تحریر: مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی
حوزہ نیوز ایجنسی। قرآن تمام مذاہب اسلامی کا مشترکہ منبع ہے جو سب کے نزدیک قابل قبول اور قابل احترام ہے۔ شیعہ امامیہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے قرآن کریم کو پہلا اور اہم ترین منبع سمجھتا ہے جو عقائد، معارف اور احکام کا سر چشمہ ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں، (ان الله تبارک و تعالی انزل فی القرآن تبیان کل شی حتی والله، ما ترک الله شیاءً یحتاج الیه العباد حتی لا یستطیع عبد یقول لو کان هذا انزل فی القرآن، الا و قد انزله الله فیه)۔۱۔اللہ تعالی نے ہر شئے کو قرآن کریم میں بیان کیا ہے اور جس چیز کے بندے محتاج تھے ان میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑا۔ کوئی یہ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا کہ یہ چیز بھی قرآن کریم میں نازل کی جاتی، آگاہ ہو کہ خدا نے قرآن کریم میں اس کو ضرور نازل کیا ہے۔ ایک اور حدیث میں آپ ؑفرماتے ہیں، (ما من امر یختلف فیه اثنان الا و له اصل فی کتاب الله عزوجل، و لکن لا تبلغه عقول الرجال)۔۲۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس میں دو آدمی اختلاف کریں اور اس کے بارے میں قرآن میں حکم نہ ہو لیکن لوگوں کی عقلیں ان تک نہیں پہنچتیں۔ لہٰذا قرآن کریم کی تفسیر کے لئے ایک توانمند مفسر کی ضرورت ہے جو حقائق قرآن کو جانتا ہو۔ آئمہ اہلبیت علیہم السلام کی نظر میں قرآن کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ احادیث کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے کہ وہ قرآن کریم کے مطابق ہوں اور اگر کوئی حدیث قرآن سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو وہ مردود ہے۔جیسا کہ امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں (ما وافق کتاب الله فخذوه و ما خالف کتاب الله فدعوه)۔۳۔جو حدیث کتاب خدا کے موافق ہو اسے لے لو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ دو۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ ؑفرماتے ہیں، (ما لم یوافق من الحدیث القرآن فهو زخرف)۔ 4۔ جو حدیث قرآن کریم کے موافق نہ ہو وہ باطل ہے۔
کتب آسمانی میں دو طرح کی تحریف ممکن ہے ایک تحریف لفظی اور دوسرا تحریف معنوی۔ تحریف لفظی سے مراد آسمانی کتابوں کی آیتوں اور عبارتوں میں کمی و بیشی کرنا ہے جبکہ تحریف معنوی سے مراد آسمانی کتابوں کی آیتوں اور عبارتوں کی غلط تفسیر و تاویل کرنا جسے اصطلاح میں تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ قرآن مجید کی آیتوں میں اضافہ نہ ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ شیعوں کی اکثریت کا نظریہ ہے کہ قرآن کریم میں تحریف لفظی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور مسلمانوں کے درمیان موجودہ قرآن وہی قرآن ہے جو خداوند متعال نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا تھا۔ شیعہ امامیہ کے بزرگ علماء، متکلمین، مفسرین اور فقہاء (۵) نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے قدیم زمانے سے آج تک قرآن مجید کے تحریف سے محفوظ ہونے کی وضاحت کی ہے ان میں سے مندرجہ ذیل شخصیتوں کانام لیا جا سکتا ہے، جیسے شیخ صدوق، شیخ مفید، سید مرتضی، شیخ طوسی، امین الاسلام طبرسی، علامہ حلی، محقق کرکی، شیخ بہائی، ملا محسن فیض کاشانی، شیخ جعفر کاشف الغطا، شیخ محمد حسین کاشف الغطا، علامہ سید محسن امین، شرف الدین عاملی، علامہ امینی، علامہ طباطبائی، امام خمینی اور آیت اللہ خوئی وغیرہ نے قرآن کریم کے تحریف سے محفوط ہونے (اعم از کمی و بیشی) کی تصریح کی ہے۔
شیخ صدوق اپنی کتاب اعتقادات میں تحریر فرماتے ہیں، "ہمارا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ قرآن وہی ہے جو مسلمانوں کے درمیان موجود ہے اور اس سے زیادہ نہیں ہے اور جو ہماری طرف یہ منسوب کرتا ہے کہ ہم اس سے زیادہ والے قرآن کو مانتے ہیں وہ جھوٹا ہے" ۔۶۔ امام خمینی رہ اس بارے میں لکھتے ہیں، "جو بھی قرآن کریم کی حفظ، قرائت، کتابت اور نگہداری کے بارے میں مسلمانوں کی خصوصی توجہ اور اہتمام سے آشنا ہو وہ تحریف کے غلط خیال سے آگاہ ہو سکتا ہے کیونکہ جن روایتوں سے قرآن کریم کی تحریف ہونے کو ثابت کیا جاتا ہے یا سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں جس کی وجہ سے ان سے استدلال نہیں کیا جا سکتا یا یہ جعلی اور گھڑی ہوئی ہیں۔ اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث مل بھی جائے تو وہ قرآن کریم کی تاویل اور تفسیر میں تحریف ہونے کو بیان کرتی ہے نہ کہ تحریف لفظی کو ۔۷۔ امام خمینی رہ کی عبارت میں دو چیزوں پر خصوصی توجہ ہوئی ہے، ایک یہ کہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ ہے اور دوسرا تحریف قرآن کے قائلین کے لئے جواب یہ ہے کہ مسلمان قرآن کریم کی حفاظت میں خصوصی اہتمام کرتے تھے، یہاں تک کہ عصر خلفاء میں جمع و تدوین قرآن کے وقت جب عمر بن خطاب نے کسی آیت کو آیت رجم کے نام سے پیش کیا تو مسلمانوں نے اسے قبول نہیں کیا کیونکہ کسی نے بھی اس کی تائید نہیں کی۔۸۔ تحریف قرآن کے منکرین ہمیشہ اسی بات پر توجہ دلاتے رہے جیسا کہ سید مرتضٰی رہ تحریر فرماتے ہیں، (ان العنایة اشتدت والدواعی توفرت علی نقله و حراسته ..فکیف یجوز ان یکون مغیرا او منقوصا مع العنایة الصادقة و الضبط الشدید)۔ ۹۔مسلمان قرآن کریم کو نقل کرنے اور اس کی حفاظت میں خاص توجہ رکھتے تھے پس یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قدر شدید محبت اور سخت حفاظت کے ساتھ قرآن میں کمی و بیشی ہو۔
یہاں عدم تحریف قرآن کے بارے میں کچھ دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
1۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ قرآن مجید میں تحریف واقع ہو جائے جبکہ خداوند متعال نے خود اس کی حفاظت کی ضمانت لی ہے جیسا کہ ارشاد ہو تا ہے، (إِنَّا نحَنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لحَافِظُون)۔١٠ ۔ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
2۔ خداوند متعال نے قرآن کریم میں ہر قسم کے باطل کے داخل ہونے کی تردید کی ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے، (لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَينْ يَدَيْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيد)۔۱۱۔اس کے قریب، سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آ بھی نہیں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکیم و حمید کی نازل کی ہوئی کتاب ہے۔ خداوند متعال نے قرآن مجید میں جس باطل کے داخل ہونے کی تردید کی ہے اس کا مطلب اس قسم کا باطل ہے جو قرآن کی توہین کا باعث بنے، چونکہ قرآن کے الفاظ میں کمی و بیشی کرنا اس کی بے احترامی و توہین ہے، لہٰذا اس مقدس کتاب میں ہر گز کسی قسم کی کمی یا زیادتی واقع نہیں ہوتی ہے۔
3۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان قرآن کی تعلیم اور اس کو حفظ کرنے میں انتہائی دلچسپی دکھاتے تھے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں عربوں کے درمیان ایسے قوی حافظ موجود تھے جو صرف ایک بار طولانی خطبہ سننے کے بعد اسے یاد کر لیتے تھے، اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے قاریوں کے ہوتے ہوئے قرآن مجید میں کسی قسم کی تحریف ہوئی ہو۔
4۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام چند مسائل میں خلفاء سے اختلاف نظر رکھتے تھے اور اپنی مخالفت کو مختلف مواقع پر منطقی طور سے ظاہر بھی کرتے تھے جس کا ایک نمونہ خطبہ شقشقیہ اور ان کے دفاعیات ہیں۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی میں ایک حرف بھی تحریف قرآن کے بارے میں نہیں فرمایا ہے اگر نعوذ باللہ قرآن مجید میں تحریف ہوتی تو آپ علیہ السلام کسی بھی صورت خاموش نہ رہتے اس کے برعکس آپ علیہ السلام ہر وقت قرآن میں تدبر کرنے کی تلقین کرتے تھے ۔۱۲
تحریف قرآن کے قائلین کچھ حدیثوں سے استدلال کرتےہیں جو ظاہراً ان کے نظریہ پر دلالت کرتی ہے لیکن ان کا جواب یہ ہے کہ اولا: یہ حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں جس کی وجہ سے ان سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ ثانیا: یہ احادیث جعلی یا گھڑی ہوئی ہیں۔ ثالثا: اگر کوئی صحیح حدیث بھی ہو تو وہ قابل توجیہ و تاویل ہے کیونکہ یہ تحریف معنوی کو بیان کرتی ہیں۔ اس حقیقت کو جو شیعوں کی اکثریت کا نظریہ ہے اہل سنت محققین نے بھی بیان کیا ہے اور وہ مذہب شیعہ کو تحریف قرآن جیسے اتہامات سے مبراء اور منزاء سمجھتے ہیں۔ شیخ رحمت اللہ ہندی اپنی اہم کتاب اظہار الحق میں تحریر کرتے ہیں، "علماء شیعہ کی اکثریت کا نظریہ ہے کہ قرآن کریم ہر قسم کی تحریفات سے محفوظ ہے اور جو لوگ قرآن کریم میں کمی کا نظریہ رکھتے ہیں اس کو وہ غلط سمجھتے ہیں"۔۱۳ شیخ محمد مدنی لکھتے ہیں، "شیعہ قرآن کریم کی آیات یا کسی سورے میں کمی ہونے کے قائل نہیں ہیں اگرچہ اس طرح کی روایتیں ان کی احادیث کی کتابوں میں اسی طرح ہیں جس طرح ہماری کتابوں میں ہیں لیکن شیعہ و سنی محققین ان حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتے اور جو بھی سیوطی کی اتقان کا مطالعہ کرے اسے اس طرح کی روایات ملیں گے جن کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ شیعوں کے نامور علماء قرآن مجید کی تحریف سے مربوط روایات کو باطل اور غلط سمجھتے ہیں ۔۱۴ بنابرین اگر کوئی ان روایتوں کے مطابق تحریف قرآن کے قائل ہوں تو ان کی باتوں کو ان کے مذہب کے عقیدے کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہیئے"۔ وہابی اور تکفیری گروہ ہمیشہ شیعوں کی طرف تحریف قرآن کی نسبت دیتے ہیں اور ہمیشہ انہیں باتوں کے ذریعے عام لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ قرآن کریم کے عدم تحریف پر موجود شیعہ علماء کے صریح اقوال سے چشم پوشی کرتے ہوئے انصاف کے راستے سےخارج ہو کر دشمنی کے راستے کو طے کرتے ہیں۔۱۵
حوالہ جات:
۱۔صول کافی ،ج1، باب ،الرد الی الکتاب السنۃ ،حدیث 1۔
۲۔اصول کافی ،ج1 ،باب ،الرد الی الکتاب السنۃ ،حدیث 6 ،ص60۔
۳۔اصول کافی ،ج1 ،باب ،الاخذ بالسنۃ و شواہد الکتاب،ج1 ۔
۴۔صول کافی ،ج1، باب ،الاخذ بالسنۃ و شواہد الکتاب،ج1 ،حدیث 4۔
۵۔عقائد امامیہ ،آیۃاللہ جعفر سبحانی، ص204۔
۶۔الاعتقادات فی دین الامامیہ،ص 59۔
۷۔تہذیب الاصول ،ج2،ص 165۔
۸۔سیوطی ،الاتقان فی علوم القرآن ،ج1 ،ص 244۔
۹۔جمع البیان،ص15۔
۱۰۔حجر۔ 9
۱۱۔فصلت :42
۱۲۔عقائد امامیہ ،آیۃاللہ جعفر سبحانی ،ص 207 – 208۔
۱۳۔الفصول المہمۃ،ص 175۔
۱۴۔صیانۃ القرآن من التحریف ،ص84۔مجلہ رسالۃ الاسلام کے نقل کے مطابق ،چاپ قاہرۃ ،شمارہ 44۔ ص 382۔
۱۵۔قرآن کریم کے عدم تحریف اوراس کے دلائل کے بارے میں جاننے کے لئے ان کتابوں کی طرف مراجعہ کریں: المیزان فی تفسیر القرآن ،ج12 ،ص 114۔ البیان فی تفسیر القرآن، ص 197 – 235۔