تحریر: فدا حسین ساجدی
حوزہ نیوز ایجنسی। شیعوں کے نزدیک قرآنی آیات، روایات اور تاریخی حقائق کی روشنی میں موجودہ قرآن جو تمام مسلمانوں کے پاس ہے، وہی آسمانی کتاب ہے۔یہی قرآن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا اور اس میں کسی قسم کی کمی یا اضافہ نہیں ہوا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن کی موجودہ شکل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی وجود میں آئی تھی۔
1۔جن شیعہ علماء کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن کی موجودہ شکل خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں وجود میں آئی ہے، ان میں ابوالقاسم عبدالحی بن احمد بلخی خراسانی (وفات ۳۱۹)، ابوبکر انباری (وفات ۳۲۸)، سید مرتضیٰ علم الهدی، حاکم جِشُمی (وفات ۴۹۴)، محمود بن حمزه کرمانی (وفات حدود ۵۰۵)، فضل بن حسن طبرسی (وفات ۵۴۸)، سید بن طاووس (وفات ۶۶۴)، سید عبدالحسین شرف الدین (وفات ۱۳۷۷)، آیت الله حسین طباطبائی بروجردی (وفات ۱۳۴ ش) آیت الله خویی (وفات ۱۴۱۲). و غیرہ شامل ہیں۔ ان علماء کے نظریہ کے مطابق یہ کہنا کہ قرآن خلفاء کے دور میں جمع ہوا ہے، کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔
2۔ وہ علماء جن کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن کی موجودہ شکل خلفاء کے دور میں وجود میں آئی ہے، ان کا بھی نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی ہے، کچھ علماء کا نظریہ یہاں نقل کرتے ہیں۔ شیخ صدوق اس حوالے سے فرماتے ہیں:
ہم شیعوں کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ قرآن جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے، یہی قرآن ہے، جو آج ہمارے پاس ہے، جس میں 114 سورہ ہیں، اس میں کسی قسم کی کمی اور پیشی نہیں ہوئی ہے۔
آیت اللہ بروجردی اس حوالے سے فرماتے ہیں:
اگر کسی کو اس دن کے اسلامی معاشرے کی صورتحال اور اسلام کی تاریخ کا صحیح علم ہو اور وہ پورے قرآن کے تحفظ اور حفاظت میں مسلمانوں کی جدوجہد کو سمجھتا ہو تو، نظریہ تحریف کو قبول کرنا ناممکن ہے۔
3۔ اہل سنت کے معروف علماء نے شیعوں کے تحریف کا قائل نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے، ان میں اشعری مکتب کے بانی ابوالحسن علی ابن اسماعیل اشعری ہیں، ان کا کہنا ہے کہ شیعہ علماء میں سے جو حقیقی معنوں میں اہل تحقیق اور صاحب نظر ہیں، وہ تحریف قرآن کے منکر ہیں اور وہ قرآن میں کمی اور اضافہ دونوں حوالے سے تحریف کی نفی کرتے ہیں۔
4۔ شاید مسلمانوں کے درمیان کچھ ایسے افراد ملیں، جو قرآن میں کمی کے قائل ہوں، لیکن قرآن میں اضافہ نہ ہونے کے حوالے سے تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
5۔ قرآن جس طرح جمال الہیٰ کی ترجمانی کرتا اور پیار و محبت، عدل و انصاف اور مساوات و برابری کا پیغام لاتا ہے، اسی طرح جلال خداوندی کا بھی مظہر ہے۔ اس لئے ظالم، جابر اور فاسد و فاجر لوگوں کے ظلم و بربریت، فساد و ناانصافی سے روک تھام کیلئے مضبوط اصول و قوانین پر بھی مشتمل ہے، جبکہ رحمت و شفقت ہمیشہ قہر و جلال پر غالب ہے۔ لہذا جن آیات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان کی صحیح تفسیر اور تشریح کی جائے تو نہ صرف انسان کے ضرر میں نہیں بلکہ تمام بشریت کی فلاح و بہبودی اور سعادت و کامیابی انہی آیات شریفہ پر عمل پیرا ہونے میں پوشیدہ ہے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آپ کا تبصرہ