ہفتہ 1 فروری 2025 - 06:30
ماہ شعبان مومنین کی رزق و روزی اور حسنات میں اضافہ کا مہینہ، مولانا سید نقی مہدی زیدی

حوزہ/ امام جمعہ تاراگڑھ:شعبان المعظم کے مہینے کو احادیث میں پیغمبر اکرم ؐ سے منسوب کیا گیا ہے۔ شعبان "شعب" سے مشتق ہوا ہے اور چونکہ اس مہینے میں مومنین کی رزق و روزی اور حسنات میں اضافہ ہوتا ہے اسلئے اس مہینے کو "شعبان" کا نام دیا گیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگھڑ میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقویٰ الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامہ کی شرح و تفسیر کے ذیل میں کہا: شعبان المعظم کے مہینے کو احادیث میں پیغمبر اکرم ؐ سے منسوب کیا گیا ہے۔شعبان "شعب" سے مشتق ہوا ہے اور چونکہ اس مہینے میں مومنین کی رزق و روزی اور حسنات میں اضافہ ہوتا ہے اسلئے اس مہینے کو "شعبان" کا نام دیا گیا ہے۔

مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں سے متصل فرماتے تھے، اور اس بارے میں آنحضرت ص کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینے میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب ماہ شعبان کا چاند نموردار ہوتا تو امام زین العابدین علیہ السلام تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب ! جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی کی محبت اور خداکی قربت کے لیے اس مہینے میں روزے رکھو۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی بن الحسین کی جان ہے، میں نے اپنے پدر بزرگوار حسین بن علی علیہما السلام سے سنا۔ وہ فرماتے تھے میں اپنے والد گرامی امیرالمومنین علیہ السلام سے سنا کہ جو شخص محبت رسول خدا اور تقرب خدا کے لیے شعبان میں روزہ رکھے توخدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کرے گا قیامت کے دن اس کو عزت وحرمت ملے گی اور جنت اس کے لیے واجب ہو جائے گی۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ: صفوان جمّال سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام ہمیں حکم دیتے تھے کہ اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزہ رکھنے پر آمادہ کرو، میں نے عرض کیا میں آپ ؑ پر قربان ، اس کی فضیلت بیان فرمائیں تو امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب ماہ شعبان نمودار ہوتا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منادی کو حکم دیتے کہ وہ مدینہ میں ندا کرے ‘‘اے اہل مدینہ! میں اللہ کی جانب سے تم پر مبعوث ہوا ہوں ، جان لو کہ شعبان میرا مہینہ ہے ۔خدا اس بندے پر رحمت نازل کرے جو اس ماہ میں میری مدد کرے یعنی روزہ رکھے۔ ’’ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: جب سے میں نے منادی رسولؐ کی ندا سنی ہے اس کےبعد شعبان کا روزہ مجھ سے ترک نہیں ہوا اور جب تک زندگی ہے ان شاءاللہ ماہ شعبان کے روزے مجھ سے ترک نہیں ہوں گے، نیز فرمایا کہ شعبان و رمضان دو مہینے کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔

خطیب جمعہ نے کہا کہ: ماہ شعبان اور اس کے پہلے دن کے بارے میں ثقۃ الاسلام نوری (رح) نے کتاب کلمہ طیبہ کے آخر میں ایک روایت نقل کی ہے۔ جس میں بہت سے فوائد و برکات کا ذکر ہے، یہ روایت بڑی طویل ہے۔ اس وقت اس کا خلاصہ ذکرکر رہا ہوں:

یکم شعبان کو چند افراد مسجد میں بیٹھے قضا وقدر کے مسئلہ پربحث و تکرار کرتے ہوئے بلند آواز سے بول رہے تھے۔ امیرالمومنین علی (ع) نے ان لوگوں کو سلام کیا، جب انہوں نےآپ سے وہاں تشریف رکھنے کی خواہش کی تو آپ نے فرمایا: تم لوگ ایسی باتیں کر رہے ہو، جن میں کوئی فائدہ نہیں آیا تم نہیں جانتے کہ خدا کے ایسے بندے بھی ہیں جو صرف خوف خدا سے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں لیکن وہ بولنے سے قاصر نہیں ہوتے۔ بات یہ ہے کہ جب ان کے دلوں میں عظمت خداوندی کا تصور آتا ہے۔ تو ان کی زبانیں گنگ اور ان کی عقلیں حیران ہوجاتی ہیں پھر جب وہ اپنی حالت میں آتے ہیں تو خود کو بارگاہ الٰہی میں گنہگار و خطاکار سمجھتے ہوئے آہیں بھرتے ہیں جبکہ وہ گناہوں سے مبرأ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے عمل کو کم تر سمجھتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ہم میں تقصیر اور کوتاہی ہے۔ پس وہ ہر وقت عمل خیر میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ان کی طرف نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ حالت خوف میں عبادت میں کھڑے ہیں اور ان کا اضطراب ظاہر ہے۔ ان لوگوں کے مقابلے میں تم کہاں ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ سب سے بڑا دانا وہ ہے جو زیادہ خاموش رہے اور سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو بہت زیادہ باتیں کرتا ہو۔ اے نادان و کم سمجھ لوگو! آج یکم شعبان ہے اور خدائے تعالیٰ نے اس کا نام شعبان اس لیے رکھا ہے کہ اس میں نیکیاں عام کردی جاتی ہیں، حسنات کے دروازے کھل جاتے ہیں اورجنت کے محلات ارزاں قیمت اورآسان تر اعمال سے حاصل ہوتے ہیں۔ پس عبادت کرکے انہیں خرید لو۔ شیطان، ابلیس نے برائیوں کو تمہارے لیے پسندیدہ بنا دیا ہے، تم گمراہی نافرمانی اور سرکشی میں پڑے ہو، شیاطین کی بدیوں اور برائیوں کی طرف متوجہ ہو اور شعبان کی خوبیوں اور اچھائیوں سے منہ نہ موڑو۔ جب کہ خدا کی طرف سے حسنات و خیرات کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔

آج یکم شعبان ہے اور اس کی حسنات و خیرات میں نماز، روزہ، امر بہ معروف و نہی از منکر، والدین، ہمسایہ اور اقربا سے حسن سلوک، آپس کے اختلافات دور کرنا اور فقراء و مساکین کے لیے صدقہ و خیرات کرنا ہے۔ ادھر تم ہو کہ قضا و قدر کی بحث میں الجھے ہوئے ہو۔ کہ جس کا تمہیں حکم نہیں دیا گیا، جن باتوں سے تمہیں منع کیا گیا ہے تم ان میں مشغول ہو۔ خبر دار رہو کہ جو راز الٰہی کے کھولنے میں کوشاں ہوگا وہ برباد ہوجائے گا۔ آج کے دن اطاعت کرنے والوں کے لیے خدا نے جو کچھ مہیا فرمایا ہے اگر تمہیں اس کا علم ہوجائے تو یقینا تم ان بے کار بحثوں کو چھوڑکر احکام خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤ گے۔

پھر آنحضرت (ص) نے ایک ایک کرکے یکم شعبان کے اعمال کا ذکر فرماتے ہوئے کہا: جب یکم شعبان کا دن آتا ہے تو شیطان اپنے گماشتوں سے کہتا ہے کہ ہر طرف پھیل جاؤ، لوگوں کو اپنی طرف بلاؤ اور انہیں خدا سے دور کرو، جب کہ خدائے رحمان اپنے ملائکہ سے فرماتا ہے کہ آج یکم شعبان ہے، تم ہر طرف پھیل جاؤ اور میرے بندوں کو میری طرف بلاؤ، انہیں نیکی کی طرف راغب کرو تاکہ وہ سب با سعادت اور نیک بخت بن جائیں البتہ ان میں سے سرکش اور نافرمان لوگ شیطان کے گروہ میں ہی رہیں گے، آنحضرت نے فرمایا کہ جب یکم شعبان ہوتی ہے تو بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، شجر طوبیٰ کو حکم ہوتا ہے کہ اپنی شاخیں پھیلائے اور انہیں زمین کے قریب کرے، خدا کا ایک منادی یہ ندا دیتا ہے کہ اے خدا کے بندو اور اے نیکوکار لوگو! طوبیٰ کی ان شاخوں سے لپٹ جاؤ کہ وہ تمہیں اٹھاکے جنت میں لے جائیں، جب کہ بدکاروں کی لیے تھوہر کا درخت ہے اور ڈرتے رہو کہ کہیں اس کی شاخیں تمہیں جہنم میں نہ لے جائیں، رسول خدا نے یہ بھی فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے مجھ کو حق کے ساتھ رسالت پر مبعوث فرمایا کہ جو یکم شعبان کے دن نیکی کرے تو وہ طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا اور وہ اسے جنت میں لے جائے گی۔ پھر فرمایا جو آج کے دن نماز پڑھے یا روزہ رکھے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ اسی طرح جوشخص آج کے دن باپ بیٹے میں صلح کرائے۔ میاں بیوی میں سمجھوتہ کرائے، رشتہ داروں میں راضی نامہ کرائے یا اپنے ہمسائے یا کسی اجنبی میں مصالحت کرائے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ جو مقروض کی پریشانی کم کرے یا طلب میں تخفیف کرے تو وہ شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ جو شخص آج کے دن اپنے حساب پر نظر کرے اور دیکھے کہ ایک پرانا قرضہ ہے جسے مقروض ادا نہیں کرسکتا۔ پس وہ اس قرضے کو حساب سے کاٹ دے تو وہ طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا۔ جو کسی یتیم کی کفالت کرے، کسی جاہل کو مؤمن کی ہتک کرنے سے باز کرے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ جو قرآن کی تلاوت کرے، مریض کی عیادت کرے، خداکا ذکر کرے اور خدا کی نعمتوں کا نام لے لے کر اس کا شکر ادا کرے تو وہ بھی طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا۔ جوشخص آج کے دن اپنے ماں یا باپ یا دونوں میں سے ایک کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ بھی طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا، جو اس سے پہلے کسی کو غضب ناک کرچکا ہو اور آج اسے راضی اور خوش کردے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹا جو شخص جنازے کے ساتھ چلے تو وہ بھی طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا، جو کسی مصیبت زدہ کی بھی دلجوئی کرے وہ شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا، اور جو شخص آج کے دن کوئی بھی نیک کام کرے تو وہ شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔

اس کے بعد رسول اکرم نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے مجھ کو رسالت پر مامور کیا ہے کہ جو شخص آج کے دن شر و بدی کا کوئی بھی کام کرے تو وہ زقوم ﴿تھوہر﴾ کی شاخوں سے لپٹ گیا اوروہ اسے جہنم کی طرف کھینچ لے جائیں گیں پھر فرمایا کہ قسم ہے مجھ کو اس ہستی کی جس نے مجھے پیغمبر (ص) قرار دیا کہ جو شخص بھی آج کے دن واجب نماز میں کوتاہی کرتے ہوئے اسے ضائع کرے تو وہ بھی شجر زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا، جس کے پاس کوئی فقیر و ناتواں آئے کہ جس کی حالت کو یہ جانتا ہے اور اس کی حالت کو بدل بھی سکتا ہے کہ خود اس کو کچھ ضرر نہیں پہنچتا نیز اس غریب کی مدد کرنے والا کوئی دوسرا شخص بھی نہ ہو پس اگر وہ اس درماندہ کو اس حالت میں چھوڑدے اور وہ ہلاک ہوجائے تو یہ مدد نہ کرنے والا زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا، جس کے سامنے کوئی برے کام والا آدمی معذرت کرے اور پھر بھی وہ اس کو اس کی برائی کی سزا سے کچھ زیادہ سزا دے تو یہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا، جو شخص آج کے دن میاں بیوی یا باپ بیٹے یا بھائی بھائی یا بھائی بہن یا کسی قریبی رشتہ داریا ہمسائے یا دو دوستوں میں جدائی اور غلط فہمی پیدا کرے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا، جو شخص کسی تنگ دست پر سختی کرے کہ جس کی حالت کو جانتا ہے اور اس کی مصیبت میں اپنے غصے کا اضافہ کرے تو وہ زقوم کی شاخوں سے لپٹ گءا، جس پر کسی کا قرض ہو اور یہ اس کا انکار کردے اور اپنی عیاری سے اس قرض کو باطل قرار دے تو یہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا، جو شخص کسی یتیم کو اذیت دے اس پر ستم توڑے اور اس کے مال و متاع کو ضائع کردے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا، اور جو شخص کسی مومن کی عزت کو خراب کرے اور دوسروں کو ایسا کرنے کے لیے شہ دے تو وہ بھی اس درخت کی شاخوں سے لپٹ گیا، جو شخص گانا گائے اور لوگ اس کے گانوں سے گناہوں میں مبتلا ہوں تو وہ زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا، اور جوشخص زمانہ جنگ میں کئے ہوئے اپنے برے کاموں اور اپنے ظلم و ستم کے دوسرے واقعات لوگوں میں بیٹھ کر فخر سے سنائے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا، جو شخص اپنے بیمار ہمسایہ کو کمتر تصور کرتے ہوئے اس کی عیادت نہ کرے تو وہ زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا، اور جو شخص اپنے مردہ ہمسائے کو ذلیل سمجھتے ہوئے اس کے جنازے کے ساتھ نہ جائے تو وہ بھی اس درخت کی شاخوں سے لپٹا، جو شخص کسی ستم رسیدہ سے بے رخی برتے اور اسے پست خیال کرتے ہوئے اس پر سختی کرے تو وہ زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا، اور جو شخص اپنے ماں باپ یا دونوں میں سے کسی ایک کا نافرمان ہوجائے تو وہ بھی اس درخت کی شاخوں سے لپٹ گیا، جو شخص آج کے دن سے قبل اپنے ماں باپ کا نافرمان ہو اور آج کے دن ان کو راضی و خوش نہ کرے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا، نیز جو بھی شخص ان برائیوں کے علاوہ کسی اور بدی و گناہ کا ارتکاب کرے تو وہ بھی درخت زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا، آنحضرت (ص) نے مزید فرمایا: قسم ہے مجھے اس ذات کی جس نے مجھ کو نبی (ص) و پیغمبر(ص) بنایا کہ جو لوگ درخت طوبیٰ کی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہونگے وہ انہیں اٹھاکر جنت میں لے جائینگے۔ اس کے بعد رسول اﷲ نے چند لمحوں کیلئے اپنی نگاہ آسمان کی طرف بلند کی تو آپ خوش ہوئے اور ہنسے پھر اپنی نگاہ زمین پر ڈالی اور آپ (ص) کا چہرہ مبارک کچھ ترش ہؤا۔ تب اپنے اصحاب کی سمت دیکھتے ہوئے فرمایا مجھ کو قسم ہے اس ہستی کی جس نے مجھے پیغمبر (ص) قرار دیا کہ میں نے شجر طوبیٰ کو بلند ہوتے اور اپنے سے لپٹے ہوئے لوگوں کو جنت کی طرف لے جاتے دیکھا ہے، بقدر اپنی اطاعت و نیکوکاری کے کہ اسکی ایک شاخ یا کئی کئی شاخوں سے لپٹے ہوئے تھے میں نے دیکھا کہ زید بن حارثہ اسکی کئی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور وہ ان کو جنت کے مقام اعلیٰ علیین کی طرف بلند کرتی جا رہی ہیں یہ دیکھ کر میں خوش ہوا اور ہنسا۔ پھر میں نے زمین پر نظر ڈالی تو قسم ہے اس ہستی کی جس نے مجھ کو نبی (ص) بنایا، کہ میں نے درخت زقوم کو دیکھا کہ اس کی شاخیں نیچے کو جارہی ہیں اور جو لوگ اپنی برائیوں کے مطابق اس کی ایک یا کئی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہیں وہ ان کو جہنم کے سب سے نچلے طبقے کی طرف لے جا رہی ہیں۔ اس سے میرے چہرے پر بیزاری کے آثار ظاہر ہوئے تھے، اور اس کے ساتھ کئی منافق لپٹے ہوئے تھے۔

حجۃالاسلام مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: ماہ شعبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مہینہ ہے ، اس ماہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیاروں کی ولادت ہوئی چنانچہ اس مہینے کے پہلے ہفتے میں:

١- روایت کی بنیاد پر یکم شعبان سن ٥ ہجری کو ولادت حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا
٣ شعبان المعظم سن ٤ ہجری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چھوٹے نواسے محسن انسانیت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی ولادت ہوئی ۔ جنہوں نے عظیم قربانیاں دے کر دین رسول ؐ کی حفاظت کی اور حدیث رسولؐ ‘‘انا من الحسینؑ’’ کی وضاحت کی۔
۴؍ شعبان المعظم سن 26 ہجری کو اللہ کے عبد صالح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطیع محض حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کی ولادت ہے جنکی تمنا نفس رسولؐ امیرالمومنین علیہ السلام نے کی، بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے جنہیں اپنا بیٹا کہا، امام حسین علیہ السلام نے جنہیں اپنے لشکر کا علمدار بنایا۔ حضرت عباس علیہ السلام نے نصرت دین میں اپنے دونوں ہاتھ قربان کر دئیے ، روایت کے مطابق آپؑ کے یہی دونوں ہاتھ قیامت میں امت کی شفایت کا وسیلہ ہوں گے۔
۵؍ شعبان سن 38 ہجری کو بعض روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چوتھے جانشین امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha