۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مقالہ

حوزہ/جناب ابو الفضل العباس کی خدا کی نزدیک اتنی منزلت ہے کہ تمام شہدا اس پر قیامت کے دن  رشک کریں گے۔

تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی| ماضی کے کامیاب اور حال کے ناکام نیزمستقبل کے بے نام و نشاں لوگوں کی ناکامی و بے نشانی کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ کل کے  اپنے اس عزم و حوصلہ اپنی استقامت و پائداری کو آج زندہ رکھنے میں ناکام رہے جس نے انہیں کل کامیابی کی چوٹیوں تک پہنچایا تھا ، گزرا ہوا کل کتنا ہی کامیاب ہو اگر انسان کل کی کامیابیوں کو آج تک باقی نہ رکھ سکے تو حال و مستقبل دونوں  ہی میں بے نام و نشاں ہو جاتے ہیں۔
ان لوگوں کی بات ہی کیا ہے جنکا ماضی تو درخشاں ہوتا ہی ہے  حال تو تابناک ہوتا ہی ہے آنے والا زمانہ جیسے جیسے گزرتا ہے انکا وجود اور بھی درخشان ہوتا جاتا ہے ، اور کہا جا سکتا ہے کہ کہ زمانے کی یہ قیود انکے لئے بے معنی ہو جاتی ہیں کہ انکے لئے ماضی ، حال یامستقبل کی بات کی جائے  یہ ایسے نابغہ روزگار لوگ ہوتے ہیں جو ہر زمانے میں حال بن کراس طرح   جیتے ہیں کہ ہر دور کی ضرورت بن جاتا ہے  ، اور زمانہ کی قید سے ماوراء مکان کی حدوں کے پار کائنات وجود پر یوں محیط ہو جاتے ہیں کہ کامیابی کا تصور جب بھی آتا ہے دنیا انہیں یاد کرتی ہے ۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں انکا ایمان ثابت قدم رکھتا ہے ،اور خدا انکے ایمان کی وجہ سے انکا ہاتھ یوں پکڑتا ہے کہ انکے پاِیہ استقلال میں کبھی لغزش نہیں ہوتی ، بڑے سے بڑی مشکل میں انکے قدم جادہ حق سے نہیں ڈگمگاتے  ارشاد ہوتا ہے :
يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ وَيَفْعَلُ اللہُ مَا يَشَاۗءُ          
اللہ ایمان والوں کو دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی قول ثابت پر قائم رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ اپنی مشیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔ ابراہیم  ۲۷
یہی ثبات قدم و استقامت اور پائداری انکے وجود میں اللہ پر بھروسہ و توکل کو مزید بارور بناتی ہے ، انکا وجود زمانے کے طوفانِ حوادث کے سامنے آواز دیتا ہے
مرے قدم کو زمانہ ہلا نہیں سکتا
کہ میرا ہاتھ کسی ذمہ دار ہاتھ میں ہے۔

اپنے مالک و رب پر توکل و بھروسہ کی بنیاد پر میدان شجاعت میں بھی انکا جواب نہیں ہوتا کہ خدا پر بھروسہ انہیں مضبوط و طاقت ور بنا دیتا ہے
من سرہ ان یکون من اقوی الناس فلیتوکل علی اللہ ، جوچاہتا ہے  کہ طاقت ور بنے وہ اللہ پر بھروسہ کرے۔مشکاۃ الانوار ، ص ۱۸
یہی خدا پر بھروسہ و توکل تھا یہی ثبات قدم تھا جس نے ابو الفضل العباس علیہ السلام کی شخصیت کو اتنا عظیم بنا دیا کہ تمام شہدا ان پر رشک کرتے نظر آتے ہیں چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام کی حدیث میں ہے  ۔ ان للعباس علیہ السلام عند اللہ تبارک و تعالی منزلۃ یغبطہ بھا جمیع الشہداء ،
ہمارے چچا ابو الفضل العباس کی خدا کی نزدیک اتنی منزلت ہے کہ تمام شہدا اس پر قیامت کے دن  رشک کریں گے۔
جناب ابو الفضل العباس علیہ السلام  کی یہ منزلت یوں ہی نہیں ہے اس کے پیچھے ، آپکی غیرت، وفا ، شجاعت، آپکا ثبات قدم ،آپکی استقامت و پائداری اور لفظوں کو سمیٹ کر کہا جائے تو  آپکا  خلوص ہے، آپکے وجود میں پایا جانے والا جذبہ اطاعت امام ہے ، وہ جذبہ اطاعت امام جو بندگی سے فروغ حاصل کرتا ہےجتنا جتنا انسان بندہ پروردگار ہوگا اتنا ہی امام وقت کے سامنے خاشع ہوگا اور جتنا  امام وقت کے سامنے خاشع ہوگا اتنا ہی ظالموں کے سامنےسخت و بے باک ہوگا ، آج جب حضرت ابا الفضل العباس کی ولادت کی ہم خوشیاں منا رہے ہیں ہمیں دعاء کرنی چاہیے کہ پروردگار قمر بنی ہاشم کے صدقے میں ہمارے اندر بھی وہی ، غیرت ، وہی شجاعت ، وہی عزم دے جو ہمارے مولا و آقا و سردار لشکر حسینی کے اندر تھا ، گرچہ وہ عزم و حوصلہ تو انکے خلوص و انکی بندگی اور معرفت امام کی بنیاد پر تھااور ہم اس مقام تک پہنچنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے اندر نہ وہ خلوص ہے نہ وہ جذبہ ہے نہ وہ بندگی ہے نہ ہی وہ معرفت امام لیکن ہمارے وجود میں امام وقت سے محبت ہے ، ہمارے وجود میں کربلا والوں کا عشق ہے ، ہمارے وجود میں سرکار وفا ابوالفضل العباس ع کے لئے ایک تڑپ ہے ، ہمارے انہیں جذبوں کو  پروردگار تو پاکیزہ بنا دے تو کسی حد تک ہم اپنے مولا و آقا سے قریب ہو سکتے ہیں
بالکل ویسے ہی جیسے آج قائد حریت  اور محاذ مزاحمت کے سردار سید حسن نصر اللہ ہیں ، بالکل ویسے ہی جیسے آج آبروئے تشیع قاسم سلیمانی شہید تھے 
اگر ہم اپنے معاصر دور میں سید حسن نصر اللہ اور شہید قاسم سلیمانی جیسی شخصیتوں کے عزم و حوصلہ اور انکے ثبات قدم کے اصل سرچشمہ کو تلاش کریں تو وہ یہی ہے کہ  اس دور میں جب کہ انکا آقا پردہ غیبت میں ہے اپنے امام  عج سے غافل نہیں ہیں بلکہ عصرانتظار میں بھی ایک واقعی منتظر کی صورت امام وقت کے نائب  کی چشم و ابرو کے اشارے پر جان وار دینے پر آمادہ رہے شہید قاسم سلیمانی جیسی شخصیتوں نے شہادت کے ذریعہ اپنے جذبہ اطاعت پر مہر لگائی تو سید حسن نصراللہ جیسی شخصیتیں دشمن کے سامنے اپنی بے نظیر شجاعت کے ذریعہ بتا رہی ہیں کہ ہم آج و دشمن کے سامنے ڈٹے ہوئے تنے کھڑے ہیں اسکے پیچھے جو جوہر ہے وہ جوہرِ اطاعت مولا ہے جو انسان کی بندگی و جذبہ تسلیم سے نکھرتا ہے یی وجہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی و سید حسن نصراللہ جیسی شخصیتیں اپنے کسی بھی بڑے سے بڑے کارنانے پر ناز نہیں کرتیں بلکہ انہیں اگر ناز ہوتا ہے تو اس بات پر کے انکا مولا ان سے راضی ہے یا نہیں یہ وہ لوگ ہیں  
 اپنی تمام کامیابوں کو نائب امام ،سے منسوب کرتے ہوئے خود کو انکے مکتب کا ادنی سپاہی قرار دیتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ دشمن انکے نام سے ہراساں رہتا ہے ۔انکے ثبات قدم و انکی شجاعت کے چرچے دشمنوں کے درمیان ویسے ہی ہیں جیسے انکے آقا و مولا حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے چرچے دشمنوں کی صفوں میں تھے ۔
وہ علمدار کربلا کی منزل معرفت امام علیہ السلام تھی کہ جب دشمن کی جانب سے انکی نمائندگی کرتے ہوئے شمر امان نامہ لیکر آیا تو عباس جری نے یہ کہہ کر اسے واپس کر دیا کہ تجھ پر بھی لعنت تیرے امان نامہ پر بھی لعنت ، یہ ثبات قدم یہ عزم و استقلال محض کربلا میں محدود نہ رہا بلکہ اس کی جھلک ہم ایک سال قبل اس وقت  بھی دیکھی جب یزیدان وقت کی جانب سے ،سپاہ قدس کے سپہ سالار کو ایک مکتوب دنیا کی سب سے بڑی  ظاہری طاقت کے نمائندے کی جانب سے دیا گیا تو  شہید قاسم سلیمانی  جیسے غلامِ  حضرت ابو الفضل العباس نے اسے کھول کر دیکھنا تک گوارا نہیں کیا اور جیسے آیا تھا ویسا ہی واپس کر دیا کہ  شہید قاسم سلیمانی کے پیش نظر یقینا ۶۱ ہجری کی کربلا ہوگی کہ جب میرے آقا و مولا ابو الفضل العباس ع نے اپنے دور کی سب سے بڑی ظاہری طاقت کے نمائندے کی جانب سے آنے والے امان نامہ کو قبول نہیں کیا تو آج کے دور کی کربلا میں میں انکا ایک ادنی غلام آج کی بڑی یزیدی طاقت کے نمائندے کے مکتوب کو کیونکر کھول سکتا ہے۔ رب کو بھی یہ انداز اتنا بھایا کہ بعد شہادت بدن کا کوئی ایک حصہ نہ بچ سکا سوائے اس ہاتھ کے جس سے باطل کا گریبان پکڑا تھا جس سے وقت کے یزید کے امان نامے کو بغیر کھولے واپس کر دیاتھا سچ ہے نہ حسینیت کی ریت بدلی ہے نہ یزیدیت کا انداز بدلا ہے نہ حسینت کا عزم بدلا ہے نہ یزیدیت کی کمینگی بدلی ہے ، بدلا ہے تو محض وقت اور وقت کے بدلنے سے انداز کوفی و شامی بدلتے ہیں حسین ع والے نہیں  ، 
شہید قاسم سلیمانی نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت مانے جانے والے ملک کے۔ فوجی سربراہ کو مایوس کر کے واضح کر دیا کہ کل میرے آقا نے امان نامہ پر لعنت بھیج کر اپنے ثبات قدم کا اعلان کیا تھا تو آج میں انکے غلام کی صورت اس مکتوب کو واپس کر کے بتا رہا ہوں کہ کربلا زندہ ہے اور میری شہادت آنے والے دنوں میں اس بات کو اور بھی واضح کر دیگی ۔ایسا ہوا بھی لوگوں نے دیکھا کہ شہید قاسم سلیمانی کی زندگی میں دشمن انکی طرف سے جتنا خائف تھا اس سے زیادہ اب خائف ہے  شہادت سردار قاسم سلیمانی بتا رہی ہے تم ہمارے وجود کے پرخچے اڑا سکتے ہو لیکن ہمارے ثبات قدم ہمارے معنوی وجود کا بال بیکا نہیں کر سکتے کہ ہمارا وجود متصل ہے پرچم دار کربلا حضرت باب الحوائج سے ہمارے وجود کے اندر عشق حسینی کا دریا موجزن ہے جسے خون شہادت اور بھی مواج کر دیتا ہے  ۔
یہ سب کچھ عطا ہے سب لطف و کرم ہے در باب الحوائج کا جو کٹے ہوئے ہاتھوں سے آج بھی نہ جانے کتنے لڑکھڑاتے چاہنے والوں کو تھامے ہوئے ہے یہی سبب ہے کہ 
 عاشقان حسینی کے ثبات قدم میں نہ کل کوئی لغزش تھی نہ آج لغزش پیدا استقامت و پائداری کا یہ سفر اسی طرح جاری و ساری ہے جس طرح کربلا میں جاری تھا۔
یقینا استقامت و پائداری کا وہ درس جو ابو الفضل العباس ع نے اپنے ہاتھوں کو کٹا کر دیا ہم سب کے لئے سرمایہ حیات ہے ۔
کٹا دینا تم اپنے ہاتھ ظالم کو نہیں دینا
آج وطن عزیز کے دشوار و سخت حالات میں ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ جہاں بھی صبر کا دامن چھوٹتا نظر آئے اس پرچم دار کربلا پر نظر ڈالیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہتی دنیا تک علامت استقامت بن گیا اور دل کی گہرائیوں سے باب الحوائج کو سلام کرتے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر کہیں 
رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ۔ بقرہ ۲۵۰
پروردگارا ! ہمیں صبر سے لبریز فرما، ہمیں ثابت قدم رکھ اور قوم کفار پر ہمیں فتح یاب کر۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .