سوال: حدیث ( جو کوئی حسین ؑ پر رویۓ یا رونے کی صورت بنائے اس پر جنت واجب ہے) جو کہ امام جعفر صادق علیہ سلام سے منسوب ہے اس حدیث کی صحت کے بارے میں ہمارے سید محترم جناب مرجع عالی القدر کی کیا رائے ہے؟
جواب: کئی روایات میں (کہ جن میں سے بعض معتبر بھی ہیں)، ایسے شخص کے لیئے ، جنت کا وعدہ کیا گیا ہےجو حسین علیہ سلام پر گریہ زاری کرے، اوربعض روایات میں ایسا ہی مفہوم اس شخص کے لیئے بھی وارد ہوا ہےکہ جو رونے کی صورت بنائے یا کوئی شعر کہے اور اس پر دوسروں کو رلائے، اور اس بات میں کوئی تعجب بھی نہیں ہے کیوں کہ جنت کا وعدہ دونوں فرقوں کی احادیث میں کئی اعمال کے سلسلے میں کیا گیا ہے البتہ یہ بات معلوم رہے کہ اس سے مراد یہ نہیں کہ مکلف عقاب سے امان کا اطمئنان کرلے یہاں تک کہ واجبات کو ترک کردے یا محرمات کا ارتکاب کرنے لگے، حالانکہ محرمات کے ارتکاب پرآیات قرآنی میں جو شدید عذاب کی خبر دی گئی ہے اس کے ہوتے ہوے مکلف کوعذاب سے اطمئنان ہو بھی کیسے سکتا ہے!؟
پس در حقیقت ان آیات کی روشنی میں ان روایات کا مفھوم یہ ہوا کہ مفروضہ عمل پرجنت کی جزاء اس وقت ہوگی جب وہ عمل بارگاہ الہٰی میں قابل قبول ہو، کیوں کہ بعض اوقات معصیت کاریاں عمل کی قبولیت میں اسطرح مانع بن جاتی ہیں کہ عمل قابل قبول ہی نہیں رہتا کہ وہ انسان کو جزائے جنت پر فائز کرے یا جہنم سے بچاسکے، بتعبیر دیگر وہ عمل جس پر جزا کا وعدہ کیا گیا ہو۔
البتہ تباکی(رونے کی شکل بنانا) تو اس سے مراد دوسروں کے سامنے فقط رونے کا اظہار کرنا ہرگز نہیں، بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان جس بات کو حق جانتا ہو اور اگر اسکی خاطر رونا چاہے مگر کسی وقت وہ اپنے دل و شعور میں وہ نمی محسوس نہ کرے کہ جس سے خودبخود گریہ ہوتا ہے تو وہ اپنے اوپر گریہ کو طاری کرنے کی کوشش و زحمت کرے شاید کے اسکا دل مایل ہوجائے اور اسکے احساسات و مشاعر ندائے عقلی کے سامنے موم ہو جائیں اور اس معنی میں بھی جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس شخص کے لیئے کہ جو ذکر اللہ سبحانہ پر روے یہ رونے کی صورت بنائے جیسا کہ کئی علماء نےاشارہ کیا ہے کہ جن میں سے ایک علامۃ مکرم(رحمت اللہ علیہ)نے کتاب مقتل الحسینؑ میں بھی واضح کیا ہے۔
Sistani.org