حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا سید نقی مھدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقویٰ الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامہ کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے روزہ کے حقوق کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ: واقعی روزہ دار کون ہے؟ امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کے کچھ شرائط ہیں، جن کی رعایت سے روزہ مکمل ہوتا ہے۔ یعنی جب تم روزہ رکھو تو: اپنی زبان کی حفاظت کرو، اپنی آنکھوں کو ناروا چیزوں سے بچاؤ، آپس میں جھگڑا نہ کرو، حسد نہ کرو، غیبت سے پرہیز کرو، بیہودہ بحث و جدل نہ کرو،گالی مت دو اور ماتحت افراد کے ساتھ بدزبانی نہ کرو، اور ہر دن کا روزہ، پچھلے دن کے روزے سے بہتر ہو۔
حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "فرَضَ اللهُ الْإِيمَانَ تَطْهِيراً مِنَ الشِّرْكِ، وَالصَّلاَةَ تَنْزِيهاً عَنِ الْكِبْرِ، وَالزَّكَاةَ تَسْبِيباً لِلرِّزْقِ، وَالصِّيَامَ ابْتِلاَءً لْإِخْلاَصِ الْخَلْقِ" خداوند عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کے لئے، اور نماز کو فرض کیا رعونت سے بچانے کے لئے، اور زکات کو رزق کے اضافہ کا سبب بنانے کے لئے، اور روزہ کو مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کے لئے۔
انہوں نے مزید کہاکہ رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "انَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ: أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَيَقُومُونَ لا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ"، بہشت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں، قیامت کے دن صرف روزہ دار اس دروازے سے بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس دروازے سے بہشت میں داخل نہیں ہو گا۔ قیامت کے دن ندا آئے گی کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ اٹھیں گے اور ان کے سوا کوئی دوسرا "بہشت" میں داخل نہیں ہو گا اور جب وہ داخل ہو جائیں تو دروازہ بند ہو جائے گا اور کوئی دوسرا اس سے داخل نہیں ہو گا۔
خطیب جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ: فقہی لحاظ سے روزہ رکھنے کا مطلب ہے کہ طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کھانے، پینے اور دیگر ممنوعہ کاموں سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن روزے کا ایک باطنی پہلو بھی ہے، جس میں صرف بھوک اور پیاس برداشت کرنا کافی نہیں، بلکہ ہر طرح کے گناہ، برے اخلاق اور نافرمانی سے بھی اجتناب ضروری ہے، رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رُبَّ صائمٍ حَظُّهُ مِن صيامِهِ الجُوعُ و العَطَشُ "بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔" امام علیؑ نے بھی روزے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا کہ الصِّيامُ اجتِنابُ المَحارِمِ كما يَمتَنِعُ الرجُلُ مِنَ الطَّعامِ و الشَّرابِ، كَم مِن صائمٍ ليسَ لَهُ مِن صيامِهِ إلاّ الجُوعُ و الظَّمَأ "روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں، بلکہ تمام حرام کاموں سے بچنے کا نام ہے۔" یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص روزے کے دوران دوسروں کے حقوق پامال کرے، جھوٹ بولے، ظلم کرے یا کسی کا دل دکھائے، تو اس کا روزہ بے اثر ہو جاتا ہے۔
روزہ داری صرف عوام کے لیے نہیں، بلکہ عہدیداروں کے لیے بھی ایک کسوٹی ہے۔ جو عہدیدار روزہ تو رکھتے ہیں لیکن عوام کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے، انصاف میں کوتاہی کرتے ہیں، کرپشن کرتے ہیں، وہ محض بھوکے پیاسے رہنے کے سوا کچھ حاصل نہیں کر رہے۔ حقیقی روزہ دار وہی ہے جو اپنی ذمہ داریوں کو دیانتداری سے نبھائے اور لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرے، اللہ تعالیٰ کے حقوق تو شاید معاف ہو جائیں، لیکن بندوں کے حقوق تب تک معاف نہیں ہوں گے جب تک متاثرہ افراد خود معاف نہ کریں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم روزے کو صرف ظاہری عبادت نہ سمجھیں بلکہ اس کے اصل مقصد کو بھی اپنائیں اور اپنے اخلاق و کردار کو بہتر بنائیں۔
مولانا نقی مھدی زیدی نے رمضان میں عبادات کے مختلف پہلو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس مہینے میں:
1۔ نماز اور قیام اللیل: رمضان میں راتوں کو عبادت کرنا انسان کو اللہ کے قریب لے جاتا ہے۔ امام علی (ع) فرماتے ہیں "قِيَامُ اللَّيْلِ مَصْحَةٌ لِلْجَسَدِ وَرِضَى لِلرَّبِّ" رات کا قیام جسم کے لیے صحت بخش اور اللہ کی رضا کا باعث ہے، امام زین العابدین (ع) اپنی مشہور دعائے ابو حمزہ ثمالی میں فرماتے ہیں "إِلٰهِي مَنْ ذَا الَّذِي ذَاقَ حَلَاوَةَ مَحَبَّتِكَ فَرَامَ مِنْكَ بَدَلًا" اے معبود! وہ کون ہے جس نے تیری محبت کی مٹھاس چکھی ہو اور پھر کسی اور کو تجھ پر ترجیح دی ہو؟ یہ دعا رمضان میں تہجد اور قیام اللیل کے دوران مؤمنین کی روحانی تربیت کا ذریعہ ہے۔
2۔ تلاوتِ قرآن: امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں "لِكُلِّ شَيْءٍ رَبِيعٌ وَرَبِيعُ الْقُرْآنِ شَهْرُ رَمَضَانَ" ہرچیز کی بہار کا موسم ہوتا ہے، اور قرآن کی بہار رمضان کا مہینہ ہے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا "مَنْ قَرَأَ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ كَانَ لَهُ أَجْرُ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي غَيْرِهِ مِنَ الشُّهُورِ" جس نے رمضان میں قرآن کی ایک آیت پڑھی، اسے دوسرے مہینوں میں پورے قرآن کے ختم کرنے کا ثواب ملے گا۔
3۔ دعا و استغفار رمضان: دعا کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ نبی اکرم (ص) فرماتے ہیں "إِنَّ أَبْوَابَ السَّمَاءِ تُفْتَحُ فِي أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَلاَ تُغْلَقُ إِلَىٰ آخِرِ لَيْلَةٍ مِنْهُ"
رمضان کی پہلی رات آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور مہینے کے آخر تک بند نہیں ہوتے، امام موسیٰ کاظم (ع) فرماتے ہیں "إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَىٰ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ عِنْدَ الاِفْطَارِ يُعْتِقُ أَلْفَ أَلْفِ عَتِيقٍ مِنَ النَّارِ"اللہ تعالیٰ رمضان کی ہر رات افطار کے وقت دس لاکھ لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے۔
4۔ صدقہ و خیرات: امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں "صدَقَةُ اللَّيْلِ تُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ، وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ" رات کا صدقہ اللہ کے غضب کو ختم کرتا ہے اور بری موت کو دور کرتا ہے، امام رضا (ع) فرماتے ہیں "الصَّدَقَةُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ تُضَاعَفُ سَبْعِينَ ضِعْفًا" رمضان میں صدقہ دینے کا ثواب ستر گنا زیادہ ہے، رمضان کی عبادات کا مقصد نفس کو پاکیزہ کرنا ہے، اللہ کے قریب ہونا اور اپنی زندگی میں حقیقی تبدیلی لانا ہے۔
امام جمعہ تاراگڑھ نے ماہ مبارک رمضان کی ١٥,١٤,١٣ تاریخ کو دعائ مجیر کی قرأت کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ: دعائے مُجیر مشہور اسلامی دعاؤں میں سے ہے۔ یہ حضرت رسولؐ خدا سے منقول بڑی شان والی دعا ہے اور روایت ہے کہ یہ دعا حضرت جبرئیلؑ نے حضرت رسولؐ کو اس وقت پہنچائی جب آپ مقام ابراہیمؑ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ اس دعا کو کفعمی نے اپنی کتابوں البلد الامین اور المصباح میں اور شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں نقل کیا ہے کہ جو شخص اس دعا کو ماہ رمضان کے ایام بیض میں پڑھے تو اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے چاہے وہ بارش کے قطروں، درختوں کے پتوں اور صحرا کی ریت کے ذروں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ نیز یہ دعا مرض سے شفا، ادائے قرض، فراخی و تونگری اور غم کے دور ہونے کے لیے بھی مفید ہے، یہ ٨٨ فقرات پر مشتمل ہے اور ہر ایک فقرے میں دو ناموں، جیسے "سُبْحَانَكَ يَا دَائِمُ تَعَالَيْتَ يَا قَائِمُ ۔" خداوند متعال کی تنزیہ کی جاتی ہے اور ہر فقرے کا اختتام "أَجِرْنَا مِنَ النَّارِ يَا مُجِيرُ۔" ہمیں دوزخ کی آگ سے پناہ دے اے پناہ دینے والے سے ہوتا ہے۔
مولانا نقی مھدی زیدی نے شام میں الجولانی کے دہشتگردوں کے ہاتھوں علوی قبیلہ کے قتل عام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں جو ویڈیوز سامنے آرہی ہیں جس میں علویوں کو بنا کسی فرق کے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سب کو مارا جارہا ہے وہ شیئر کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں۔
آپ کا تبصرہ