تحریر: مولانا سید نسیم رضا آصف
حوزہ نیوز ایجنسی। میں ہندوستان میں رہنے والے شیعہ یا مسلم سماج کے بارے میں نظر یہ پیش کرنے کا قائل نہیں تھا مگر آج کچھ چیزوں کو دیکھتے ہوئے ایک مختصر سی تحلیل کرنا چاہتا ہوں ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو پسند آئے اوربعض دوسرے افراد کیلئے تلخ ہو۔
اس دنیا میں بہت کم ایسا دیکھا گیا ہے کہ کسی ایک انسان کے نظریہ پر سب لوگ متفق ہوئے ہوں۔ جب دنیا کے لوگ خدا، ایشور اور نبی اکرم ص کے کلام میں کمیاں اور نقص نکالنے کی کوششیں کرتے ہیں تو ایک خاطی انسان کی کیا حیثیت ہے۔
میں بہت سے دینی اور سماجی اسکالرس کے بیانوں اور تحریروں کو سنتا اور پڑھتا رہتا ہوں، جہاں بہت زیادہ جذبات ملتے ہیں یا ایسے سخت الفاظ جو ہماری اس تحریر کے اثر کو کم کر دیتے ہیں یا لکھنے والے پر کٹرتا اور تندی کی مہر لگا دیتے ہیں،اوربعض خطر ناک افراد تندی سے سوء استفادہ کرکے اپنے بچاو کے راستے تلاش کرتے ہیں۔ اور اپنی غلط بات کی توجیہ کرتے ہیں۔ تو ہمیں نہایت نرمی اور حوصلہ سے ان کے غلط افکار اور نظریات کے جوابات دینے کی ضرورت ہے۔
جس طرح سے ہر سماج میں مختلف افکار کے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح سرمایہ کے اعتبار سے بھی سماج میں درجہ بندی ہوتی ہے جیسے امیر طبقہ، متوسط طبقہ، غریب طبقہ، یہ بات قابل ذکر ہے کہ مختلف میدانوں میں سب سے زیادہ اختلاف امیر اور متوسط طبقہ کے درمیان دیکھا جاتا ہے جبکہ غریب طبقہ زیادہ تر پہلے سے ہی امیر لوگوں سے متاثر اور ان کے ما تحت ہوتا ہے ۔
اب میں اپنی تحریر کی اصل بات کو پیش کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ایک سماج کے طاقتور، منظم، بابصیرت اور خدائی بننے کے بعض اسباب اور علتیں ہوتی ہیں اور وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔حساب کتاب کا خوف
ایک سماج مذکورہ صفات کا اس وقت حامل ہوگا جب اسے حساب و کتاب کا ڈر ہو یہ ایک عقلی بات ہے جس طرح ایک انسان ہر اس کام کو کرنے سے ڈرتا ہے جو ایک ملک کے قانون کے خلاف ہو کیونکہ اگروہ ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اسے سزا دی جائے گی۔
انسان کو چاہئے کہ وہ خدا، ایشور سے ڈرے خدا کا ڈر انسان کو ہر اس کام سے روکے گا جو اس کی مرضی کے خلاف ہے کیونکہ جب انسان خدا سے ڈرے گا اور قیامت میں اسے اپنے کاموں کے حساب و کتاب کا ڈر ہوگا تو وہ کسی طرح کے غلط کام کرنے سے پرہیز کرے گا۔
2۔عدالت کا قیام
دوسری وجہہ عدالت کا قایم کرنا ہے اگر سماج کے کسی انسان کو کوئی کام سونپا جائے یا وہ اس کام کا ذمہ دار ہو تو اسے اس کام کو عدل و انصاف کے ساتھ انجام دینا چاہئے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ شخص صرف وہی کام انجام دے گا جس کا انجام دینا حق ہے، مولائے کائنات(ع) کی زندگی میں اس طرح کی مثالیں بہت ملتی ہیں جیسے مولا علی (ع) کے بھائی عقیل نے جب اپنے حق سے زیادہ کامطالبہ کیا تو اسکے مقابلہ میں جو مولا علی ع کا جواب تھا وہ قابل غور ہے، اگر مولا علی ع کی پیروی کرتے ہوئے آج کے بیت المال کو تقسیم کرنے میں اس عدل و انصاف کے اصول پر عمل کیا جائےتو پھر لوگوں کے حقوق کی پائمالی نہیں ہوگی اور سماج بتدریج طاقت ور ہوتا چلا جائے گا اور اس میں بھائی چارگی، ہم دلی، ہم فکری اور مہرو محبت کی ترویج ہوگی۔
اسی کے ساتھ لوگوں کی افکار و نظریات میں وسعت پیدا ہوگی، تعصب اور مذہبی اختلافات کا خاتمہ ہوگا۔ جس کے نتیجہ میں انسان دھرم اور مذہب کی حدود سے نکل کر انسان اور انسانیت کے محور پر جمع ہونے کی کوشش کرے گا اور جب سماج میں ایسا ہونے لگے گا تو پھر سماج میں خوش حالی، الغرض ہر شعبہ میں ترقی جیسے تعلیم، اقتصاد، و۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ترقی ہوگی۔ جس کے نتیجہ میں ملک استقلال کی جانب رواں دواں ہوکر طاقتور بن جائے گا۔
مع ذالک سماج اور جامعہ میں بصیرت پیدا ہوگی سلیم الفکر کردار کے افرد برسراقتدار آئیں گے اور انسانی قافلہ فکر، علمی اور بصیرت و۔۔۔۔۔ کے حوالہ سے کمال کے راستے پر گامزن ہوگا، اور وہاں جزباتوں کو بڑھاوا نھیں ملے گا بلکہ قانونی اقدار کو مد نظر رکھا جائے گا اور لوگ شخص کے بجائے شخصیت کو ترجیح دیں گے۔
3۔اخلاق کی بلندی
تیسری وجہ اخلاق ہے۔ اسی اخلاق کی طاقت کی بنیاد پر، جو اسلامی اور سماجی اصول اور قوانین کے لباس سے آراستہ تھی، رسول اسلام ص نے پورے جزیرئہ عرب اور مختلف علاقوں کو اسلام کے نور سے منور کر دیا۔ اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ جب کہ اس زمانہ کی عظیم طاقتیں اپنے مختلف اور فراوان وسیلوں اور حربوں کے ذریعہ اسلام کے آڑے آرہی تھیں مگر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
4۔ پلاننگ کا ہونا
چوتھی چیز پلاننگ کا ہونا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر ہمارے پاس قوم کے نوجوانوں، جوانوں اور اس کے ضعیف افراد کے لئے پلاننگ نہ ہو تو اس قوم و سماج کے بارے میں نا اہل سرمایہ دار اور نا اہل قوی سیاست داں فیصلہ لیں گے۔
اب ایک مسلم سماج کےذمہ دار افراد اور قوم کے علماء کو سماج کی اچھی تربیت کرنے کے سلسلہ میں اچھی پلاننگ اور اچھے سسٹم کی طراحی کے سلسلہ میں سوچنا چاہئے۔ ہم اچھی پلاننگ اور اچھے سسٹم کے فقدان کی وجہ سے بہت سے ناخوشگوار واقعات سے رو برو ہوتے رہتے ہیں جسے قران کی توہین، علماء کی توہین، مذہب کی توہین۔ کیوں ہم نے اپنے معاشرے کو آزاد بغیر کسی سرپرست کے چھوڑ دیا ہے ؟اور جب سماج کا کوئی لائق اور مدبر و حکیم سرپرست نہ ہوگا تو ہماری قوم صحیح موقع پر حالت کے اعتبار سے فیصلہ کرنے سے قاصر ہوگی اور دوسرے نا اہل افراد ہماری قوم کے سلسلہ میں اپنے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہوئے فیصلہ لیں گے اور قوم انتشار کا شکار ہوتی رہے گی اور سماج ترقی سے کوسوں دور ہوتا چلا جائے گا جیسے کہ آج ہماری قوم کی حالت ہے، ہماری قوم آج بیھودہ کاموں میں مشغول ہے اور لوگ اپنی نا فہمی کی وجہ سے صرف انفرادی طاقت کی دسیتابی میں مصر وف ہیں اور اجتماعی طاقت کے حصول کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں جو کہ ایک سماج اور قوم کی ترقی کا اہم رکن ہے۔
جس مذہب حقہ کے افراد اپنے مذہبی اصولوں اور قوانین سے دور ہو جائیں گے وہ فکری گراوٹ، نفسا نفسی، اور آپس میں عداوت و اختلاف سے دوچار ہوجائے گی، آج یہی حالت ہمارے ہندوستانی مسلمانوں کی ہے۔ انکے درمیان علم کا فقدان ہے، فقر پایا جاتا ہے۔ کرونا جیسے حالات میں اسپتالوں کی کمبود ہے، اور نہ ہی اس بیماری سے لڑنے کے لئے کوئی پلاننگ۔ اگر آج ہم اپنے امام باڑوں اور اپنے فرہنگی_دینی مقامات کو لوگوں کے معالجہ کے لئے مدت معینہ کے لئے مخصوص کر دیتے تو آج ہماری قوم اور نہ جانے کتنی دوسری اقوام کی جانیں بچ گئی ہوتیں جو کہ حسینیت کا اہم مقصد ہے۔
ہندوتان میں ہم شیعوں کی تعداد ۵۰ ملین بتائی جاتی ہے اور وہاں پر کروڑوں اور اربوں میں ہماری اوقاف کی زمینیں ہیں لیکن ہم انکا صحیح استفادہ نہیں کررہے ہیں، جبکہ ہم اسی سرمایہ سے صحیح استفادہ کرکے نہ جانے کتنے اسکول، کالج، یونیورسٹی، اور کلچرل مراکز وغیرہ کھول سکتے تھے کہ سب سے پہلے جسکا فایدہ خود ہمیں پہونچتا اور ہم دوسری اقوام پر بھی اثر انداز ہوتے۔
ہماری سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم فردی زندگی میں تو اچھا بن نے اور ترقی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اجتماعی زندگی کی فلاح و بہبود کی کوشش نہیں کرتے۔ جبکہ مولاے کائنات (ع) فرماتے ہیں کہ شخصی اور فردی زندگی گزارنے والا مردہ ہے۔
آخرمیں ہم اپنی قوم کو یہی مشورہ دینا چاہیں گے کہ آپ آج سے ارادہ کریں کہ دینداربنیں۔ علمی مراکز و حوزات علمییہ کو طاقت دیں اپنے مخلص نیک زحمت کش با بصیرت علماء و مفکرین اور دانشوروں سے مشورہ لیں اور اسپر عمل کریں۔
اگر آپ تاریخ شیعہ کا مطالعہ کریں گے توآپ کو معلوم ہوگا کہ مذہب شیعہ کی حفاظت اور ترقی و ترویج اور اسکو قوی بنانے میں علماء و مفکرین دین کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ لہٰذا ہمیں مندرجہ بالا مفید اصولوں اور مشوروں پر عمل پیرا ہوکر ترقی و اصلاح کی راہ پر گامزن ہوجانا چاہئے۔