۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
مولانا سید جاوید عباس مصطفوی

حوزہ/ قرآن مجید کا  ایک سدا بہار اعجاز اس کا فصیحانہ و بلیغانہ اسلوب ہے جس میں دیگر آسمانی کتابیں بھی سہیم و شریک نہیں ہیں۔الحمد سے لے کر والناس تک کوئی بھی غیر فصیح لفظ نہیں ہے بلکہ ہر لفظ اپنے مقام پر فصاحت و بلاغت کی  ایک عمدہ مثال ہے۔

تحریر: مولانا سید جاوید عباس مصطفوی  

حوزہ نیوز ایجنسی। ہمارے نبی اکرمﷺ کے  آنے سے پہلے بہت سارے نبی اور بہت  ساری امتیں گذری لیکن ان امتوں میں عقل و فہم کے لحاظ سے یہ صلاحیت نہ تھی کی  ان کو  ابدی شریعت کا امانتدار بنایا  جاتا۔وہ فقط محسوسات کو درک کرتے تھے اسلئے وہ بتوں کو خدا مانتے تھے جسے وہ محسوس کر سکیں لہذا ان  کی طرف جو انبیاء و مرسلین بھیجے گئے ان  کو  وہ معجزہ دیا گیا جو محسوساتی تھے مثلا ید بیضا ،  لوہے کو موم کرناْ،عصائے موسیٰؑ اور مردہ کو زندہ کرنا وغیرہ۔

 اب جب بشریت عقلی طور پر پختہ  ہوگئی اور  اس قابل ہوگئی  کہ اسے ایک ابدی شریعت  اور دائمی دستور حیات کا امین  بنایا جائے تو قرآن جیسا معجزہ دیا گیا جومعجزہ بھی ہے ،دستور حیات بھی،  ہدایت و رحمت بھی،  شفا اور  ایک  بہترین نظام حیات بھی۔

معجزےاور دعوےمیں تناسب ضروری ہے اگر دعویٰ  محدود مدت کا  ہوگا تو معجزہ بھی محدود مدت کا ہوگا لیکن اگر دعویٰ  ابدی ہے تو معجزہ بھی ابدی ہونا چاہئے ۔چنانچہ حضرت موسیٰؑ کوپروردگار عالم نے ان کے دورکا  یعنی سحر و جادو کا توڑ اور حضرت عیسیٰ ؑ  کو ان کے دور  کا  یعنی طبی  و مسحائی  کا معجزہ دیا  مگر  چونکہ دعوؤں میں ابدیت نہ تھی اس لیے ان کےمعجزے بھی انھیں  کے زمانہ تک محدود رہے، اب جب کہ  ہمارے  نبی پاکﷺ کے بعد نہ کوئی شریعت اور نہ کوئی نبی آئے گا۔آپؐ کی   نبوت ورسالت  ایک ابدی اور ہمہ گیر رسالت ہے اس لیے  آپؐ کو ایسا معجزہ  (قرآن )دیا گیا جو زمان و مکان  میں محدود نہیں ہے بلکہ ہر لحاظ سے جامع ، ہمگیر و ابدی ہے  اور اس کی    واضح دلیل یہ ہے کہ آج   ۱۴صدی گذر جانے کے بعد بھی علم و ادب اور فکر و نظر کی وسیع فضاؤں میں چیلنج  گونج رہا ہے اور آج تک دنیا میں کا کوئی نابغہ، مفکر ،ادیب، اور دانشور اس للکار کے سامنے لمحہ  بھر کے لیے ٹہرتا  ہوا نظر نہیں آتا۔

فصاحت و بلاغت

قرآن مجید کا  ایک  سدا بہار اعجاز اس کا فصیحانہ و بلیغانہ اسلوب ہے جس میں  دیگر آسمانی کتابیں  بھی  سہیم و شریک نہیں ہیں۔الحمد سے لے کر والناس تک کوئی بھی غیر فصیح لفظ نہیں ہے بلکہ  ہر لفظ اپنے مقام پر فصاحت و بلاغت کی  ایک عمدہ مثال ہے۔

اس عنوان پر  قلم فرسائی کرنے سے پہلے ضروری ہے  کہ اس وقت  کی فصاحت و بلاغت کا جائزہ لیا جائے جس زمانے میں قرآن نازل ہو رہا ہے۔ وہ زمانہ ،جاہلیت کا  ضرور ہے مگر خطابت و شاعری ان کے معاشرہ کی روح رواں ہے،عربی شعرو ادب  کا فطری ذوق ان کے بچے بچے کے رگ و پیے میں سمایا ہے، فصاحت و بلاغت ان کے رگوں میں خونِ حیات بن کر دوڑتی ہے، ان کی مجلسوں میں رونق، ان کے میلوں کی رنگینی،ان کے فخر وناز کا سرمایہ  اور  ان کی نشر و اشاعت کا  ذریعہ سب کچھ شعرو ادب ہے۔انھیں اس پر اتنا غرور ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسری قوموں کو  عجمی یعنی گونگا تصور کرتے  ہیں  لیکن جب قرآن نے  اپنی سورت کا سب سے چھوٹا سورہ ، سورےکو ثر  بطور نمونہ  خانہ کعبہ کی د یوار پر آویزں کیا تو جتنے آتش بیان خطیب اور شعلہ  نوا شاعر  تھے ان  کی محفل میں سنناٹا پسر گیا اور کسی میں اس کے چیلنج کو قبول کرنے کی سکت نہ ہو سکی۔

 بڑے بڑے شعراء و ادباء کی  زبا نیں  گنک اور ہاتھ شل ہو گئے اس کی  عمدہ مثال دور جاہلیت کا شاعر لبید بن ربیعہ ہے جس کے اشعار پر معاصرین سجدہ تہنیت کیا کرتے تھے اسے خراج عقیدت  پیش کیا کرتے تھے وہی شاعر قرآن پاک سے  مسحور ہوکر شاعری  ترک  کر دیتا  ہے اور اسلام قبول کر لیتا ہے ۔ اور کہتا ہے: قرآن مجید  کی فصاحت و بلاغت کے بعد میرے نزدیک کسی اور شاعرانہ  کلام کی گنجائش اور ضرورت نہیں ہے

فصاحت و بلاغت قرآنی

الف  ۔ ادبی محاسن۔ قاتل سے قصاص لینا  عرب  کے لیےکا فخر  اورتعریف کا باعث تھا اسی چیز کو پیش کرنے کے لیے عرب میں  بہت سی ضربالمثل مشہور تھی مثلا: القتل احیا للجمیع( قتل اجتماعی زندگی ہے) القتل القی للقتل( قتل سے قتل کی روک تھام  ہوتی ہے) اکثروا القتل لیقل القتل ( زیادہ قتل کرو تاکہ قتل کم ہو جائے) ان محاورات کو اتنی مقبولیت تھی کہ زباں زد  خاص و عام تھا اور فصیح سمجھا جاتا  تھا ۔قرآن پاک نے بھی اسی مفہوم کو  ادا کیا لیکن انداز لا جواب تھا  : ولکم فی القصاص حیاۃ  ( اور تمہارے لیے قصاس میں زندگی ہے) اس جملہ کو  اختصار کے ساتھ ساتھ اس کی  جامعیت ومعنویت کو جس کسی رخ سے د یکھا جائے فصاحت بلا غت کا کامل و شاہکار نمونہ نظر آتا ہے جس  کے آگے بالا ذکر شدہ جملے یا محاوروت سجدہ ریز دکھائی دیتے ہیں

مجاز و کنایہ     

(۱) نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ ۗ( بقرہ ۲۲۳) 

تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاسکتے ہو۔

یہاں پر قرآن کریم نے  کتنی بے تکلفی مگر حیا کے پیرائے میں  اسلامی ازدواجی  اصولوں کو بیان کیا ہے کہ  عورت ہوس پرستی کا وسیلہ نہیں بلکہ انسانی نسل کی تولید کا سرچشمہ اور پروان  چڑھانے کا عظیم ذریعہ اور تربیت کا بہترین گہوارہ ہے اور یہ بھی جان   لو اس مقدس فصل کی کاشت کا کوئی زمانہ  و طریقہ معین نہیں  ہے جب  چاہو کاشت کرو    ہاں مگر زمین کا جراثیم سے پاک ہونا ضروری ہے۔وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ

چونکہ خانوادگی زندگی میں الہی حدود کا غیرمحفوظ ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اسی لیے  یہ بھی جان لو کہ قیامت و حساب و کتاب سے تم جلدی ملاقات کروگے۔

(۲) هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ(بقرہ۱۸۷)

وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو ۔

 یہ آیت کتنی  پر معنی اورجامع ہے یہ  بات مفسرین کے بیان کردہ نکات سے سمجھ میں آتی ہے۔

۱ ۔ لباس جسم کے لیے زینت ہے۲۔لباس انسان کے لیے  بدن کو  چھپانے  والا ہے۳۔ لباس سے انسان کا جسم محفوظ رہتا ہے۴۔ لباس اور جسم میں نہایت قربت ہوتی ہے جس سےکوئی چیز ان دونوں میں مانع نہیں ہوتی ہے۵۔لباس انسان کو سکون بخشتا ہے۔ گویا قرآن اپنے  اس فصیح و بلیغ کلام میں  زن و شوہر کی ازدواجی زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متوجہ کرانا چارہا ہے کہ زن و شوہر کو اپنی زندگی خوشگوار بنانے کے لیے  ان نکات کا بھرپور  خیال رکھنا چاہئے۔

(۳) أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ(النساء ۴۳)  

 یاتم نے (اپنی) عورتوں سے ہمبستری کی  ہو۔

مندرجہ بالا آیات  میں  بیان کی  بے ساختگی اور اظہار ِ بے تکلفی بھی ہے اور کمال درجہ  حیاء و شرافت  کی آئینہ داری بھی۔ اشاروں اور کنایوں میں  نہایت حسن خوبی کے ساتھ ایسے مضامین اور احکام و مسائل بیان کر دئیے گئے ہیں کہ جنہیں کوئی بڑے سے بڑا  ادیب  اس انداز اور ایسے خوبصورت امتزاج کے ساتھ بیان نہیں کرسکتاہے ۔

تشبیہ و استعارہ

(۱) مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ(۳۵)

اس نور کی مثال ایسی ہےگویا ایک طاق۔

(۲) كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا(۵)

اس گدھے کی سی ہے جس  پر کتابیں  لدی ہوں۔

یہاں علم سےصحیح فائدہ نہ  اٹھانے والوں کی کیفیت کس قدر خوبصورت انداز میں  بیان کی گئی ہے۔

(۳) وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ(التکویر ۱۷ ۱۸)

اور قسم کھاتا ہوں رات کی جب وہ جانے  لگتی ہے اور صبح کی جب وہ پھوٹتی ہے۔

ان دو آیات  میں رات کے دھیرے دھیرے رخصت ہونے اور صبح کہ رفتہ رفتہ آنے کا ذکر جس دلکش  و دلنشیں انداز میں کیا گیا ہے وہ ادبی چاشنی میں اپنی مثال آپ ہے۔

چونکہ قرآن الہی کتاب اور اپنی  اصلی حالت پر باقی ہے اس لئے انسانی ادب  و فہم وفراست سے بہت بلند  آسمانی  ادب کا شاہکار ہے۔  فصاحت  و بلاغت اور قواعد و  محاورات کا  قیمتی خزینہ ہے۔  لفظ لفظ معنی خیز  اور غیر متبادل ہے۔ طویل سورتیں ہو یا  مختصر   فصاحت و بلاغت، سلاست و متانت  کا ادبی کمال اور رشد و ہدایت کا   علمبردار ہے

 جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .