حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مئو/ اترپردیش اسٹیٹ حج کمیٹی سے دوبار مرکزی حج کے لیے منتخب سابق ممبر حافظ نوشاد احمداعظمی نے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی سے پر زور درخواست کی ہے کہ حج ڈیپارٹمنٹ کو اقلیتی امور کی وزارت سے ہٹا کر وزارت خارجہ میں بھیجا جائے۔
وشاد اعظمی نے کہا کہ ’’حج کے معاملات میں تقریباً مجھے بائیس سالوں سے یہ تجربہ رہا ہے کہ حاجیوں کے لیے میں نے پرامن اور قانون کے دائرے میں رہ کر اورغیر سیاسی تحریک چلائی جس میں کامیابی بھی ملی۔ حج ایکٹ 2002ء کو اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے منظور کرتے ہوئے ملک کے حاجیوں کو تحفہ دیا تھا۔‘‘
وشاد اعظمی نے کہا کہ ’’اس وقت راجیہ سبھا میں این، ڈی، اے حکومت کی اکثریت نہیں تھی مگر پھر بھی کانگریس اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے اس ایکٹ کے ڈرافٹ کے بہتری کو دیکھتے ہوئے راجیہ سبھا میں بغیر بحث کے منظور کرلیا اور ایکٹ 2002ء پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کر دیا اورکچھ ماہ بعد غوروغوض کرنے کے بعد 15؍مئی 2002ء کو یہ ایکٹ لوک سبھا میں پیش ہوا۔
یاد رہے کہ 2002ء میں راجیہ سبھا میں سینٹرل آفس دہلی اورریزنل آفس ممبئی بنانے کی بات لکھی تھی مگر اسٹینڈنگ کمیٹی نے حج کمیٹی کا سینٹرل آفس ممبئی رکھنے کی سفارش کردی، جس میں کانگریس سمیت سبھی سیاسی جماعتوں کے پارلیمنٹ ممبروں نے لوک سبھا میں اعتراض کیا اور دلّی دفتر لانے کی مانگ کی۔ مگر سرکار نے مانگ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے سینٹرل دفتر ممبئی ہی رکھا۔‘‘
نوشاد اعظمی نے وزیر اعظم کو بھیجے گئے میمورنڈم میں کہا کہ ’’حج وزارت خارجہ سے اقلیتی امور میں منتقل کیا جانا کسی بھی طرح سے حاجیوں کے لیے صحیح نہیں تھا کیوں کہ 70 فیصد کام وزارت خارجہ کا اور 10فی صد شہری ہوابازی ایئر انڈیا وغیرہ کا اور 20 فی صد مرکزی حج کمیٹی اور ملک کی صوبائی حج کمیٹی کرتی ہیں۔ 1959 ء سے یہ روایت بھی رہی ہے اور یہ ایک اصولی بات بھی ہے حج ایک غیر ملکی کا سفر ہے اور وہ وزارت خارجہ میں ہی رہنا ضروری ہے۔ ‘‘
وشاد اعظمی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ حج ایکٹ 2002ء بہت بہتر بناہے اس میں کسی بھی ترمیم کی قطعی ضرورت نہیں ہے انھوں نے وزیر اعظم سے مؤدبانہ گزارش کی کہ اس معاملہ پرسنجیدگی سے غور کریں اور حج کو دوبارہ وزارت خارجہ میں بھیجنے کی زحمت کریں۔