حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا سید نقی مھدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقویٰ الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامہ کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے روزہ کے حقوق کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ: امام زین العابدین علیہ السّلام نے فرمایاکہ کہ روزہ کا حق یہ ہے روزہ کا حق: و أَمَّا حَقُّ الصَّوْمِ فَأَنْ تَعْلَمَ أَنَّهُ حِجَابٌ ضَرَبَهُ اللهُ عَلَى لِسَانِكَ وَسَمْعِكَ وبَصَرِكَ وَفَرْجِكَ وبَطْنِكَ لِيَسْتر’َكَ بهِ مِن النَّارِ وَهَكَذَا جَاءَ فِي الْحَديثِ “الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ” فَإنْ سَكَنَتْ أَطْرَافُـكَ فِي حَجَبَتِهَا رَجَوْتَ أَنْ تَكُونَ مَحْجُوبًا. وَإنْ أَنْتَ تَرَكْتَهَا تَضْطَرِبُ فِي حِجَابهَا وتَرْفَعُ جَنَبَاتِ الْحِجَاب فَتُطّلِعُ إلَى مَا لَيْسَ لَهَا بالنَّظْرَةِ الدَّاعِيـَةِ لِلشَّهْوَةِ وَالقُوَّةِ الْخَارِجَةِ عَنْ حَدِّ التَّقِيَّةِ للهِ لَمْ تَأمَنْ أَنْ تَخرِقَ الْحِجَابَ وَتَخرُجَ مِنْهُ. وَلا قُوَّةَ إلا باللهِ.
روزہ کا حق یہ ہے کہ جان لو روزہ ایک حجاب و پردہ ہے جسے خدا وند عالم نے تمہاری زبان، کان، آنکھ، شرمگاہ اور تمہارے پیٹ پر ڈال رکھا ہے تاکہ اس کے ذریعہ تمہیں دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے لہذا اگر تم نے روزہ کو ترک کیا تو گویا خدا کے ڈالے ہوئے حجاب کو تم نے پارہ کیا۔ اسی طرح حدیث میں بھی بیان ہوا ہے کہ روزہ آتش دوزخ سے بچنے کی سپر ہے ۔
اگر اس حجاب سے تمہارے اعضاو جوارح کو سکون و آرام ملے تو امیدوار رکھو کہ تم پردے میں ہو اور اگر تم نے اس پردہ کا پاس و لحاظ نہ کیا تو تم نے خدا کے حجاب میں رخنہ ڈالا اور جب تم نے پردہ اٹھا دیا تو تمہاری نگاہ اس چیز کو دیکھے گی جس کو تمہیں نہیں دیکھنا چاہیے اور اس کے مقابلے اپنے اختیارات و کنٹرول کی طاقت کو کم کیا ہے۔ وہ تمہیں خدا کی پناہ سے نکال دے گی اور جہاں پردہ چاک ہوجائے اور تم اس سے باہر نکل جاؤ تو وہاں تمہیں خود کو محفوظ نہیں سمجھنا چاہیے۔ خدا کے علاوہ کوئی قوت و طاقت نہیں ہے۔
امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ: محمد بن مسلم سے روایت نقل ہوئی ہے اور یہ روایت کتاب کافی، کتاب فقیہ اور کتاب تہذیب میں موجود ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: جب تم روزے سے ہو تو تمھیں چاہیےکہ باطنی روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ظاہر کا بھی خیال رکھے اور اپنے کان، آنکھ، زبان، ہاتھ، پاؤں سب کا روزہ رکھے باطنی روزے کے ساتھ ساتھ۔ ظاہری روزہ بھی رکھے جیسے آنکھ، کان، زبان اور ہاتھ، پیر کا بھی روزہ ہوں۔
دوسری جگہ پر امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: روزہ صرف کھانے اور پینے سے پرہیز کا نام نہیں ہے، بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ جناب مریم نے کہا کہ میں نے اللہ کے لئے روزہ رکھنے کی نذر مانی ہے یعنی میں اپنا منہ نہیں کھولوں گی سوائے اللہ کی حمد و ستائش کے لئے اگر تم روزے سے ہو تو اپنی زبان کو بھی سنبھالو۔ اپنی نظریں نامحرموں کے آگے جھکائے رکھو۔ کسی کے ساتھ جھگڑا نہ کرو۔ حسد نہ کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ آپ کےکی ازواج میں سے ایک بیوی نے روزہ کی حالت میں ایک کنیز کو برا بھلا کہا تو آپ نے فرمایا: کہ اس خاتون کے لیے لئےکھانا تیار کرو پھر آپ نے اس خاتون سے فرمایا: کھانا کھالو" " اس نے عرض کی میں روزے سے ہوں،" تو آپ نے فرمایا: جب تم اپنی کنیز کی توہین کرتی ہو اور اس سے برا بلاکہتی ہو اور گندی زبان استعمال کرتی ہو تو تمھارا روزہ کیسے باقی رہا پھر فرمایا: کہ روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں ہے۔بلکہ آپ ص نے فرمایا: جب تم روزہ رکھ کر کھانے پینے سےاپنے آپ کو روک لیتے ہو اسی طرح ضروری ہے بدن کے ظاہری اعضاء و جوارح کو بھی محفوظ رکھو۔ روزہ دار کے لیےلئے ضروری ہےکہ اس کی آنکھ ،کان،زبان سب روزہ سے ہوں۔
خطیب جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ: رمضان کی پہلی تاریخ کو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے مسجد کوفہ میں خطبہ ارشاد فرمایا، خطَبَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع فِي أَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ بِأَفْضَلِ الْحَمْدِ وَ أَشْرَفِهَا وَ أَبْلَغِهَا وَ أَثْنَى عَلَيْهِ بِأَحْسَنِ الثَّنَاء وَ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ نَبِيِّهِ ص ثُمَّ قَال:
أيُّهَا الصَّائِمُ تَدَبَّرْ أَمْرَكَ فَإِنَّكَ فِي شَهْرِكَ هَذَا ضَيْفُ رَبِّكَ انْظُرْ كَيْفَ تَكُونُ فِي لَيْلِكَ وَ نَهَارِكَ وَ كَيْفَ تَحْفَظُ جَوَارِحَكَ عَنْ مَعَاصِي رَبِّكَ انْظُرْ أَنْ لَا تَكُونَ بِاللَّيْلِ نَائِماً وَ بِالنَّهَارِ غَافِلًا فَيَنْقَضِيَ شَهْرُكَ وَ قَدْ بَقِيَ عَلَيْكَ وِزْرُكَ فَتَكُونَ عِنْدَ اسْتِيفَاءِ الصَّائِمِينَ أُجُورَهُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ وَ عِنْدَ فَوْزِهِمْ بِكَرَامَةِ مَلِيكِهِمْ مِنَ الْمَحْرُومِينَ وَ عِنْدَ سَعَادَتِهِمْ بِمُجَاوَرَةِ رَبِّهِمْ مِنَ الْمَطْرُودِين
خدا کی بہترین حمد و ثنا اور حضرت نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ پر صلوات و درود کے بعد فرماتے ہیں:
اے روزہ دار! اپنے کاموں میں غور و فکر کرو، کیونکہ تم اس مہینے میں اپنے رب کے مہمان ہو! لہذا خیال رہے کہ تم اپنے روز و شب میں کس طرح رہتے ہو اور کس طرح اپنے اعضاء و جوارح کو خدا کی نافرمانی سے محفوظ رکھتے ہو۔
دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم رات میں سوتے رہو اور دن غفلت میں کاٹ دو، اس طرح پورا مہینہ ختم ہوجائے اور گناہوں کا بوجھ تمہارے دوش پر ابھی بھی باقی ہو، اور جب روزہ دار حضرات اسکی جزا پا رہے ہوں تو تم گھاٹا اٹھانے والوں میں قرار پاؤ، اور جب وہ اپنے مالک کی جانب سے انعام و اکرام سے نوازے جارہے ہوں تو تم محرومین میں رہو، اور جب وہ خدا کی بارگاہ میں سعادت سے ہمکنار ہوں تو تم مردود بارگاہ بن جاؤ۔
مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: یہ مہینہ خاص اللہ کا ہے، اور اس میں تمام روزے دار، چاہے وہ کسی بھی رنگ و نسل، علاقے یا کسی نظریے سے تعلق رکھتے ہوں، اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ اللہ کی رحمت، مغفرت اور برکت سب کے لیے برابر ہے، بالکل ایسے جیسے سورج کی روشنی سب پر یکساں پڑتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ہر انسان اپنی روحانی اور جسمانی صلاحیت کے مطابق اس مہینے کی برکات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
انہوں نے مزید اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کے آخری دنوں میں ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا:
"اے لوگو! تمہارے پاس اللہ کا مہینہ آ رہا ہے، جو برکت، رحمت اور مغفرت سے بھرا ہوا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جو اللہ کے نزدیک سب سے افضل ہے، اس کے دن سب دنوں سے بہتر، اس کی راتیں سب راتوں سے افضل، اور اس کے لمحے سب لمحوں سے برتر ہیں۔ تمہیں اللہ نے اس مہینے میں اپنے مہمانوں میں شامل کیا ہے اور تمہیں عزت بخشی ہے۔ تمہاری سانسیں تسبیح، نیند عبادت، اعمال مقبول، اور دعائیں مستجاب ہیں۔ پس، تمہیں چاہیے کہ سچے دل اور نیک نیت سے اللہ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں روزے رکھنے اور قرآن کی تلاوت کی توفیق عطا فرمائے۔"
امام جمعہ تاراگڑھ نے رمضان المبارک کی اہمیت اور انسان کی زندگی میں اس مقدس مہینے کے اثرات و برکات کے سلسلے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک روایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ: سید ابن طاؤس (علیہ الرحمہ) نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ امامؑ نے فرمایا:ماہ رمضان سے سال کا آغاز ہوتا ہے ، اگر رمضان اچھا گزرےگا تو پورا سال اچھا گزرے گا۔
مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: کیوں امام علیہ السلام نے رمضان کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا ؟ جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ قمری سال کا پہلا مہینہ محرم ہے اور محرم سے سال کا آغاز ہوتا ہے! سید بن طاؤوس نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں اس سوال کا جواب دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ سال کا آغاز مختلف لوگوں کے اعتبار سے الگ الگ ہے، عابدوں اور زاہدوں اور وہ افراد جو عبودیت کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں ان کے سال کی شروعات رمضان المبارک سے ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا : رمضان المبارک ان لوگوں کے لیے بہترین مہینہ ہے جو بندگی خدا کے لیے عظیم قدم اٹھانا چاہتے ہیں، صحیفہ سجادیہ میں استقبال ماہ رمضان کے سلسلے میں امام سجاد علیہ السلام کی ایک دعا موجود ہے، اور اسی طرح اس مہینے کے آخر میں ’وداع ماہ رمضان‘ کے لئے عنوان سے بھی ایک دعا موجود ہے، جو شخص رمضان المبارک کا اچھے طریقے سے استقبال اور خیرمقدم کرے گا وہی شخص اس مہینے کو اچھے طریقے سے الوداع کہہ سکتا ہے۔









آپ کا تبصرہ