ہفتہ 12 جولائی 2025 - 21:27
ایران نے ہمیشہ وقار، منطق اور باہمی احترام کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا ہے

ایرانی وزیر خارجہ:

ایران نے ہمیشہ وقار، منطق اور باہمی احترام کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا ہے

امریکا اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے تو مذاکرات دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں

حوزہ / ایرانی وزیر خارجہ نے فرانسیسی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے تو مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے فرانسیسی اخبار Le Monde کو انٹرویو میں کہا ہے کہ تہران، امریکہ کے ساتھ وقار اور باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے آمادہ ہے۔

انہوں نے کہا: امریکہ کو سب سے پہلے اپنا رویہ تبدیل کرنا ہو گا اور اس بات کی ضمانت دینی ہو گی کہ وہ مذاکرات کے دوران ایران پر مزید کوئی حملہ نہیں کرے گا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا: ایران نے ہمیشہ وقار، منطق اور باہمی احترام کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس وقت بھی بعض دوست ممالک یا ثالثوں کے ذریعے ایک سفارتی ہاٹ لائن قائم کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سفارت کاری دو طرفہ معاملہ ہے۔ چونکہ امریکہ نے ہی مذاکرات کو توڑ کر کارروائی کا آغاز کیا، اس لیے اب ضروری ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کی ذمہ داری قبول کرے اور واضح طور پر اپنا طرزعمل بدلے۔ ہمیں اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ آئندہ بات چیت کے دوران امریکہ کسی قسم کی فوجی کارروائی سے باز رہے گا۔

سید عباس عراقچی نے مزید کہا: امریکہ کے حالیہ حملوں سے ایران کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے۔ ایران کو اس نقصان کے تخمینے کے بعد معاوضہ طلب کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ ہمارا قانونی و منطقی حق ہے کہ ہم ان نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کریں۔ یہ کہنا کہ کوئی پروگرام تباہ ہو چکا ہے اور ایک قوم کو پرامن جوہری منصوبے ترک کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے جو کہ توانائی، طب، دوا سازی، زراعت اور ترقیاتی ضروریات کے لیے ہے، درحقیقت ایک سنگین غلط فہمی ہے۔ آئی اے ای اے کی رپورٹیں مسلسل یہ ثابت کرتی رہی ہیں کہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام میں کسی قسم کی عسکری انحرافی سرگرمی نہیں پائی گئی۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کا جوہری پروگرام صرف عمارتوں تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک ایسا قومی سرمایہ ہے جسے آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا: اصل نقصان جو ہوا ہے وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی نظام کو پہنچا ہے۔ IAEA کی نگرانی میں فعال تنصیبات حملہ اور مغربی ممالک کی جانب سے اس پر مذمت نہ کرنا بین الاقوامی قوانین، خصوصا جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام پر براہ راست حملے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا: مذاکرات کی بحالی اسی صورت میں ممکن ہے جب امریکہ اپنے ماضی کے تخریبی رویے کی ذمہ داری قبول کرے۔ انہوں نے تین یورپی ممالک کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت پابندیوں کے میکانزم کو فعال کرنے کی تجاویز پر بھی سخت ردعمل ظاہر کیا اور کہا کہ ایسی کوئی بھی حرکت فوجی حملے کے مترادف ہو گی۔ اس طرح کے اقدام کے نتیجے میں یورپی ممالک مذاکرات کے عمل میں اپنے کردار سے مکمل طور پر محروم ہونا پڑے گا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha