۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
News ID: 384709
13 اکتوبر 2022 - 23:02
مولانا سید رضی حیدر پھندیڑوی

حوزہ/  اگر اس جہان میں پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ نہ ہوتاتو نہ علم نافع کا وجود ہوتا اور نہ عمل صالح کا کوئی تصور ہوتا، نہ معیشت ومعاشیات کاکوئی  صحیح رخ ملتا اورنہ   ہی زندگی گزارنے  کے صحیح  ضابطے ملتے، بلکہ لوگ جانوروں اور درندوں کی طرح ایک دوسرے کو کاٹتے رہتے۔

تحریر: مولانا سید رضی حیدر پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمداللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الکریم اما بعد فقد قال اللہ تبارک و تعالیٰ فی القرآن المجید: وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین
خدا وند کریم اپنے حبیب سے خطاب فرماتا ہے: ہم نے آپ کو سارے جہاں اورساری کائنات کےلئے رحمت بناکر بھیجاہے"(سورہ انبیاء آیت 107) ربیع الاول کا مہینہ اسلامی مہینوں کےاعتبار سے انتہائی اہمیت اور فضلیت کاحامل ہے کیونکہ اس مہینہ میں رحمت للعالمین،محبوب رب العالمین ، فخررسل،محسن انسانیت، ،سرورِ کائنات،سردار الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم 17/ ربیع الاول سال عام الفیل بروز جمعہ بمطابق 570 عیسوی اور اہلسنت کے نزدیک 12/ ربیع الاول بروز پیر سال عام الفیل ۔( فروغ ابدیت، سبحانی، ص 148) میں سرزمین مکہ پر تشریف لائے جس کے نتیجہ میں عرب کی ویران وادی میں بہار آئی، تھکی ماندی انسانیت کوشادمانی نصیب ہوئی،نسل آدم کاوقار بلند ہوا، انسانیت کو جہالت اور گمراہی کی تاریکی سے نجات ملی ، اگر اس جہان میں پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ نہ ہوتاتو نہ علم نافع کا وجود ہوتا اورنہ عمل صالح کاکوئی تصور ہوتا، نہ معیشت ومعاشیات کاکوئی صحیح رخ ملتا اورنہ ہی زندگی گزارنے کے صحیح ضابطے ملتے،بلکہ لوگ جانوروں اور درندوں کی طرح ایک دوسرے کو کاٹتے رہتے جیسا کہ اس وقت عرب کے سماج اور معاشرے میں لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر کے اپنی درندگی کا ثبوت دے رہے تھے آپ نے عالم انسانیت کی بیٹیوں کو زندگی کے ساتھ عزت اور کرامت بھی بخشی۔جیسا کہ آپ کی سیرت میں ایک باپ کی شفقت کا پہلو ملتا ہے کہ جب بھی آپ کی پیاری بیٹی خاتونِ جنت سیدہ طاہرہ حضرت فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیھا آپ کے پاس تشریف لاتیں تو آپ (ص)اُنکے استقبال کیلئے سروقد کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور عصمت و طہارت کی حامل پیشانی مبارک پر بوسہ دیکر خاتون جنت ِ کو اپنی جگہ بیٹھادیتے ۔ آپ کی سیرت کے اس پہلو کو دیکھا جائے تو بیٹی کیساتھ شفقت و محبت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی۔
آپ کی ِ رحمت نے لسانی، علاقائی، نسلی اور قومی تکبر و استکبار کے بُت پاش پاش کر دیئے ، افتادہ و پسماندہ طبقات کو جتنا تحفظ و احترام رسولِ اعظم نے عطا فرمایا دنیا کے کسی بھی آئین او ر قانون میں اسکی نظیر نہیں ملتی۔ اس وقت کے ماحول میں انسانیت کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا لوگ نسلی، علاقائی اور قوم و قبائلی تعصب کا شکار تھے چھوٹی چھوٹی باتوں پر سالوں سالوں جنگ میں گزار دیتے تھے پسماندہ افراد کی جان مال اور عزت و حرمت کا کوئی پاس و لحاظ نہ تھا لہذا آپ نے دنیا میں آکر تمام پستیوں اور ظلم جور کا خاتمہ کردیا اس کے بعد نہ کوئی عرب تھا اور نہ عجم نہ کوئی امیر تھا اور نہ ہی غریب سب برابر نظر آرہے تھے آپ کی رحمت سے سب آرام کی سانس لینے لگے ، نظام برتری کو چھوڑ کر مساوات کے دامن میں زندگی گزارنے لگے۔
آپ مجسم اخلاق تھے اور آپ نے علم اور عبادت کی زینت اخلاق کو قرار دیا ہے، قیامت کے دن مومن کے میزان عمل میں کوئی چیز حسن اخلاق سے زیادہ باوزن نہیں ہوگی، اسی طرح مومن اپنے حسن اخلاق ہی کی وجہ سے روزہ دار اور شب زندہ دار کا مرتبہ حاصل کرلیتا ہے۔ ہم یہاں پر آپ کی تواضع اور اخلاق کے چند نمونے بصورت اجمالی ذکر کر رہے ہیں تاکہ پیغمبر اکرم کی پاک ذات کو مجروح کرنے والے بھی جان لیں کہ جس کے بارے میں بات کرتے ہیں وہ کن کن صفات کے مالک اور کن باتوں کو پسند فرماتے تھے تاکہ ان کی صحح راہنمائی اور ہدایت ہوسکے:
آپ کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو روشن، درخشندہ اور پرنور نظر آتا ہے۔ آپ لوگوں سےخوش اخلاقی اور نرمی سے پیش آتے تھے۔آپ تھوڑی سی نعمت کو عظیم اور بڑی نعمت سمجھتے تھے۔آپ نے کسی نعمت کی مذمت نہیں فرمائی۔ آپ دنیوی امور میں گھاٹے پر افسوس نہ کرتے اور نہ غمگین ہوتے۔خدا کے لئے اس طرح غضبناک ہوتے کہ کوئی آپ کو پہچان نہ سکتا تھا۔آپ ہر زبان میں تکلم اور گفتگو فرماسکتے تھے۔لکھنے پڑھنے پر قادر تھے لیکن آپ نے کبھی تحریر نہیں فرمایا۔ آپ جس حیوان پر سوارہوتے وہ کبھی بوڑھا نہ ہوتا۔جب آپ کسی پتھر یا درخت کے قریب سے گزرتے تو سلام کرتے۔مکھی مچھر اور ان جیسے جانور آنحضرت پر نہ بیٹھتے تھے۔پرندے کبھی بھی آپ کے سرمبارک پر سے پرواز نہیں کرتے تھے۔چلنے کے دوران قدم مبارک کے نشان نرم زمین پر نظر نہ آتے لیکن پتھر پر نشان نظر آتے تھے۔جب آپ چلتے تھے تو تکبرانہ انداز میں نہ چلتے بلکہ آہستہ آہستہ اور با وقار انداز میں چلتے۔آپ جب کسی کو مخاطب کرتے تو اپنا پورا بدن اس شخص کی جانب پھیر لیتے۔آپ کی نگاہیں ہمیشہ نیچی ہوتی تھیں۔آپ ہمیشہ غور و فکر و تدبر میں رہتے۔آپ غم و اندوہ میں غرق رہتے۔ آپ ضرورت کے علاوہ بات نہ کرتے تھے۔آپ کے کلام میں فصاحت و بلاغت تھی کہ الفاظ کم اور معنی زیادہ ہوتے تھے۔آپ کے عادات و اطوار میں سخیم اور پست کلامی کا وجود نہ تھا۔آپ کسی کو حقیر نہ سمجھتے تھے۔
آپ حق کو اجاگر کرنے والے تھے۔ اگر آپ کو اشارہ کرنا ہوتا تو اپنی انگلی سے کرتے نہ کہ آنکھ یا ابروسے۔جب آپ خوش ہوتے تو بہت زیادہ اظہار مسرت نہ کرتے۔ آپ ہنستے وقت تبسم فرماتے اور شاذونادر ہنستے وقت آپ کی آوازسنائی دیتی۔آپ بار بار فرماتے کہ جو حاضر ہے وہ میرا کلام غائبین کو پہنچائیں۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ ان لوگوں کی حاجات مجھے بتاؤ جو اپنی حاجات مجھ تک نہیں پہنچاسکتے۔کسی کا اس کی لغزش اور خطا پر مواخذہ نہ فرماتے۔اصحاب اور طالب علموں میں سے جو بھی آپ کی محفل میں داخل ہوتا علم و حکمت سے دامن بھر کرواپس آتا۔آپ لوگوں کے شرسے واقف تھے پھر بھی ان سے کنارہ کشی نہ کرتے تھے۔آپ لوگوں سے خوش روئی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔آپ ہمیشہ اصحاب سے رابطے میں رہتے۔آپ لوگوں کے حالات سے واقف رہنے کی ہمیشہ کوشش کرتے۔اچھی عادات کے مالک افراد کو اپنے ساتھ جگہ دیتے اور آپ کے نزدیک اچھی عادات کا حامل وہ شخص ہے جو نوع بشریت کا خیرخواہ ہو۔آپ کے نزدیک عظیم لوگ وہ تھے جو لوگوں کے ساتھ احسان مدد اور نصرت سے پیش آتے۔عالم مصلح اور اخلاق حسنہ کے مالک افراد کی تکریم فرماتے تھے۔ہر قوم کے شریف افراد کی تالیف قلب کرتے اور ان پر احسان فرماتے تھے۔آپ کسی مجلس میں اٹھتے بیٹھتے تو ذکر خدا کے ساتھ۔ آپ مجلس میں اپنے لئے کوئی مخصوص جگہ قرار نہ دیتے اور دوسروں کو بھی اس سے منع فرماتے۔جب کسی مجلس میں داخل ہوتے تو جہاں کہیں بھی جگہ خالی ہوتی وہیں پر بیٹھ جاتے اگرچہ وہ جگہ آخر میں ہی کیوں نہ ہوتی لوگوں کو بھی اس کی نصیحت فرماتے۔
آپ لوگوں میں اس طرح گھل مل جاتے کہ ہر آدمی سمجھتا کہ وہی آپ کی نگاہ میں سب سے مکرم ترین ہے۔مجلس میں حاضر ہر فرد آپکے اکرام اور توجہ کا مرکز ہوتا۔جس نے بھی آپ سے کوئی حاجت طلب کی تو مقدور ہونے کی صورت میں اسکی حاجت روا ئی کرتے ورنہ حسن خلق سے اچھے وعدے کے ساتھ راضی کرتے۔آپ کی مجلس حیاء بردباری اور سچائی کا نمونہ ہوتی اس میں کسی کی برائی اور غیبت نہ ہوتی کسی کی غلطی کو وہاں ظاہر کرنا ممنوع تھا سب کو عدالت و تقوی و پرہیزگاری کی نصیحت فرماتے۔ بڑوں کا احترام کرتے اور چھوٹوں پر رحم فرماتے فقیروں اور محتاجوں کا خیال رکھتے تھے۔تمام لوگ آپ کی نگاہ میں مساوی اور برابر تھے۔سب کو اپنی محفل میں جگہ دیتے اور انہیں کسی سے خوف و ضرر کا احساس نہ ہوتا کشادہ دلی اور نرمی سے کلام کرتے۔کسی وقت آپکی صدا بلند نہ ہوتی حتی کہ غیض و غضب کے وقت بھی۔کسی سے بد کلامی نہ فرماتے۔لوگوں کے عیوب نہ گنواتے اور نہ بہت زیادہ ان کی تعریف کرتے۔کوئی بھی آپ سے نا امید نہ تھا۔آپ کسی سے کبھی لڑتے جھگڑتے نہیں تھے۔آپ زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے۔آپ کسی کی بات کو قطع نہ کرتے مگر یہ کہ وہ بات باطل ہو- آپ کسی کی مذمت نہ کرتے۔ آپ کسی کی سرزنش نہ کرتے-
آپ لوگوں کے عیب اور لغزش تلاش نہ کرتے اور نہ اس کی جستجو کرتے۔آپ بے ادبوں کی بے ادبی پر صبر فرماتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں جہاں انسانی حقوق کی تعلیم دی وہیں حیوانات اور نباتات کے حقوق بھی بتائے تاکہ آپ کی رحمت سے کائنات کی موجودات سرشار ہوسکے۔ ان صافات کے علاوہ آپ کے اور بہت زیادہ اوصاف پائے جاتے ہیں، سب کا ذکر کرنا یہاں مقدور نہیں ہے لہذا ہم ان ہی خصائل پر اکتفا کرتے ہیں۔ اور رب کریم کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ پالنے والے اس مبارک موقع پر رحمت اللعالمین کے صدقہ میں تمام مؤمنین کو آنحضرت کی سیرت طیبہ پر عمل کرنے کو توفیق عطافرما اور ان کے نائب آخری حجت کے ظہور میں تعجیل فرما آمین والحمدللہ رب العالمین۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • سلیم انصاری IN 12:51 - 2022/10/14
    0 0
    جزاک اللہ خیر الجزاء
  • अलि IN 13:50 - 2022/10/14
    0 0
    जज़ाकल्ला
  • قمرنقوی IN 16:13 - 2022/10/14
    0 0
    بہت اچھی تحریر ہے جزاک اللّہ