تحریر: مولانا سید جاوید عباس مصطفوی
حوزہ نیوز ایجنسی। قرآن حکیم کے اعجازات میں سے ایک بڑا اعجاز احوال و اخبار غیبی کا بیان کرنا ہے جس سے قرآن کریم نے واضح لفظوں میں اس طرح ذکر کیا ہے۔
ذَٰلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ(آل عمران۴۴)
یہ غیب کی خبریں ہم آپ کو وحی کے ذریعہ بتا رہے ہیں
تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَٰذَا ۖ(ھود۴۹)
یہ ہیں غیب کی کچھ خبریں جو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ ان باتوں کو جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔
اعجاز قرآن کے اس پہلو کی طرف مولاے کائنات امیر المؤمین علی ابن ابیطالبؑ نے نہج البلاغہ میں کچھ اس طرح اشارہ کیا ہے۔
ألا إنّ فيهِ عِلمَ ما يَأتي ، و الحَديثَ عنِ الماضي ، و دَواءَ دائكُم ، و نَظمَ ما بَينَكُم[خطبہ ۱۵۶
اس(قرآن )میں آیندہ کی معلومات،گذشتہ کے واقعات، تمہاری بیماریوں کا چارہ اور تمہارے باہمی تعلقات کا شیرازہ بندی ہے۔
یہ سنت الہیہ ہے کہ جب وہ اپنا نمائندہ نبی یا رسول کی صورت میں بنا کر بھیجتا ہے تو اس سے آئندہ پیش آنے والے واقعات کی کچھ پیشگی خبریں دیتا ہے اگرچہ پیشگی خبریں نجومی بھی دیتا ہے مگر اس میں سواے احتمال و حدس کے یقین کا شائبہ بھی نہیں ہوتا ہے۔ اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ نے بہت ساری پیشن گوئیاں کی جو قرآن مجید میں آیت کی شکل میں محفوظ ہیں وہ سب کی سب صحیح ثابت ہوئی اور انشاء اللہ ہونگی اور آج تک بڑے سے پڑا منکر قرآن کی اس اعجاز نمائی کا انکار نہیں کر سکا ہے۔
پیغبر اسلام ؐ کا یہ بہت ہی روشن معجزہ ہے اور آپ کبھی علوم غیب بیان کرنے میں بخل نہیں کرتے تھے جب بھی کسی سائل نے سوال کیا آپؐ نے اس کا تسلی بخش جواب دیا،
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ ( اور وہ غیب کی خبریں پہونچانے) میں بخیل نہیں ہے۔
۱۔داستان ماضی
قرآن مجید نے گزشتہ امتوں اور انبیاء کرام ؑکی بہت سارےاحوال و اخبار بیان کیے ہیں جو قرآن مجید کے معجزاتی پہلو کو نمایاں کرتی ہے اور ان میں سے بعض گفتگوں دیگر آسمانی کتب میں سرے سے وجود نہیں رکھتی ہیں اور بعض کا ذکر ہوا بھی ہے تو اس قدر محرف شکل میں ہے جن کا یقین کرنا مشکل امر ہے لیکن جو باتیں قرآن کریم نے کی اس کی مہرِ تصدیق بھی ثبت کی ہے نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والا ہے۔
اور انبیاء کا ذکر متعدد مقام پر حضرت آدمؑ وحواؑ ، حضرت نوحؑ حضرت ابراہیمؑ حضرت اسحاقؑ حضرت اسماعیلؑ حضرت یعقوبؑ حضرت یوسفؑ حضرت موسی حضرت ٰؑ خضر حضرت ؑ سلیمانؑ حضرت داودؑ حضرت یونسؑ حضرت ذلکفلؑ حضرت صالحؑ حضرت شعیبؑ حضرت زکریاؑ ی حضرت یحیٰؑ حضرت عیسیٰ ؑ حضرت مریمؑ اور اصحاب کہف وغیر کے حالات کا بیان ہے جو وعلوم غیب پر دلالت کرتا ہے۔
انبیاء کے علاوہ بعض اقوام کا بھی ذکر ہے جیسے قوم ہود ، قوم عاد ،قوم ثمود، قوم لوط، ۔وغیرہ اسی طرح فرعون، نمرود قارون ،ہامان وغیرہ کے حالات و واقعات بیان ہوے ہیں۔
۲۔پیشین گوئی
قرآن مجید کے معجزہ ہونے میں وہ فیصلہ کن اور مؤثر پیشین گوئیاں ہیں جو ایسے حالات میں کی گئیں جن کا وقوع پزیر ہونا ظاہرا دور دور تک کوئی امکان نہیں رکھتا تھا مگر جب رونما ہوئی تو مخالفین اسے دیکھ کر انگشت بدانداں حیران و پریشان رہ گئے اور تاریخ شاہد رہی ایک ایک کرکے پیشین گوئیاں حقائق کے قالب میں ڈھلتی رہی اور تاریخ کا ناقابل تردید جز بنتی چلی گئیں جو قرآن کی حقانیت وصداقت کی آج بھی علمدار ہیں۔
(الف) غلبہ روم
شکست خوردہ رومیوں کی فتح کی حیرت کن پیشین گوئی۔
ارشاد رب العزت ہوا:
غُلِبَتِ الرُّومُِفِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَِفِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَِ(روم۱۔۴)
رومی مغلوب ہو گئے، قریبی ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے،چند سالوں میں،پہلےبھی اور بعد میں بھی اختیار کل اللہ کو حاصل ہے، اہل ایمان اس روز خوشیاں منائیں گے۔
۶۱۵ میں ایران کے بادشاہ خسرو نے سلطنت روم(شام و فلیسطین) پر حملہ کرکے فتح کر لیا اور مشرکین مکہ اس فتح سے بہت خوش ہوئے لیکن اس کے سات برس بعد ہر قل کمانڈر کی قیادت میں حیات نو اور پرعزم و حوصلہ کے ساتھ منظم ہوکر ایرانیوں پرحملہ کیا تقریبا ایک سال میں فتح سے ہمکنار ہوئے اور اپنے سارے مقبوضہ شہر کو واپس لے لیا اور ایرانیوں کو باسفورس اور نیل سے دور کر کے دجلہ و فرات کے ساحلوں تک ڈھکیل دیا۔
اس طرح قرآن مجید کی پیشین گوئی لفظ با لفظ درست ثابت ہوئی اور بہت سارے کافر مسلمان ہو گئے،
(ب) فتح مکہ
۶ھ میں صلح حدبیہ کے بعد مسلمان غم و غصہ اور مایوسی سے بھرپور واپس ہو رہے تھے اور جن شرائط کے ساتھ اللہ کے رسولؐ نے صلح کو قبول کیا تھا اسے اپنی شکست سمجھ رہےتھے بعض صحابہ نے تو اسے صاف لفظوں میں اظہار خیال بھی کردیا تھا مگر نبی اکرمؐ نے انہیں اطمینان دلایا اور قرآن کی اس پیشینگوئی کا اعلان کیا: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا(۱فتح)َ ( اے رسول )ہم نے آپ کو فتح دی،ایک نمایاں فتح۔
سطحی نظر والے جسے شکست سمجھ رہے تھے اسے اللہ نے شاندار کھلی فتح قرار دیا اور کہا یہ شکست نہیں بلکہ در حقیقت ایک عظیم الشان فتح کا پیش خیمہ ہے جو عنقریب فتح مکہ کی صورت میں ظاہر ہونے والا ہے اور پھراسی سورہ میں مسجد الحرام میں داخل ہونے کا ذکر کیا۔
لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ(فتح۲۷)
بتحقیق اللہ نے اپنے رسول کے حق پر مبنی خواب کو سچا ثابت کیا کہ اللہ نے چاہا تو تم لوگ اپنے سر تراش کر بال کترواکر امن کے ساتھ بلاخوف مسجد الحرام میں ضرورداخل ہوگے۔
بلآخر ۸ھ کا وہ دن بھی آیا کہ صلح حدبیہ کے خوش کن نتائج فتح مکہ کی صورت میں ظاہر ہوئے اور مرجھائے مسلمانوں کی شکل و صورت میں نکھار اور ایمان میں تازگی پیدا ہو ئی اور قرآن کی پیشین گوئی صد در صد صحیح ثابت ہوئی۔
فتح خیبر
جنگ خیبر کی فتح کے بارے میں سورہ فتح میں پیشین گوئی کی اور قرآن مجید میں ارشادہوا: سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انْطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ(فتح۱۵)
جب تم غنیمتیں لینے چلو گے تو پیچھے رہ جانے والے جلد ہی کہنے لگیں گے ہمیں بھی اجازت دیجئے کہ آپ کے ساتھ چلیں۔
قرآن کی یہ پیشین گوئی پیغبر اسلامؐ نے صلح حدبیہ سے لوٹتے وقت کی کہ تم عنقریب خیبر کی کامیابی سے ہمکنار ہوگے اور اس میں بہت مقدار میں مال غنیمت ہاتھ آئے گا مگر وہ مال غنیمت ان مجاہد سے مخصوص ہوگا جو حدبیہ میں ہمارے ہمراہ تھے اور اس وقت ساتھ نہ دینے والے مال غنیمت سے محروم رہےنگے چنانچہ حرف حرف ایسا ہی ہوا مسلمان کو کامیابی کے ساتھ وافر مقدار میں مال غنیمت ہاتھ آیا اور چشم تاریخ نے اس پیشین گوئی کو دامن صداقت میں محقق ہوتے دیکھا۔
یہ چند نمونے ، قرآن کی پیشین گوئی اور احوال غیب کے متعلق تھے جو اپنے اپنے وقت میں عالم خارج میں واقعہ ہوئے اور حقانیت قرآن اور اعجازقرآن کی دلیل بنے۔ اس کے علاوہ نہ جانے کتنی پیشینگوئیاں رونما ہوچکی ہیں اورنہ جانے کتنی قیام قیامت تک رونما ہو نگی۔
اگر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن