حوزہ نیوز ایجنسی| مختار ۱ھ میں پیداہوئے۔ ان کی ماں کا نام دومہ تھا۔ ابوعبیدہ بن مسعود ثقفی کے فرزند تھے۔ پانچ بھائی تھے: مختار، جبیر، ابوجبیر، ابو الحکم، ابوامیہ۔ مختار کی کنیت ابواسحاق ہے۔ کَیْسَان لقب تھا جو امیر ؈ نے عطا کیا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ اصبغؓ کہتے ہیں کہ اپنی ران پر بٹھائے ہوئے تھے اور فرماتے تھے: اے کیس! اے کیس ! اے کیس!
اور کَیِّس کے لفظ سے کَیْسَان بنا ہے۔
حضرت امام محمد باقر ؈ نے فرمایا کہ مختار کو برا نہ کہو کیونکہ اس نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا ۔ خاندان بنی ہاشم کی بے شوہر عورتوں کا نکاح کرایا۔ تنگدستی کے وقت بہت سامان ہم کو بھیجا۔
فرماتے ہیں کہ میری ماں کا مہر میرے پدر بزرگوار نے مختار کے مال سے ادا کیا۔
عبد اللہ بن شریک راوی ہیں کہ میں خدمت امام محمد باقر ؈ میں حاضر تھا ، کوفہ کا ایک ضعیف شخص آپ کی بزم میں حاضر ہوا اور اس نے آپ کی دست بوسی کرنا چاہی آپ نے ہاتھ کھینچ لیا اور اسے بوسہ سے روک کر پوچھا پہلے تم بتاؤ کہ کون ہو اس نے کہا: میں مختار کا فرزند ابو الحکم ہوں، یہ سنتے ہی حضرت نے اسےاپنی طرف غیرمعمولی محبت سے کھینچا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت اسے گود میں بٹھالیں گے۔ موقع کی مناسبت سے ابوالحکم نے کہا: آپ فرمائیں اس لئے کہ آپ کا ہی ارشاد درست ہے۔ امام ؈ نے تین مرتبہ فرمایا: خدا مختار پر رحمت نازل کرے ۔ میری ماں کا مہر پدربزرگوار نے مختار کے بھیجے ہوئے مال سے ادا کیا مختار کے باعث ہمارے خاندان کے گرے ہوئے گھر دوبارہ درست کرائے ۔ مختار نے ہمارے دشمنوں کو قتل کرکے ہمارا بدلہ لیا۔
جناب زید کی مادر گرامی جن کا نام حور تھا ان کو مختار ہی نے امام زین العابدین ؈ کی خدمت میں بھیجا تھا، حور کو مختار نے بیس ہزار اشرفی میں خریدا تھا۔
۱۸؍ ربیع الثانی ۶۶ ھ کو بدھ کے دن مختار نے خروج کیا ، لوگوں نے مختار کی بیعت حسب ذیل چار باتوں پر کی تھی:
۱۔ مختار کتاب خدا پر عمل کریں گے۔
۲۔ مختار سنت پیغمبر ﷺ پر عمل کریں گے۔
۳۔ مختار امام حسین ؈ اور دیگر اہلبیتؑ کے قاتلوں سے بدلہ لیں گے۔
۴۔ مختار کمزور شیعوں کو دشمنوں کے خوف سے نجات دلائیں گے۔
جناب مسلم ابن عقیل جب کوفہ آئے تو آپ کا قیام جناب مختار کے ہی گھر تھا۔ آپ کی شہادت کے قبل ابن زیاد نے جناب مختار کو قید کرلیا تھا۔ آپ امام حسین ؈ کی شہادت کے وقت مقید تھے۔ مختار کی بہن صفہ عبد اللہ ابن عمر کی بیوی تھی جن کی سفارش پر یزید نے ابن زیاد کو مختار کی رہائی کا حکم دیا۔
یزید کے بعدعبد الملک بن مروان کے زمانہ میں حجاج بن یوسف نے جو کوفہ کا گورنر تھا دوبارہ جناب مختار کو قید کیا اور قتل کرنا چاہتا تھا مگر قتل پر قادر نہ ہوا۔ عبد الملک بن مروان نے دونوں بار رہائی کا حکم بھیجا۔ حجاج کے قید کرنے کے واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ:
جناب امیر ؈ نے جناب رسول خدا ﷺ کی یہ روایت بیان فرمائی تھی کہ بنی امیہ پر قوم ثقیف کا ایک لڑکا مسلط ہوگا جوان کو قتل و ذلیل کرے گا جس کا نام مختار بن ابوعبیدہ ہوگا۔
امام زین العابدین ؈ جناب امیر ؈ کے اس ارشاد کو بیان فرمایا کرتے تھے اور مختار اسی بنا پر اپنے خروج اور بنی امیہ کے قتل کرنے کا تذکرہ عام طور سے کیا کرتے تھے۔
حجاج نے ان خبروں کو سن کر مختار کو قید کیا اور اس لئے قتل کرنا چاہا کہ جناب امیر اور امام زین العابدین علیہما السلام کا کہنا غلط ہوجائے۔ مگر حجاج کسی طرح قتل مختار پر قادر نہ ہو ا، کبھی غلاموں کی تلواریں اس لئے نہ مل سکیں کہ خزانہ میں تلواریں بند تھیں اور اس کی کنجی کھو گئی ۔ کبھی جلاد قتل کے ارادہ سے چلا ٹھوکر کھا کر گرا اور اپنی تلوار سے زخمی ہو کر مر گیا ۔ دوسرا جلاد بچھو کے کاٹنے سے مر گیا۔
مختار نے تمام قاتلان حسین ؈ کو قتل کیا جو قتل سے بچ گئے وہ بھاگ کھڑے ہوئے ان کو چن چن کر قتل کیا یا وہ لوگ خود ہلاک ہوگئے۔
جناب امیر ؈ کے مشہور صحابی جناب مالک اشتر کے فرزند گرامی ابراہیم بن مالک اشتر جناب مختار کے دست راست تھے اور فوجی سربراہ تھے۔
ابن زیاد حرملہ عمر سعد ، سنان بن انس وغیرہ مشہور قاتلان حسین ؈، جناب مختار کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے ، اٹھارہ ہزار دشمن آپ کے ذریعہ قتل ہوئے ، اٹھارہ ماہ حکومت کرکے جناب مختار ۱۵؍ رمضان ۶۷ ھ کو راہی جنت ہوئے ،بوقت انتقال آپ کی عمر ۶۷ سال تھی۔
کچھ روایتیں مختار کی مذمت کی بھی ملتی ہیں جن پر علماء نے کافی بحث کی ہے ۔ لیکن جہاں تک میرا خیال ہے مجھے جناب مختار کی خوبیوں کا جتنا یقین جناب مختار کی مذمت والی روایتوں سے ہوا ہے اتنا یقین مدح والی روایتوں سے نہیں ہوا۔
میری یہ بات بظاہر حیرت انگیز ہوگی مگر جب انگریز مورخین کی وہ کتابیں پڑھی جائیں جن میں انھوں نے ہندوستان کو جاہل، پسماندہ، وحشی بتلایا ہے اور ہندوستانی نوابوں اور راجاؤں کو جس بری طرح بدنام کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صاحبان حکومت اپنے دشمنوں کو کس طرح بدنام کرتے ہیں۔
اگر مختار دشمنان اہل بیتؑ پر از سر تا پا سنگ و سخت نہ ہوتے تو شاید بدنام کئے جانے کی مہم سے محفوظ رہ جاتے۔ مختار کی ’’شخصیت‘‘ کو بنی امیہ جس قدر بھی بدنام کرتے، کم تھا ۔ اسی بدنامی نے مختار کی نیک نامی کی تصدیق کردی۔
مختار آج ہر محب حسین ؈ کی آنکھ کا تارا ہیں۔ غم حسین ؈ سے زخمی دلوں کی ٹھنڈک ہیں اور کل بھی ایسے تھے مجھے مختار سے محبت کرنے کے لئے صرف اتنی ہی دلیل کافی ہے کہ
دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے
لہٰذا ہر شیدائے حسین(ع) اس مختار سے شدید جذباتی محبت رکھتا ہے جو قاتلان حسین ؈ پر موت بن کر گرے۔
اے انتقام خون حسینؑ کے عملی پیکر تجھ پر لاکھوں سلام۔ lll
تحریر: بانیٔ تنظیم خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔