حوزہ نیوز ایجنسی I حضرت حسن بن علی بن محمد علیہم السلام، جنہیں امام حسن عسکری علیہ السلام کہا جاتا ہے، شیعہ اثناعشری کے گیارہویں امام ہیں۔ آپ نے چھ سال تک منصبِ امامت کی ذمہ داری ادا کی۔ آپ امام ہادی علیہ السلام کے فرزند اور امام مهدی عجلاللهفرجه کے والد گرامی ہیں۔
ولادت باسعادت امام حسن عسکری علیہ السلام کی مناسبت سے، حجت الاسلام محمد اسماعیلی چافی (ماہر و محقق حوزہ علمیہ) سے گفتگو کی گئی۔
ولادت اور سیرت
گیارہویں امام کا نام مبارک حسن بن علی اور کنیہ ابو محمد تھا۔ آپ کے القاب میں صامت، ہادی، رفیق، زکی اور نقی شامل ہیں۔
آپ 10 ربیع الثانی 232 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔
چونکہ امام رضا علیہ السلام (امام ہشتم) ولایتِ عہدی قبول کرنے کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے تھے، اسی نسبت سے امام جواد، امام ہادی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کو بھی "ابن الرضا" کہا جاتا تھا۔
آپ کی والدہ ماجدہ کا نام سلیل تھا جو نہایت نیک، پرہیزگار اور عارفہ خاتون تھیں۔ (سفینة البحار، ج۲، ص۲۰۰)
شیخ طوسی لکھتے ہیں: امام حسن عسکری علیہ السلام ہر ہفتے دو دن (پیر اور جمعرات) دارالخلافہ جایا کرتے تھے۔ جب آپ تشریف لے جاتے تو اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے کہ راستے بند ہوجاتے اور سب صف بناکر کھڑے ہو جاتے تاکہ آپ کے نورانی چہرے کو دیکھ سکیں۔ (الغیبة، ص۲۱۶)
امام حسن عسکریؑ اور امام مہدیؑ کی معرفی
امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے فرزند امام مهدی عجلاللهفرجه کی امامت واضح کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے۔
🔹 کبھی اپنے خاص صحابی کو فرزند دکھا دیتے، جیسا کہ احمد بن اسحاق قمی کو دکھایا۔ انہوں نے پوچھا: "آپ کے بعد امام کون ہوں گے؟" امام نے پردے کے پیچھے سے تین سالہ بچے کو لایا جس کا چہرہ ماہِ کامل کی طرح روشن تھا، اور فرمایا: "اگر تیرا مقام اتنا بلند نہ ہوتا تو میں تجھے اپنا یہ فرزند نہ دکھاتا۔" (کمال الدین، ج۲، ص۳۸۴)
🔹 کبھی اپنے بیٹے کو اصحاب کی جماعت کے سامنے لاتے تاکہ شک و شبہ ختم ہو۔ (بحار الانوار، ج۵۱، ص۶)
🔹 کئی بار اپنے فرزند کے لیے عقیقہ دیا تاکہ زیادہ لوگوں کو پتہ چلے کہ اللہ نے آپ کو فرزند عطا فرمایا ہے۔ (کمال الدین، ج۲، ص۴۳۱)
وکالت کا نظام اور اس کا کردار
امام حسن عسکری علیہ السلام نے وکالت کے نظام کو مضبوط کیا تاکہ شیعہ ہمیشہ امام سے رابطے میں رہ سکیں۔ یہ وکلاء واسطے کا کردار ادا کرتے اور شیعہ اپنے مسائل و سوالات انہی کے ذریعے امام تک پہنچاتے۔
مثلاً علی بن بابویہ قمی نے فرزند کے لیے دعا کی درخواست وکلاء کے ذریعے امام زمانہؑ تک پہنچائی۔ دعا کے نتیجے میں ان کے ہاں مشہور فقیہ شیخ صدوق (محمد بن علی بن بابویہ) پیدا ہوئے۔ (کمال الدین، ج۲، ص۵۰۳)
نیابت خاص (چار نواب خاص) دراصل شیعیان کو غیبت کبری کے لیے تیار کرنے کا ذریعہ تھا تاکہ وہ بتدریج براہِ راست امام سے محروم ہونے کے بعد نواب عام (یعنی فقہا و مراجع) کی طرف رجوع کریں۔
امام حسن عسکریؑ کی چند احادیث
حدیث ۱: خادم ابو حمزہ نصیر روایت کرتے ہیں کہ میں نے بارہا دیکھا کہ امام ہر غلام سے اس کی زبان (ترکی، رومی، عربی) میں بات کرتے۔ میں حیران ہوا۔ امام نے فرمایا: "خدا اپنے حجت کو تمام زبانوں اور اقوام سے واقف بناتا ہے تاکہ وہ سب کے لیے دلیلِ روشن ہو۔ اگر یہ خصوصیت نہ ہو تو امام اور دوسروں میں فرق باقی نہیں رہتا۔" (الکافی، ج۱، ص۵۰۹)
حدیث ۲: مَن أنِسَ باللّه ِ اسْتَوحَشَ مِن النّاسِ. "جو شخص اللہ سے انس رکھتا ہے، وہ لوگوں سے وحشت کرتا ہے۔" (نزهة الناظر، ص۱۴۶، ح۱۱)
حدیث ۳: مَن رَکِبَ ظَهَر الباطِلِ نَزَلَ بِهِ دارَ النَّدامَةِ. "جو باطل پر سوار ہو گا، وہ پشیمانی کے گھر میں اترے گا۔" (نزهة الناظر، ص۱۴۶، ح۱۹)
حدیث ۴:لَا یُسْبَقُ بَطِیءٌ بِحَظِّهِ وَ لَا یُدْرِکُ حَرِیصٌ مَا لَمْ یُقَدَّرْ لَهُ. مَنْ أُعْطِیَ خَیْراً فَاللَّهُ أَعْطَاهُ وَ مَنْ وُقِیَ شَرّاً فَاللَّهُ وَقَاهُ. "کسی کا رزق چھوٹنے والا نہیں، چاہے وہ سست ہو۔ اور کوئی حریص شخص اپنی قسمت سے زیادہ نہیں پاتا۔ جسے خیر ملا وہ اللہ نے دیا اور جسے شر سے بچایا گیا وہ بھی اللہ کی حفاظت سے بچا۔"
(نزهة الناظر، ص۱۴۶، ح۲۰)
حدیث ۵: خَصْلَتانِ لَیْسَ فَوْقَهُما شَیءٌ: الإیمانُ بِاللهِ وَ نَفْعُ الإخْوانِ. "دو عادتیں ایسی ہیں جن سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں: اللہ پر ایمان اور اپنے دینی بھائیوں کو فائدہ پہنچانا۔" (تحف العقول، ص۴۸۹)
خلاصہ
امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی مختصر مگر پراثر تھی۔ آپ نے اپنے بیٹے امام مهدی عجلاللهفرجه کی امامت کو واضح کیا، وکالت کے نظام کو مضبوط کیا اور شیعوں کو غیبت کے دور کے لیے تیار فرمایا۔ آپ کے اقوال و احادیث آج بھی انسان کی زندگی کے لیے چراغِ راہ ہیں۔









آپ کا تبصرہ