۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
لکھنو کانفرنس

حوزہ/ اعلان ولایت کے ایام میں کتاب ولایت سے واقفیت کی خاطر ادارہ علم و دانش نے عین الحیات ٹرسٹ،مرکز افکار اسلامی نیز دیگر دسیوں متحرک مذہبی و سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر تاریخی عظیم الشان نہج البلاغہ کانفرنس کا اہتمام کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ:/ اعلان ولایت کے ایام میں کتاب ولایت سے واقفیت کی خاطر ادارہ علم و دانش نے عین الحیات ٹرسٹ،مرکز افکار اسلامی نیز دیگر دسیوں متحرک مذہبی و سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر تاریخی عظیم الشان نہج البلاغہ کانفرنس کا اہتمام کیا۔

تصاویر دیکھیں: لکھنؤ میں تاریخی عظیم الشان نہج البلاغہ کانفرنس کا انعقاد

اس کانفرنس کی کامیابی کے لئے گذشتہ دو ماہ سے بھی زائد عرصہ سے فعال تنظیموں نے بین الاقوامی نہج البلاغہ انعامی مقابلہ کیا جسمیں ایک ہزار سے زائد افراد نے مختلف ممالک سے شرکت کی۔اس بین الاقوامی انعامی مقابلہ میں ہندوستان سے نمایاں کامیابی حاصل کرنے والوں میں کشمیر سے شازیہ شفی نے دوسرا(پندرہ ہزار روپئے) اور بنارس سے نازیہ فاطمہ نے تیسرا(دس ہزار روپئے) انعام حاصل کیا۔

۹ جولائی کو شب میں وقت کی پابندی کے ساتھ کانفرنس کا باقاعدہ آغاز مولوی اعجاز حسین(متعلم جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب)نے دلنشین آواز میں تلاوت کلام ربانی سے کیا۔نعت سرور کائنات جناب مایل چندولوی نے پیش کی۔اس کے بعد مہمان علماء و مقررین نیز شعراء کرام کی خدمت میں مومینٹو پیش کیا گیا۔

دیوبند سہارنپور سے تشریف لائے مولانا سید محمد سعید نقوی نے نظامت کرتے ہوئے کانفرنس کے مقرر جناب آنندہ سرکار کو دعوت سخن دی۔غیر مسلم ہونے کے باوجود انہوں نے وصی رسول حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں جو بیان کیا اسے سن کر سینکڑوں کی تعداد میں موجود حاضرین وجد میں آ گئے۔انہوں نے بیان کیا کہ میں خوش قسمت ہوں کہ آپ جیسے حضرت علی کے عشاق کے درمیان مجھے بولنے کا موقع ملا ہے۔

حضرت علی کا نام ذہن میں آتے ہیں تو علم، عدالت اور حکمت جیسے الفاظ نگاہوں میں دوڑنے لگتے ہیں۔نہج البلاغہ میں حضرت علی نے الہیات اور علم کے ساتھ عدل کے نفاذ کی بات کی ہے۔سورج اور زمین کے درمیان دوری کا جب آپ سے سوال ہوا تو آپ نے چودہ سو سال پہلے اس کا جواب دیا۔نہج البلاغہ سے بعض اقتباسات کو اپنے مخصوص انداز خطاب سے پیش کر محترم آنندہ سرکار نے فضا کو معطر کر دیا تھا۔

اس کے بعد نونہالان قوم نے نہایت نظم و ضبط کے ساتھ اپنے اساتذہ کی بہترین تربیت کا ثبوت دیتے ہوئے عربی زبان میں مولا علی علیہ السلام کے سلسلہ میں قصیدہ پڑھا۔جس پر ہر سو سبحان اللہ کی آواز سنائی دے رہی تھی۔

اس کے بعد کانفرنس کے ناظم محترم نے نظم و نثر کے حسین امتزاج کے ساتھ نور فاؤنڈیشن کے سربراہ حضرت مولانا مصطفی مدنی کو دعوت دی جنہوں نے بہت ہی خوبصورت انداز میں نہج البلاغہ اور حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں بہترین مطالب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عربی زبان وادب کا شاہکار،فصاحت و بلاغت کا اعلی معیار،قوت بیان کا نادر نمونہ نہج البلاغہ پر لب کشائی میرے لیے بڑی سعادت ہے۔

نبوت کے چشمہ صافی سے سیراب ہونے والے درنایاب کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
حضرت علی کو اللہ سبحانہ و تعالی نے بیان و حکمت کا جو خزانہ دیا تھا اس کی جھلک نہج البلاغہ مین دکھتی ہے۔

مولانا مصطفی مدنی نے اضافہ کیا کہ حکمت و موعظت سے لبریز عربی زبان وادب کے خوبصورت گلدستہ کا نام نہج البلاغہ ہے۔اسرار نبوت کا رازداں جب لب کشائی کرے تو اس سے موتیوں کی کیسی بارش ہوتی تھی یہ اگر جاننا ہے تو نہج البلاغہ کا مطالعہ ضروری ہے۔

اس کے بعد فضا کو مزید علوی بنانے کے لئے استاد شاعر جناب سرور نواب سرور لکھنوی کے مصرعہ طرح "نہج البلاغہ حرف امام الکلام ہے"پر منظوم نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے جناب مائل چندولوی نے مائک سنبھالا تو اپنی دلکش آواز میں پر مغز و پر معنی اشعار پیش کئے۔جنہیں سن کر کثیر تعداد میں موجود حاضرین نے فلک شگاف نعروں کے ذریعہ لکھنؤ کے دیدہ زیب تاریخی حسینیہ محمد علی شاہ کو نجف اشرف میں موجود حرم امیر المومنین سے مشابہ بنا دیا۔

کانفرنس میں مہمان مقرر بہترین صاحب قلم و زبان ممبئی کی مغل مسجد کے امام جماعت جناب مولانا سید نجیب الحسن زیدی نے اپنے موضوع نہج البلاغہ میں ولایت اور ولایت کے تقاضے پر عالمانہ انداز میں بیان فرمایا کہ جس طرح آج نھج البلاغہ مظلوم ہے، جس طرح علی مظلوم ہے اسی طرح ولایت علی بھی مظلوم ہے۔ولایت علی مظلوم بھی ہے مہجور بھی ہے ۔ مسلمانوں کے درمیاں اسی دن سے ولایت مہجور ہے جس دن سے غدیر میں اعلان ولایت ہوا۔ اب سے پہلے ولایت کے مفہوم کو غلط انداز میں پیش کیا گیا اس کے بعد ولایت کے دائرے کو محدود کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات والا صفات کو محض ایسی شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا جو ولی ہے اس لحاظ سے کہ اسکا ورد کیا جائے نادعلی پڑھی جائے علی کے نام پر جھوم اٹھا جائے اس لحاظ سے نہ اس کی ذات کو دیکھا گیا کہ یہ وہ ذات ہے جس کو نمونہ عمل بنا کر ہم دنیاوی زندگی کو بھی کامیاب بنا سکتے ہیں اخروی زندگی کو بھی ۔نہ ہی اس کی کتاب کو اس لحاظ سے پڑھنے کی کوشش کی کہ اس میں ہماری مشکلات کا حل موجود ہے ۔

مولانا نجیب زیدی نے ولایت کا تقاضا بیان کہ تقاضائے ولایت علی یہ ہے کہ سربلندی کے ساتھ جیو سر افرازی کے ساتھ زندگی گزارو نہج البلاغہ سرافرازیوں کا راستہ ہے اس کتاب کے تعلیمات کو روح کی گہرائیوں میں اگر ہم اتارنے میں کامیاب ہو جائیں تو یقینا ولایت مہجوریت سے بھی نکل آئے گی اور ہمارے سامنے ایک درخشان مستقبل بھی ہوگا۔

مولانا سعید نقوی نے نہایت خوش اسلوبی سے نظامت کرتے ہوئے مولانا صابر علی عمرانی کو اشعار پیش کرنے کی دعوت دی جنہوں نے مصرعہ مذکورہ پر عمدہ اشعار پیش کئے تو فضا منور و معطر ہو گئی۔معروف ادیب شعبہ اردو لکھنؤ یونیورسٹی کے سابق صدر جناب پروفیسر انیس اشفاق نے اپنی تقریر کے دوران
نہج البلاغہ کے خطبوں،خطوں اور قولوں کا تفصیل سے احاطہ کرتے ہوۓ کہا کہ اس کتابِنور کے خطبوں میں کائنات کے اسرار کی ذکاوتوں سے بھری ہوئی تعبیریں نظر آتی ہیں،خطبوں میں عدل و مساوات پر مبنی ایک مثالی اور مکمل ریاست کا نظام موجود ہے اور اس کے قولوں میں زندگی کے بیرونی اور باطنی رموز کی بصیرت افروز تفسیریں کی گئی ہیں- اس طرح نہج البلاغہ کے مشتملات ذات اور کائنات کے ہر اس پہلو کو اپنے احاطئہ تحریر میں لے آۓ ہیں جو انسان کی توجہ اور تجسس کا طالب ہے- علاوہ بریں
نہج البلاغہ ایجاز بیانی کا اعجاز ہے- یقیناًاس پارہؑ بلاغت کو اگر ایک رسالئہ دانش اور صحیفئہ حکمت کہا جاۓ تو غلط نہ ہوگا-

اس کے بعد مولانا سید حیدر عباس رضوی نے کلمات تشکر ادا کئے۔مولانا موصوف نے مالک کریم کے شکر سے ابتدا کی اور کانفرنس میں شریک مہمان مقررین کے ساتھ بیرون شہر سے تشریف لانے والے مومنین و علماء کرام،لکھنؤ کے علماء، ذاکرین، شعراء اور طلاب و طالبات مدارس نیز مومنین و معززین لکھنؤ کا شکریہ ادا کیا اور صراحت کی کہ اگر ایسے ہی آپ کا تعاون شامل حال رہا تو سال میں ایک دو کانفرنس ضرور کی جائے گی۔مولانا سید حیدر عباس نے انعامی مقابلہ میں شرکت کرنے والے برادران و خواہران کا خاص شکریہ ادا کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ ایک بہانہ تھا کہ ہم سب کلام امیر سے آشنا ہوئے۔نہج البلاغہ کی دیدہ زیب طباعت کے علاوہ دو اور کتابوں یعنی دستور زندگی اور کلام امیر ،امیر الکلام کی اشاعت غیر معمولی کام ہے۔

کانفرنس کی صدارت ہندوستان کے بزرگ عالم دین جناب سرکار شمیم الملت مولانا سید شمیم الحسن صاحب نے فرمائی۔جنہوں نے پیری کے باوجود کانفرنس کی اہمیت کو پیش نظر بنارس سے لکھنؤ کا سفر طے کیا۔اپنی تقریر میں مولانا نے بیان کیا کہ ہمارے سرمایہ کے سلسلہ میں علمی و ادبی شاہکار کی حیثیت سے تین کتب ایک قرآن مجید دوسرے نہج البلاغہ تیسرے صحیفہ کاملہ
قرآن وحی الہی کا مجموعہ جس کا کوئی مثل لانے کی قدرت نہیں رکھتا نہ لا سکا، نہج البلاغہ باب مدینۃ علم امیر المومنین علیہ السلام کے خطبات و مکتوبات و کلمات کا مجموعہ ہے اور صحیفہ کاملہ امام زین العابدین کی دعائوں کا مجموعہ ہے ان دونوں کتابوں کو ہم اس لئے اپنی ملت کے لئے سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں کہ اس کی نظیر ارباب فکر ونظر اور اہل دانش نے پیش نہیں کیا اور یہ دونوں الہامی فکر کا نتیجہ ہیں۔

الہامی فکر اس اعتبار سے کہ انسانی زندگی کی تمام تر ضرورتیں مجموعہ کی شکل میں ہمارے سامنے آئی ہیں باب مدینۃ العلم نے بقلم خود جو کتاب تحریر فرمائی تھی جو حالات زمانہ کے تحت صد حیف مفقود ہو گئی اس کا حجم مورخین نے بتایا اونٹ کی ران کے برابر اور طول 70 ہاتھ کے برابر تھا۔ اگر یہ کتاب ہمارے استفادہ کے لئے ہوتی تو کیا عالم ہوتا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایک مولا کے چاہنے والے نے کچھ خطبے اور کلام اکٹھا کر دئیے نہج البلاغہ کی شکل میں تو اس کا کوئی جواب نہ لا سکا اور شاید اس لئے بھی کہ نبی کے نائب کی حیثیت سے نبی کے کمالات کے حامل امیر المومنین علیہ السلام نے ضرورت کے مطابق اپنی فکر کا ذخیرہ ہمارے حوالہ کیا تھا یعنی مدینۃ العلم پیغمبر نے اپنے عہد میں حدود مملکت اور سرحدوں کے حدود کی توسیع کی فکر نہ کی بلکہ افکار کی حد کو توسیع دے کر ایک مکمل دین اور شریعت ہمارے حوالہ کیا جس پر ہم خرنا ناز کریں کم ہے اور حضور اکرم کے بعد لوگ حدود کی توسیع میں لگے تو قبیلہ پرستی سامنے آئی لیکن جب امیر المومنین کا دور آیا تو انہوں نے سابقہ سیرت کو نظر انداز کرتے ہوئے فتوحات کے بجائے فکری توسیع کا کام اسی انداز سے کیا جو نبی اکرم نے اپنا وتیرہ بنایا تھا۔مولا نے سیرت پیغمبر کا احیاء کیا ہے۔

نہج البلاغہ سن 400 کے آخری حصہ میں مرتب ہوئی مگر ایسا نہیں ہے کہ گذشتہ چار صدی میں مولائے کائنات کے فرامین اور خطبات پائے نہیں جاتے تھے چند عرفاء نے متفرق طور پر جمع کیا تھا،نقل کیا تھا کتابی شکل میں نہیں ہمارے ہاتھ میں تھا شاید اس کی وجہ یہ ہے جیسا کہ مورخین و صاحبان نظر و تحقیق نے لکھا ہے کہ سن 96 ہجری کے عالم نے یہ ذکرہ سب سے پہلے خطبے کی شکل میں پیش کیا ہے اس سلسلہ میں محقق بصیر جو رضا لائبریری کے ڈائرکٹر تھے جناب عز الدین انہوں نے اپنی تحقیق کی بنا پر یہ لکھا کہ چالیس علماء نے متعدد مقامات پر مولائے کائنات کے اقوال کو یکجا کیا ہے۔سن 96 ہجری سے قبل شاید اس لئے لوگ اس لئے جمع کرنے کی ہمت نہ کر سکے کہ وہ دور اموی و عباسی حکومت میں علی کے چاہنے والے قتل کئے جا رہے تھے۔جب حالات سازگار ہوئے تب علامہ سید رضی نے اس کام کو انجام دیا یہ پہلے علی کا ذخیرہ ہے دوسرے علی نے صحیفہ کاملہ پیش کی جو دعائوں کا مجموعہ ہے۔

مولائے کائنات کو اپنے دور حکومت میں خطاب کا مجمع سے موقع ملا لیکن امام سجاد کے دور میں مجمع کو دور کیا گیا منبر چھین لیا گیا تھا لہذا محراب میں بیٹھ کر دعا پیش کی فرق اتنا ہے کہ خطبہ میں متقی بننے کی تاکید کی جائے گی اور دعا میں خدا سے متقی بننے کی دعا جائے گی۔یہ دونوں علمی ذخائر ہمارے لئے سبب افتخار ہیں۔

اس کانفرنس میں مولانا سید محمد جابر جوراسی،مولانا سید صفی حیدر،مولانا سید میثم زیدی،مولانا سید رضا امام،مولانا احتشام الحسن،مولانا موسی،مولانا غضنفر عباس،مولانا سید مشاہد عالم رضوی،مولانا عقیل عباس معروفی،مولانا سید ارشد موسوی،مولانا سید علی عباس،مولانا سید شاہد جمال،مولانا سید محمد حسنین باقری،مولانا سید تہذیب الحسن،مولانا فیروز علی بنارسی،مولانا سید محمد ثقلین باقری،مولانا سید عزادار حسین،مولانا سید منہال زیدی،مولانا سید محمد ابن عباس،مولانا قربان علی کے علاوہ سیاسی رہنما چچا امیر حیدر،جناب محمد عباد نیز جسٹس مرتضی علی،سماجی کارکن جناب وفا عباس،جناب کفیل حیدر کے علاوہ طلاب جامعہ امامیہ،طالبات جامعۃ الزہرا وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ لکھنؤ اور بیرون لکھنؤ کی مختلف سرگرم تنظیموں نے اس کانفرنس میں ادارہ دین و دانش،عین الحیات ترسٹ کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا۔جن میں طہ فاؤنڈیشن،اصلاح،الہی گھرانہ،حیدری ایجوکیشنل سوسائٹی،الحرا،بہجۃ الادب،عرش ایسوسی ایٹس،نبا فاؤنڈیشن،دین و زندگی،علماء اکبرپور و فیض آباد،ریاض القرآن کے علاوہ اودھ نامہ،ولایت ٹی وی،غازی چینل،گراف ایجنسی،گوہر ایجنسی،لائیو عزاداری جلالپور وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

اس کانفرنس میں ویلینٹس ہاسپٹل نے ڈاکٹر محمد رضا نیز دیگر ماہرین امراض کی موجودگی میں مفت میڈیکل کیمپ کا اہتمام کیا جس سے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

کانفرنس کے اختتام پر انتظامیہ نیز حسین آباد ٹرسٹ کا شکریہ ادا کیا گیا جنہوں نے ہر ممکن مدد کی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Syed Razi Ghalib Mehdi PK 15:10 - 2023/07/10
    0 0
    زبردست ماشاءاللہ