اسرائیل حماس کو مٹا دے تو اس کے پاس حملے کا بہانہ ختم ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل حماس کو “زندہ” رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے ذریعے وہ عرب دنیا پر چڑھائی کا جواز تیار کرتا ہے اور امریکہ اسے عالمی سطح پر “دہشت گردی کے خلاف جنگ” بنا کر پیش کرتا ہے۔
🔹 گریٹر اسرائیل کا خواب:
صہیونی تحریک کا اصل مقصد ایک محدود ریاست نہیں بلکہ “گریٹر اسرائیل” ہے، جو دریائے نیل سے دریائے فرات تک پھیلا ہوا ہو۔ اسی خواب کے لیے فلسطین لہو لہو ہے، لبنان بار بار تباہ ہوتا ہے، شام کو خانہ جنگی میں جھونکا گیا، عراق کو برباد کیا گیا اور ایران کو مستقل ہدف بنایا جا رہا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:«ستكون فتنة كقطع الليل المظلم» یعنی ایک زمانہ ایسا آئے گا جب فتنوں کی تاریکیاں پھیل جائیں گی۔
یہ فتنہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔
🔹 تاریخی شواہد
۱۔ عراق:
۲۰۰۳ میں امریکہ نے عراق پر حملہ کیا۔ بہانہ یہ بنایا کہ صدام حسین کے پاس “تباہ کن ہتھیار” ہیں۔ بعد میں دنیا نے دیکھا کہ یہ سب جھوٹ تھا۔ مقصد صرف عراق کو تباہ کرنا اور اسرائیل کو خطے میں محفوظ بنانا تھا۔ آج عراق بکھرا ہوا ہے، لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں، مگر اسرائیل مضبوط تر ہو گیا۔
۲۔ شام:
۲۰۱۱ سے شام کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونکا گیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے باغیوں کی مدد کی، دہشت گرد گروہوں کو ہتھیار دیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں شامی دربدر ہوئے، ہزاروں شہر ویران ہو گئے۔ اور اسرائیل کو یہ موقع ملا کہ شام کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اپنی پوزیشن مضبوط کرے۔
۳۔ یمن:
۲۰۱۵ میں یمن پر سعودی عرب نے جنگ مسلط کی، مگر اس جنگ کے پیچھے بھی امریکی اور صہیونی اشارے تھے۔ امریکہ نے سعودی کو اس جنگ میں دھکیلا تاکہ مسلم دنیا کی دو بڑی طاقتیں آپس میں لڑتی رہیں اور اسرائیل محفوظ رہے۔ آج یمن کا بچہ بچہ بھوک اور بمباری کا شکار ہے، مگر اسرائیل کو ایک بھی نقصان نہیں ہوا۔
۴۔ فلسطین:
فلسطین تو پچھلے پچھتر برسوں سے ظلم کی بھٹی میں جل رہا ہے۔ ان دو برسوں میں فلسطینیوں نے ظلم و بربریت کے اُس ننگے ناچ کو دیکھا ہے جہاں تاریخ انسانیت شرمندگی سے پانی پانی ہے لاکھوں بے گناہوں کا قتل عام ۔اسرائیل کے جرائم پر اگر کبھی عالمی ادارے آواز بلند کرتے ہیں تو امریکہ فوراً ویٹو کر دیتا ہے۔ یہی امریکہ ہے جو اسرائیل کو کھلی چھٹی دیتا ہے کہ وہ جب چاہے غزہ پر بمباری کرے اور ہزاروں بے گناہ شہید کرے۔
🔹 سعودی عرب کی مجبوری:
عرب ممالک خاص کر قطر اور سعودی عرب نے دہائیوں تک امریکہ کو اپنا محافظ سمجھا۔ اربوں ڈالر ڈالر کے تحائف دیئے ، اور امریکہ میں کھربوں ڈالر لگائے، اسلحہ خریدا، اور امریکی فوج کو اپنی زمین پر جگہ دی۔ لیکن جب اصل خطرہ آیا تو امریکہ نے قطر کے ساتھ دھوکہ کر دیا کو تنہا چھوڑ دیا۔ یمن کی جنگ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔
اب سعودی عرب کو یہ احساس ہوا ہے کہ امریکہ پر بھروسہ کرنا سراسر دھوکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوا۔ لیکن پریشانی یہ ہے کہ پاکستان بھی امریکہ کے سائے میں پروان چڑھا ہے۔ پاکستان کی سیاست ہمیشہ امریکہ کے اشاروں پر ناچتی رہی ہے افغانستان میں امریکی دہشت گردی کے ذریعہ افغانستان کی بربادی میں پاکستان امریکہ کا سب سے بڑا معاون و مددگار رہا ہے ۔ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی دہشت گردی کی نرسری امریکہ نے پاکستان میں اُگائی ۔
پاکستان نے اپنی ایٹمی طاقت کو کبھی مسلم دنیا کے دفاع یا ان کے مسائل کے حل کے لیے عملی طور پر استعمال نہیں کیا۔ فلسطین ہو، بوسنیا یا یمن — سب جلتے رہے اور پاکستان کا کردار محض بیانات تک محدود رہا۔ اسی لیے سعودی عرب کا پاکستان کی طرف دیکھنا دراصل ایک مجبوری ہے، اعتماد نہیں
🔹سعودی کے لیے واحد راستہ:
سعودی عرب کو اب فیصلہ کرنا ہوگا۔ یا تو وہ ہمیشہ امریکہ اور پاکستان جیسے سہاروں پر زندہ رہے اور بار بار دھوکا کھاتا رہے، یا پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو۔ اپنی فوجی طاقت خود تیار کرے، اپنی معیشت کو مضبوط کرے اور مسلم دنیا کی قیادت کو سنبھالے۔
قرآن کا واضح پیغام ہے:﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ﴾ (الرعد: ۱۱)اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔
یہی راستہ سعودی عرب اور پوری مسلم دنیا کے لیے نجات کا ہے۔ امریکہ کی پراکسی اسرائیل تب تک کھیل کھیلتا رہے گا جب تک امت اپنی آنکھیں نہ کھولے۔
اصل طاقت اسرائیل نہیں بلکہ امریکہ ہے۔ اسرائیل امریکہ کا بازو ہے، صہیونی سازش کا ہتھیار ہے۔ حماس کو زندہ رکھنا، عرب دنیا کو کمزور کرنا اور گریٹر اسرائیل کے خواب کو آگے بڑھانا اسی کھیل کے حصے ہیں۔ سعودی عرب اگر اپنی بقا چاہتا ہے تو اسے امریکہ کی اندھی دوستی اور پاکستان کی ایٹمی مجبوری سے نکل کر اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہوگا۔
اللہ امتِ مسلمہ کو بصیرت دے، بیداری عطا فرمائے اور ہمیں اپنی تقدیر خود بدلنے کی ہمت دے۔









آپ کا تبصرہ