۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
News ID: 368463
10 مئی 2021 - 03:13
معاہدۂ قرن: "ڈیل آف سنچری"

حوزہ/ امریکی سابق صدر نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے بہانے ایک منصوبہ پیش کیاہے جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے مگر ساتھ ہی یہودی بستیوں کو تسلیم کرنے کا بھی اشارہ دیاگیاہے۔تعجب کی بات ہے کہ فلسطینیوں کے ریاست کے قیام کی بات اس معاہدے میں کی جارہی ہے جب کہ وہ ان کا ہی ملک ہے اس سے بڑی نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس کا گھر ہے اسی پر احسان کیاجارہاہے کہ تم اپنا گھر بنالو۔

تجزیہ نگار: مولانا سید احمد رضا رضوی،زرارہ

حوزہ نیوز ایجنسی। مشرقی وسطیٰ میں کافی تبدیلی آچکی ہے اسرائیل نے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعہ ضمیر فروش اعراب کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرلئے ہیں یہ وہ عرب ملک ہیں جنہوں نے۱۹۴۸ میں اس کے غاصبانہ قیام کے بعد اسے تسلیم نہیں کیاتھامگر حب علیؑ میں نا سہی بغض معاویہ میں آج اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی دوڑ میں عرب ممالک ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اگرچہ جس خطرے کی وجہ سے اسرائیل جیسے خونخوار بھیڑیئے سے تعلقات بنائے جارہے ہیں وہ خطرہ صرف ان کی بددماغی کی ایچ ہے ورنہ ایران نے کبھی کسی ملک کے ساتھ دشمنی نہیں کی ہے البتہ یہ بھی ایک حسن ظن ہے ورنہ درحقیقت یہ اعراب امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں کٹھ پتلی ہیں جو ایران کی اہمیت اور پیش قدمی کو روکنے کی سعی لاحاصل کررہے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب ایران کے بعد ایران نے سوائے دوستی کے کسی ملک سے دشمنی کا اظہار نہیں کیا ہے اگرچہ اعراب کی طرف سے ہمیشہ ایران مشکلات سے دوچار رہاہے۔
امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ نے۲۰۲۰ میں ایک بظاہر امن تجویز پیش کی جسے دنیا بھر کے تمام آزاد منش حکومتوں نے مسترد کردیا اگرچہ یہ ممالک کم ہی تھے۔ایک امریکی مصنف پیٹربینارٹ نے نیویارک ٹائم میں ایک مقالہ لکھا جس میں وہ کہتاہے کہ’ اب وقت آگیاہے کہ دوملکوں کے درمیان یعنی یہودی اور فلسطینی کے مساوی حقوق پر توجہ دی جائے‘۔یہ کوئی نئی تجویز نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی اس قسم کی تجاویز سامنے آئیں تھیں۔ ۱۹۴۸ میں حنا ارینڈ نے فلسطین کی تقسیم کے بجائے یہودی، عرب اور دیگر اقلیتوں کے اتحاد کے ساتھ دو قومیتوں والے ملک کا نظریہ پیش کیا۔ایک اسرائیل مصنف اوری ایوینری نے۲۰۱۳ میں اور ایک یہودی نژاد برطانوی رایٹر ٹونی جڈ نے بھی اس قسم کا نظریہ پیش کیاتھا۔
گذشتہ چند سالوں سے فلسطین کو اسرائیل میں ضم کرنے کی متعدد سازشیں ہورہی ہیں ان میں اہم ترین سازش ٹرمپ کا امن معاہدہ ہے۔ ہم اس امن معاہدہ کی جزئیات پر بحث بعد میں کرلے گیں پہلے یہ واضح کردیں کہ یہ امن معاہدہ درحقیقت غلط ہے اس لئے کہ معاہدہ کی بات وہاں ہوتی ہے جہاں برابر کے حقوق ہوں ۔یہاں تو اسرائیل طاقت کے زور پر فلسطین میں آکر قابض ہواہے ۔یہاں حقوق فلسطین پر بات ہونی چاہئے اور اسرائیل کے اخراج کی ،نا یہ کہ دونوں کو برابر کا حق دیاجائے۔ یہ تو وہی بات ہے کہ ایک انسان پہلے چوری کرلے پھر کہے کہ آؤ دونوں برابر برابر حصہ بانٹ لیں یہ کہاں کی عقلمندی ہے ۔جس کا مال چوری کیاگیاہے اس کا سارا مال واپس کیاجانا چاہئے اور چور کو سزا دینی چاہئے یہی عقلی قانونی اور اخلاقی اصل ہے ۔یہاں اسرائیل غاصب ہے اسے سزا ہونی چاہئے اور فلسطین سے اس کا اخراج ۔مگر کیاکیا جائے کہ حقوق انسانی کے علمبردار ہی اسرائیل کو فلسطین میں اس کا ناجائز حق دینے پر مصر ہے۔
ڈیل آف سنچری کیاہے:
امریکی سابق صدر نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے بہانے ایک منصوبہ پیش کیاہے جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے مگر ساتھ ہی یہودی بستیوں کو تسلیم کرنے کا بھی اشارہ دیاگیاہے۔تعجب کی بات ہے کہ فلسطینیوں کے ریاست کے قیام کی بات اس معاہدے میں کی جارہی ہے جب کہ وہ ان کا ہی ملک ہے اس سے بڑی نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس کا گھر ہے اسی پر احسان کیاجارہاہے کہ تم اپنا گھر بنالو۔
اس معاہدے کے اہم نکات
۱۔جن علاقوں کو ٹرمپ نے اسرائیلی علاقہ تسلیم کیاہے ان میں امریکہ اسرائیل کی مکمل خود مختاری تسلیم کرلے گا۔
۲۔ ان کے اس امن معاہدے سے فلسطینی علاقہ دوگنا ہوجائے گا اور یروشلم دارالحکومت بن جائے گا جہاں امریکہ اپنا سفارت خانہ (فساد کا اڈہ) کھولے گا۔ اگر اس پر تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے غور کیاجائے تو دو گنا توبہت زیادہ ہے گھٹ کر فلسطینیوں کو۱۵فیصد سے کم علاقے میں جگہ ملے گی جس کا اعتراف خود استعمار کے بعض افراد نے کیاہے۔
۳۔ اس معاہدے کے تحت یروشلم اسرائیل کا غیرمشروط اورغیرمستقیم دارالحکومت ہوگا۔
۴۔ اس معاہدے کے اعتبار سے فلسطینی اوراسرائیل کو اپنے گھروں اور زمینوں سے بے دخل نہیں کیاجائے گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عالمی قوانین کے تحت غیرقانونی طور پر جو اسرائیل نے مغربی کنارے پر بستی بنائی تھی اس سے انہیں بے دخل نہیں کیاجائے گا۔
۵۔ اسرائیل اردن کے بادشاہ کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یروشلم کے مقدس مقامات جیسے یہودی ٹیمپل ماؤنٹ اور مسلمان الحرم الشریف کہتے ہیں ،ان مقدس مقامات کی انتظامیہ کا موجودہ نظام برقرار رہے گا۔
۶۔ فلسطین کو فوج اور فوجی ساز وسامان اسلحے وغیرہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی صر ف ہلکے اور چھوٹے اسلحے جو پولیس کیلئے ہوتے ہیں۔
۷۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدہ ہوگا جس میں طے ہوگا کہ فلسطین پر ہونے والے حملے کا دفاع اسرائیل کرے گا اس شرط کے ساتھ کہ فلسطین اسرائیل کو اس دفاع کے عوض مکمل خرچہ دے گا۔
۸۔ حماس معاہدے کے تحت اپنے تمام اسلحے ختم کر دے گا اس میں شخصی حفاظتی اسلحے بھی شامل ہونگے اور یہ تمام اسلحے مصر کو تحویل میں دیئے جائیں گے۔
۹۔ یہودی نشین علاقوں کو خالی نہیں کیاجائے گا بلکہ اس میں توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔
۱۰۔ صحرائے اردن اسرائیلیوں کے قبضے میں رہے گا جیسا کہ اس وقت بھی انہیں کے قبضے میں ہے۔
۱۱۔ اگر حماس یا جنبش اسلامی وغیرہ نے اس معاہدے کی مخالفت کی تو ان کی تمام امداد بند کردی جائے گی اور مجازات(سزا) کا بھی امکان ہوگا۔
۱۲۔ بری، بحری، فضائی اختیارات اسرائیل کے پاس رہیںگے، فلسطین بارڈر پر اسرائیل فوج کا قبضہ ہوگا۔
یہ وہ نکات ہیں جو معاملہ قرن یا معاہدہ قرن میں ذکر کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اقتصادی مسائل کو بھی زیربحث لایاگیاہے مگر ہم یہاں اسے ذکر نہیں کررہے ہیں۔ان مذکورہ نکات کو دیکھنے کے بعد کون عقلمند اور انصاف پسند انسان اسے قبول کرلے گا۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بہت واضح ہے مگر کچھ خائن اور اپنی کرسی کی حفاظت کیلئے مسلمان نما اعراب اسے قبول کرنے کو تیار ہی نہیں بلکہ فلسطین پر دباؤ بنارہے ہیں کہ اسے قبول کریں۔ جب کہ انہیں بھی معلوم ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا مگر انہیں نہ اسلام سے کوئی واسطہ ہے اور نہ فلسطینیوں سے کوئی ہمدردی۔ وہ تو بس اپنی حکومت، اپنی عیاشی کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔اگر ان کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ وہ مسلمان ہیں جو یہودیوں سے زیادہ خطرناک ہیں، ہمیشہ اسلام کی پیٹھ پر خنجر ماراہے ۔یہ بنام اسلام حکومت کررہے ہیں ورنہ درحقیقت یہ یہودی زادے ہیں جن کا سارا ہم وغم اسرائیل کو بچانا اور ان کی حمایت کرنا ہے۔
معاہدہ قرن کے نتائج:
اس معاہدہ کو د یکھنے کے بعد یوں تو بہت سے نتائج سامنے آتے ہیں ہم یہاں چند اہم اور کلیدی نتائج کا ذکر کررہے ہیں۔
۱۔یہودی غاصب حکومت کو قانونی حیثیت مل جائے گی۔
۲۔ فلسطین قانونی طور پر اسے تسلیم کرلے۔
۳۔ قدس یہودیوں کا پایۂ تخت ہوگا اور فلسطین قدس کے اطراف میں واقع ایک شہر ابودیس کو اپنا پایۂ تخت بنائیں۔
۴۔ فلسطین حکومت مستقل نہیں ہوگی نہ ان کی اپنی فوج ہوگی۔
۵۔ آوارہ وطن فلسطینیوں کو واپسی کا حق نہیں ہوگا۔
۶۔ انقلاب یا قیام کے حق کو سلب کرلیاجائے گا اور اگر کوئی اس قسم کا اقدام کرے گا تو وہ دہشت گردی کہلائے گی اور ان کے ساتھ قانونی برخورد کی جائے گی۔
۷۔ فلسطین کو اقوام متحدہ کی عضویت سے خارج کردیاجائے گا اور اس کی جگہ اسرائیل کو تمام اختیارات دیئے جائیں گے۔
۸۔۱۹۴۸ میں جو فلسطینی آراضی تھی اس سے انہیں بے دخل کرکے صحرا وغیرہ میں انہیں جگہ دی جائے گی تاکہ وہ اپنی نئی بستیاں بسائیں جس کا بجٹ بھی طے ہواہے۔
۹۔ عرب ممالک قانونی طور پر اسرائیل کو تسلیم کریں۔
۱۰۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل آہستہ آہستہ پورے فلسطین پر قابض ہوجائے گا۔
ان نتائج کو دیکھنے کے بعد واضح ہوجاتاہے کہ امریکہ واسرائیل کا اصل ہدف کیاہے وہ فلسطین کو صفحۂ تاریخ سے محو کرنے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ کچھ نام نہاد اسلامی ملک بھی ہیں جو اس معاہدے کی حمایت کررہے ہیں جب کہ یہ معاہدہ اسرائیل کے ہر مطالبے پر’ص ‘بنارہاہے۔ اس معاہدے نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ہر اس کوشش کو ناکام کردیاہے جو فلسطینیوں کے حق میں وہ انجام دینا چاہتے تھے ۔ اس معاہدے کے بعد اسرائیل بیت المقدس پر مکمل طور پر قابض ہوجائے گا اور آدھے سے زیادہ فلسطین کی آراضی اس کے قبضے میں ہوگی اس معاہدے کے بعد فلسطین کو اپنے اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں سے فلسطین کی انقلابی تاریخ کو ختم کرنا ہوگا تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں تک قیام وانقلاب کی بات ہی نہ منتقل ہو، کتنی بڑی سازش ہے یہ معاہدہ قرن اس کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے اگر انسان چشمِ بینا رکھتاہے۔
مخالفین اورموافقین:
گذشتہ بحث میں میں نے چند بار اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس ڈیل آف سنچری کے بہت سے حامی اسلامی ملک بھی ہیں اور بہت سے غیر اسلامی ممالک ہیں جو اس ڈیل کے مخالف ہیں:
موافقین:
۱۔ ا سرائیل: واضح ہے کہ اسرائیل اس ڈیل کا سب سے بڑا حامی ہے اور جب اس ڈیل کی رونمائی ہورہی تھی تو خود نیتن یاہو وہاں موجود تھا اور اور اس نے کہاتھا یہ ہمارے لئے گولڈن چانس ہے اور اسرائیل اس سے مکمل فائدہ اٹھائے گا۔
۲۔ متحدہ عرب امارات: ہمیشہ کی طرح اسلام مخالف سازشوں میں برابر کا شریک ہے یہاں بھی اس نے اس ڈیل کی کھل کر حمایت کی اور ان کا سفیر خود وہاں موجود تھا اور ڈیل کے بعد ٹرمپ کی تائید بھی کی اور کہا کہ اس ڈیل سے مشرق وسطیٰ میں بہت سی مشکلات ختم ہوجائے گیں۔
۳۔ یورپی یونین،:انہوں نے ہمیشہ کی طرح نفاق سے کام لیتے ہوئے محتاط انداز سے حمایت کی اور کہا کہ یہ ڈیل دونوں ملکوں کے درمیان امن کا سبب ہوگی۔
۴۔ سعودی عرب،:اسلام ومسلمانان کا سب سے بڑا دشمن اور ہمیشہ کی طرح اس دشمنوں کا ساتھ دیتے ہوئے اس ڈیل کی بھی صرف حمایت ہی نہیں کی بلکہ بن سلمان نے محمود عباس کو فون کرکے اسے قبول کرنے کیلئے بھی زور دیا۔
۵۔ مصر،:اس نے بھی اس ڈیل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کو چاہئے کہ اس مسودہ کا مطالعہ کرےاور اسے قبول کرے تاکہ علاقہ میں امن وامان قائم ہو، کتنے بھولے ہیں یہ کیا نہیں جانتے یہ لوگ کہ اسرائیل صرف فلسطین کا نہیں عالم اسلام کا دشمن ہے ان کا ہدف نیل تا فرات ہے ۔وہ آج فلسطین تو کل دوسرے اسلامی ممالک پر قابض ہونگے اور اب تک ہوچکے ہوتے اگر انقلابی اور مزاحمتی تنظیموں نے ان کا راستہ نہ روکا ہوتا۔
مخالفین:
۱۔ فلسطین: اہم ترین مخالفین میں خود فلسطین اور وہاں موجود انقلابی گروہ شامل ہیں حتی کہ اس مرتبہ خائن محمود عباس نے بھی اس ڈیل کی خلاف توقع مخالفت کردی اور کہا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اس کو تاریخی کوڑے دان میں ڈال دیاجائے۔حماس کے ترجمان نے کہا کہ اس ڈیل نے ہم کو ایک بہت اچھا موقع فراہم کیاہے اور وہ ہے تمام فلسطینی گروہ اس کی مخالفت میں متحد ہوگئے ہیں۔جنبش جہاد اسلامی کے ترجمان نے محمود عباس نے کہا کہ اوسلو معاہدہ سے نکل کر تمام فلسطینی احزاب کو متحد کریں اور اس کا مقابلہ کریں۔
۲۔ ترکیہ: اس ڈیل کے مخالفین میں ترکیہ بھی شامل ہے۔ ترکی وزیرخارجہ نے کہا کہ یہ ڈیل ایسی ہی ہے جیسے بچہ پیدا تو ہواہے مگر مردہ پیدا ہواہے ہم کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ اسرائیل فلسطین پر بیت المقدس پر قابض ہوجائے۔اگرچہ ترکی سے بھی بہت زیادہ امید رکھنے اور خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ ہمیشہ سے ہی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہتاہے آج کل اس کے تعلقات اسرائیل سے بڑھ رہے ہیں یہ مفاد پرست ملک ہے جہاں اس کا فائدہ ہوگا یہ اسی کی حمایت کرے گا۔
۳۔ ایران:سخت ترین اور پائیدار ترین مخالف ایران ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد سے اہی ایران نے سخت ترین مخالفت شروع کی اور آج تک تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی مخالفت پر قائم ہے اور اس ڈیل کی بھی مخالفت کی ۔ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ جسے صلح کا نام دیاجارہاہے یہ ایک سازش ہے امید ہے کہ تمام سلامی ممالک اس کی مخالفت کریں گے۔
۴۔ اردن: خلاف توقع اردن سے اس معاہدہ کی مخالفت کی اور کہا کہ تنہا فلسطین کا راہ حل اسرائیل کا اس سرزمین سے اخراج اور فلسطین کی مستقل حکومت ہے۔
۵۔ عرب یونین: خلاف توقع انہوں نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ اس معاہدے سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ فلسطینیوں کے حقوق ابتک پامال کے گئے ہیں۔
۶۔ لبنان: مخالفین میں لبنان حکومت بھی شامل ہے لبنانی وزیرخارجہ نے کہا کہ اس ڈیل سے فلسطین کے حقوق پر حملہ کیاگیاہے اور غاصب اسرائیل کے حق کا دفاع کیاہے یہ ایک شرمناک معاہدہ ہے آئندہ اس کے برے نتائج سامنے آئیں گے۔
۷۔ اقوام متحدہ، انگلینڈ، فرانس، جرمن، قطراور روس ان ممالک نے مخالفت تو کی مگر بہت محتاط انداز سے بلکہ یہ کہاجائے تو درست ہوگا کہ دبے لفظوں میں حمایت ہی کی ہے، کوئی کہتاہے کہ امریکہ نے ہم کو اس کی جزئیات سے آگاہ نہیں کیا ۔وہ چاہتاہے کہ تنہا مسائل کو حل کرلے، کوئی کہتاہے کہ امریکہ کا یہ اقدام قابل تعریف ہے مگر مسائل کا حل بین الاقوامی قانون حقوق بشر کے تحت ہو۔کوئی کہتاہے کہ اس اہم مسئلے میں امریکہ کوپہلے ہم سب کو خبردار کرنا چاہئے تھا اور مشورہ کے بعد اقدام کرنا چاہئے تھے۔
نتیجہ:
اس معاہدے کی کوئی ا ہمیت نہیں ہے اس لئے کہ خود جن کے سلسلے میں یہ معاہدہ کیاگیاہے وہ ہی اس معاہدے کو رد کررہے ہیں۔
۲۔ قوانین حقوق بشر کے مخالف یہ معاہدہ تیار کیاگیاہے کہ اقوام متحدہ نے بھی اس کی تائید نہیں کی۔
۳۔ اس معاہدے میں صرف اسرائیل غاصب کے حق کی اور فائدہ کی بات کی گئی ہے اور جن کا اصل حق ہے ان کو اور ان کے حقوق کو نظرانداز کیاگیاہے۔
۴۔ دنیا کے اکثر ممالک نے اسے رد کیاہے۔
۶۔ اعراب کی اکثریت نے اسے قبول نہیں کیاہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .