تحریر: مولانا جاوید حیدر زیدی زیدپوری
حوزہ نیوز ایجنسی। عید الفطر خوشیوں اور مسرتوں کا تہوار ہے، رمضان کے روزے رکھنے کے بعد عید کا دن خوشی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ لیکن اس بار ۔۔۔کیسی عید؟ کونسی مسرت؟
جب ایک عالمی وباء کے سبب روزانہ ملک بھر میں کئی افراد زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہوں، جہاں ہر لمحہ زندگی دم توڑ رہی ہو، جہاں تقریبً ہر دوسرے گھر میں کرونا وائرس کا مریض زندگی اور موت کی کشمکش میں ہو ۔۔۔۔وہاں کیسی عید۔۔۔؟ جہاں اسپتالوں میں ایک عجیب ماحول برپا ہے، ہر شخص دوسرے کو وائرس زدہ سمجھ رہا ہے، جہاں گلے ملنا تو دور ہاتھ ملانے سے بھی ڈر لگتا ہے۔۔۔وہاں کیسی عید۔۔؟ جہاں موبائل کھولتے ہی خبرِ غم مشاہدہ میں آتی ہو، اور ایسی بیبسی اور غربت کی موت کہ اپنے عزیز نہ شرکِ جنازہ ہو سکتے اور نہ دیدارِ آخر کر سکتے...وہاں کیسی عید۔۔۔؟ کیسی خوشی؟
دل درد سے بھرا ہوا ہے ہر طرف موت ہی موت نظر آرہی ہے، کوئی اسپتال مین بیڈ کے لیے تڑپ رہا ہے تو کوئی آکسیجن سلنڈر کے لئے، دل بہت پریشان ہے، چاہتے ہوئے بھی کسی کی مدد کر پانا اب مشکل ہو رہا ہے۔
حقیقی عید:
اللہ نے عید الفطر کا دن ان روزے داروں کے لیے پیغام مسرت قرار دیا جنہوں نے پورے مہینے خدا کی اطاعت و بندگی میں اپنے آپ کو باندھے رکھا اور صحیح معنوں میں رمضان المبارک کا حق ادا کیا ۔ ایک مہینے کی ذہنی وجسمانی تربیت کے بعد اﷲ عزوجل نے انہیں انعام و اکرام سے نوازا اور یہی انعام و اکرام عید الفطر کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
اس سال حقیقی عید یہی ہوے گی کہ جتنا ممکن ہو ضرورت مندوں کا خیال رکھیں اپنے آس پاس دیکھیں اگر کوئی مریض ہو تو جتنی ہم سے ممکن ہو اُسکی مدد کریں،اگر ہماری بیداری سے کسی ضرورت مند کے چہرے پر مسکان آجاے تو یہی حقیی عید ہے۔
ہمارے آس پاس کتنے ہی ایسے لوگو ہیں جن کو ہماری ضرورت ہے اس عید میں ہمارا انسانی فریضہ ہے کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے اُوپر نہ خرچ کر کے ان غرباء کو تلاش کریں کہ جو کرونا وباء کے سبب سے بےروزگار ہو گئے ہیں مگر ان کی غیرت ان کو کسی کے سامنے دستِ سوال بلند کرنے نہیں دیتی. اور اِن کی دل سے نکلی ہوئی دعا ہمارے لئے عیدی ہوئے گی۔
عید الفطر ان غریبوں اورمفلسوں کے لیے خوشی کا پیغام ہے جو اپنی تنگ دستی و غربت کی وجہ سے خوشیوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور مفلوک الحالی ان کی خواہشات کا گلا گھونٹ دیتی ہے ۔ عید الفطر ان یتیم بچوں کے لیے ہے جن کے سرپردست شفقت رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا، جنہیں کوئی عیدی نہیں دیتا اورجواچھا لباس پہننے تک کوترس جاتے ہیں۔ عید الفطر منانے کے حقدار ہیں وہ جو اپنی خوشیوں میں غریبوں کو بھی شامل کرتے ہیں، یتیموں کے سروں پردست شفقت رکھتے ہیں، انہیں عیدی دیتے ہیں اور ان کے غموں میں شریک ہوتے ہیں۔ عید الفطر ان کے لئے ہے جو اپنے بچوں کے ساتھ محلے اور پڑوس کے غریب بچوں پر بھی نظر کرم کرتے ہیں ۔ انہیں بھی اپنے بچوں کی طرح عیدی دیتے ہیں ۔ ان کے لئے خوشیوں کا تمام سامان مہیا کرتے ہیں۔ نماز عید کی ادائیگی سے قبل صدقہ فطر کی تقسیم کا حکم بھی اسی پس منظر میں دیا گیا ہے کہ تنگ دست اور پریشان حال لوگ بھی ضروریات زندگی کی تکمیل کے ساتھ عید کی خوشیوں اور مسرتوں میں شریک ہوسکیں کیوں کہ حقیقی خوشی کا حاصل کرنا غم زدوں کی زندگیوں میں خوشیوں کو عام کرنا ہے اور انھیں مسرتوں سے مالا مال کرنا ہے ۔
دین اسلام اخوت و اجتماعیت اور اتحاد واتفاق کا پیغام دیتا ہے اخوت و اجتماعیت کا رنگ و آہنگ اسلامی شعائر و عبادات کا خاصہ ہے ۔ تمام عبادات کی روح اخوت و مساوات سے ہم آہنگ ہے۔ اخوت وبھائی چارگی اور مساوات انسانی کی اسی اہمیت و عظمت کا اظہار محسنِ انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے دوران کیا تھا۔ آپ نے ارشاد فرمایا۔ لوگو!تمہارا رب ایک ہے تمہارا باپ ایک ہے سب ایک آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے تھے نہ کسی عربی کو عجمی پر برتری ہے بنہ کوئی عجمی کسی عربی پر فضیلت رکھتا ہے نہ سیاہ سرخ پر فوقیت رکھتا ہے نہ سرخ سیاہ پر، فضیلت و برتری کا معیار صرف تقوی پر ہے۔
عیدالفطر کا یہ تہوار وسیع پیمانے پراسی اخوت وبھائی چارگی کا درس دیتاہے۔ اتحاد ویکجہتی کا عالم گیر نمونہ پیش کرتا ہے ۔سماجی ہم آہنگی کے بندھن میں بندھنے کی تلقین کرتا ہے۔ عید کے اجتماعات امت مسلمہ کی اخوت و اجتماعیت اور عالم گیر مسلم برادری کی دل کش اور عملی تصاویر پیش کرتے ہیں ۔ ان اجتماعات میں حاکم و محکوم ، دولت مند وحاجت مند، غنی و غریب، فرماں روا و بے نوا، نیاز مند و دردمند ،خواندو ناخواندہ ،روز گار و بے روزگار الغر بغیر کسی تفریق کے سبھی مسلمان ایک ساتھ شریک عبادت نظر آتے ہیں ۔بارگاہ ایزدی میں سر بسجود ہوتے ہیں۔ اس موقع پر حاکم و محکوم کا کوئی امتیاز نہیں ہوتاہے ۔ کسی بھی بنیاد پر کسی طرح کی کوئی تفریق نظرنہیں آتی ہے ۔ پوری دنیا کو اس خوبصورت انداز سے یہ پیغام جاتا ہے کہ مسلمان وہ قوم ہے جہاں سب ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشی و غمی میں شریک ہوتے ہیں ۔ گلے شکورے اورکینہ کدورت کو اپنے نزدیک بھٹکنے نہیں دیتے ہیں۔ غریبوں، بے کسوں، مفلسوں اور یتیموں سے ملتے ہیں انہیں اسباب وسائل کی عدم فراہمی کی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیتے ہیں۔ایک صف میں کھڑے ہوکر خالق حقیقی کی عبادت کرتے ہیں۔ عید الفطر کی عظمت و تقدس کا یہی تقاضاء ہے اور زبان حال سے اس کا مطالبہ ہے کہ اتحاد ویکجہتی اور سماجی بیداری کی اس عظیم روایت کا سلسلہ انسانی زندگی میں برقرار رکھاجائے ۔ بغیر کسی تفریق کے اسی انداز میں حیات کا سفر آگے بڑھایا جائے ۔ غریبوں کے درد کا مداوا کیا جائے۔ انسانی زندگی سے اقتصادی تفریق اور معاشرتی نفرتوں کا خاتمہ کیا جائے ۔