۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
آیت اللہ حافظ بشیر نجفی

حوزہ/ گذشتہ ایام میں فرانس میں دیکھا ہے کہ آزادی کے نام پر اسلام کے مقدسات پر زیادتی کی گئی ہے ہم ان ممالک کے سربراہوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم بنام آزادی حکومتی اور عوامی اموال پر کسی قسم کی زیادتی برداشت کروگے؟ پھر کس طرح کچھ ممالک اسلام کے مقدسات پر زیادتی برداشت کر رہے ہیں؟ جبکہ مقدسات ایسے ہیں کہ جو مسلمانوں کو انکی جانوں سے زیادہ عزیز ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ولادت با سعادت نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مناسبت پر مرکزی دفترمرجع مسلمین وجہانِ تشیع حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ الحاج حافظ بشیرحسین نجفی دام ظلہ الوارف کے بیان کا اردو ترجمہ؛

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
الحمد لله الذي مَنَّ علينا بنبيّه الكريم محمد بن عبد الله وآله الأطهار و هدانا ببركته إِلى الدين الحنيف الذي هو خير الأديان ومأوى السعادة الدنيوية والأخروية للبشرية جمعاء، والصلاة والسلام على رسوله المصطفى المحمود الأحمد محمد بن عبد الله وعلى آله السادة الميامين، واللعنة على أعدائهم أجمعين إِلى يوم الدين.

ارشاد خداوندی ہے (قَدْ جَاءكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ، تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور ہدایت کرنے والی کتاب آ چکی ہے)، (إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِداً عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً، بیشک ہم نے تم لوگوں کی طرف گواہ بنا کر ایک رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا)، (وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ، اور ہم نے آپ کو (اے میرے پیارے حبیبؐ) سارے جہانوں کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے)۔  صَدَقَ اللَّهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ.
آج ہم رسولوں کے سید و سردار (عليه وعلى آله الصلاة والسلام) کی ولادت با سعادت  کی مناسبت سے مقدس ایام میں ہیں اس دن زمین نور ربانی سے منور ہوئی اور انکے چہرہ پُر نور سے ابھرنے والی کرنیں اور انکے مقدس کلمات نے عالم بشریت کو اسطرف دعوت دی جس میں انکی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے، رسول اکرمؐ وہ کتاب لے کر آئے کہ جس میں  گذرے ہوئے اور آئندہ آنے والے سب کی معلومات ہیں۔ اس دین اور شریعت کی صورت میں کہ جو ساری شریعتوں میں سب سے بہتر شریعت ہے اور اسی کے ذریعہ تمام ذی  روح کی چاہے وہ انسان ہوں یا اسکے علاوہ کچھ اور  سب کی عزت وکرامت کی حفاظت ہے، انہوں نے پاک کتاب کا علم اپنی آل اطہار علیھم السلام میں ودیعت  فرمایا جو کہ خدا کی رحمت و رضا کے مستحق ہیں، انہوں نے دین کی حفاظت اور اسکی نشر و اشاعت میں ان مصائب و آلام  کو برداشت  کیا ان سب کو بیان نہیں کیا جاسکتا اور ان سب کا تصور بھی بَس کے باہر کی بات ہے۔
جب کہ یہ شریعت دنیا میں پہلی شریعت نہیں تھی لیکن اس سے قبل کی شریعتیں ظالموں کی بدبختیوں کے سبب ضائع ہو گئیں صرف شریعت سید المرسلین صدیوں کے گذر جانے کے باوجود انکی اولاد اور اہلبیت علیھم السلام اور انکی سرپرستی میں پروان چڑھنے والے علماء ابرار (رضوان الله عليهم أحياءاً وأمواتاً) کی حمایت میں باقی ہے۔
ہم اس مناسبت پر انکی ذریت پاک کے سید و سردار حضرت امام مہدی المنتظر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) اور پوری دنیا، مسلمانوں اور خاص کر مومنین کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں خدا سے یہی امید ہے کہ ہمارے لئے اس مناسبت کو مبارک قرار دے جبکہ ہم انکی روشن اور آسان شریعت  کی حمایت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اس مناسبت پر چند امور کی جانب توجہ مبذول کرنا اہمیت کا حامل ہے۔
(1)  کچھ ایسے ممالک ہیں کہ جو آزادی کے دعویدار ہیں بلکہ عوام کی آزادی کے تمام شعبوں میں محافظت کے دعویدار ہیں اور انہیں حکومتوں کے زیر نظر جو کچھ ہوا اور  جو ہو رہا ہے کہ جسکے نتیجے میں ادیان خاص کر اسلام پر زیادتیوں سے چشم پوشی کی گئی جبکہ یہ تو ہرعقلمند سمجھتا اور جانتا ہے کہ آزادی کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ جسکی جو مرضی چاہے کرے اوراگر ایسا ہی ہے تو پھر جنگل کا نظام  ہے۔ جبکہ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ایسا قانون کہ جو سب کے حقوق کا محافظ ہو اسی قانون کے ضمن میں انسان جس طرح چاہے زندگی بسر کرے اور جس طرح قانون اسکی اجازت نہیں دیتا کہ بنام آزادی جو چاہے جسکو بھی گالیاں دیتا پھرے، جس پر چاہے زیادتیاں کرے اسی طرح لازمی  ہے کہ کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور اس سے چشم پوشی  نہیں کی جانی چاہئے کہ دوسروں کے مقدسات کی اہانت اور مسخرہ بازی کرتا پھرے۔ 
ہم نے گذشتہ ایام میں فرانس میں دیکھا ہے کہ آزادی کے نام پر اسلام کے مقدسات پر زیادتی کی گئی ہے ہم ان ممالک کے سربراہوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم بنام آزادی حکومتی اور عوامی اموال پر کسی قسم کی زیادتی برداشت کروگے؟ پھر کس طرح کچھ ممالک اسلام کے مقدسات پر زیادتی برداشت کر رہے ہیں؟ جبکہ مقدسات ایسے ہیں کہ جو مسلمانوں کو انکی جانوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ اور جب کوئی اپنے مقدسات پر زیادتی پر مجرمانہ طریقوں سے انتقام کے لئے کھڑا ہوتا ہے (جبکہ ہم اسکو درست نہیں سمجھتے اسلئے کہ اسلام اسکی اجازت نہیں دیتا) تو اسے دہشت گرد اور مجرم کہا جاتا ہے۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ ہم ہر اس شخص کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ جس نے ان طریقوں کے ضمن میں جسے اسلام نے بتایا ہے صدق کلام سے رسول اللہؐ کے دفاع میں زیادتی کرنے والوں کے مقابلے میں کھڑا ہوا اور انکا بائیکاٹ کیا۔
آزادی کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ مقدسات پر زیادتی کی اجازت دے دیں بلکہ اسکا مطلب قانون کے ضمن میں قول و فعل کی ایسی آزادی ہے کہ جس میں کسی کی بھی طرف سے کسی دوسرے کے مال، جسم اور عقیدے پر زیادتی نہ ہو اور یہ بات تو سب کو معلوم ہونا ہی چاہئے کہ آزادی بیان دوسروں کے احترام کو ملحوظ نظر رکھنے کے بعد ہی آتی ہے۔
(2)  دنیا کے بعض ممالک جو کہ خود کو لوگوں کی آزادی انکے اموال اور انکی ناموس کے محافظت کے دعویدار ہیں اور ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کی تربیت، علم اور نفس کی تہذیب کے ذریعہ کرنے کے بھی دعویدار ہیں وہی ممالک جذباتی جوانوں کی بھی تربیت کرتے ہیں کہ جو دوسروں پر زیادتیاں کرتے ہیں اور پھر انہیں دہشت گرد کہتے ہیں اور وہی ممالک  انہیں گروہوں کو ان ممالک میں فتنہ و فساد و عدم استقرار کے لئے استعمال کرتے ہیں کہ جسے وہ اپنے ماتحت کرنا چاہتے ہیں، یہی ممالک دہشت گرد پیدا کرتے ہیں، انکی تربیت کرتے ہیں، انکی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اور اپنے گھٹیا مقاصد کے لئے پھر انہیں استعمال کرتے ہیں اور اسلام کو مورد الزام ٹھراتے ہیں اور کہتے پھرتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے۔ یہ ان عجائب میں ہے کہ جس پر ایک ہی وقت ہنسنا اور رونا دونوں آتاہے۔
(3)  ہم تمام ممالک کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ  ہمارے دین، ہمارے پیشواؤں جیسے ہمارے نبی و رسول محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور انکے اہلبیت علیھم السلام پر زیادتی نہ کریں بلکہ ہر وہ چیز کہ جو اسلام کے مقدسات میں شامل ہے جیسے قران مجید، عبادتوں کے مراکز وغیرہ اسلئے کہ کسی بھی حقیقی و سچے مسلمان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اپنے دین و مقدسات پر زیادتی برداشت کرے۔
ہم دنیا کے عقلمندوں سے یہی امید کرتے ہیں کہ  وہ خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور حقیقی پُر امن مشترکہ زندگی گذارنے کو بڑھاوا دیں اور آزادی کو آزادی کے ہی ناپید کرنے کے لئے استعمال نہ کریں۔ والسلام

تبصرہ ارسال

You are replying to: .