۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
شیخ لطیف

حوزہ / شیخ لطیف چاہے وہ جائے نماز بچھائے، کنگ فو اور مارشل آرٹس کرے، بیلچہ اٹھائے، پینٹنگ برش اٹھائے یا سفرہ اطعام بچھائے، اس نے اپنی زندگی میں مسلسل جدوجہد کے سوا کچھ نہیں کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، 36 سالہ لطیف کاظمی ایک شاعر و ادیب، جوڈو فیڈریشن میں کوچ اور ریفری ، قومی ٹیم کی کنگ فو ٹیم کے سابقہ رکن ہیں اور اب انہیں دس برس بیت چکے ہیں کہ وہ شہر انگوت اور گردونواح کے دیہات میں بطور روحانی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

پہلے پہل تو اس نے روحانی لباس زیبِ تن کیا تو سب کو حیران کر دیا۔ چونکہ لطیف اور طلبگی؟! وہ حوزہ علمیہ میں داخل ہوئے لیکن انہوں نے صرف حوزوی رستے کو ہی نہیں اپنایا بلکہ اپنے کنگ فو کلب سمیت باقی تمام مصروفیات کو بھی ساتھ ساتھ جاری رکھا۔

شیخ لطیف؛ ایک طالب علم جس نے قہوہ خانہ کو کنگ فو کلب میں تبدیل کر دیا + تصاویر

شیخ لطیف اس بارے میں کہتے ہیں: "کس نے سوچا تھا کہ لطیف ایک دن روحانیت کا لباس پہنے گا۔ مجھے کنگ فو پسند تھا اور میں کنگ فو پریکٹس کے لئے پابندی سے کنگ فو کلب جایا کرتا۔ مجھے میرے کوچ بہت پسند تھے چونکہ ان کی ٹیکنیکس بہت عمدہ تھیں۔ پریکٹس سے پہلے وہ اکیلے ہوتے اور قرآن کی تلاوت کیا کرتے۔ وقتاً فوقتاً وہ ہم سے پریکٹس کے دوران خدا کے بارے میں بات کیا کرتے کہ طاقت کا سرچشمہ خدا کی ذات ہے اور کوئی بھی چیز اس سے بلند نہیں۔ مجھے ان کی ٹیکنیک، ان کا اخلاق اور ان کا کردار بہت پسند تھا۔ یہاں تک کہ ایک دن میں نے اتفاقاً انہیں روحانیت (مولوی) کے لباس میں دیکھا۔ اور اب میں بھی جیسا کہ سب کو پتا ہے کہ امامِ جماعت بھی ہوں اور کنگ فو کا انسٹرکٹر بھی"۔

شیخ لطیف کو اب دس برس بیت چکے ہیں کہ وہ شہر انگوت اور گردونواح کے دیہات میں بطور روحانی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ لیکن کیا وہ مولوی ہیں یا کوچ؟! یہ کہنا بہتر ہو گا کہ لطیف سب سے پہلے ایک مجاہد ہے۔ چاہے وہ جائے نماز بچھائے، کنگ فو اور مارشل آرٹس کرے، بیلچہ اٹھائے، پینٹنگ برش اٹھائے یا سفرہ اطعام بچھائے، اس نے اپنی زندگی میں مسلسل جدوجہد کے سوا کچھ نہیں کیا۔

شیخ لطیف کہتے ہیں: "بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں، 'آپ ہر جگہ کیوں ہیں؟' تو میری نظر میں جو چیز سب سے اہم ہے وہ لوگوں کی ضروریات ہیں۔ جہاں کہیں کسی کو کوئی مشکل پیش آتی ہے اور میرے بس میں جو کچھ ہوتا ہے میں وہاں پہنچ جاتا ہوں۔ آج یقینا ہمیں جوانوں کی زیادہ مدد کی ضرورت ہے۔ جوانوں کی ظاہری شکل اور ان کے عقائد کا کسی سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا ان پر اچھے یا برے کا لیبل لگا کر فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ نوجوانوں سے محبت کرنے کا کوئی قاعدہ و اصول نہیں ہے۔ کسی کو ان کی ممکنہ پیش آنے والی غلطیوں کی طرف اشارہ نہیں کرنا چاہئے۔ انہیں سنا اور سمجھا جانا چاہئے اور ان کے لئے راستہ کھولا جانا چاہئے کہ جب بھی انہیں کوئی مسئلہ ہو تو وہ ہمارے کسی بھی فیصلے کے خوف کے بغیر ہم سے مدد طلب کر سکیں"۔

شیخ لطیف ایک ممتاز شخصیت اور غیر معمولی روحانی ہیں۔ لوگوں کے درمیان رہنا، ان کے جیسے کام کرنا اور ان میں گھل مل جانا ان کا خاصہ ہے۔ وہ جب بھی اپنے والد کے گاؤں جاتے ہیں تو اپنے والد کی زمین اور کھیتی باڑی کے کام میں ان کی  مدد کرتے ہیں۔

شیخ لطیف کی سب سے اہم ترجیحات میں سے ایک ان کا خاندان ہے۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ان کے بچپنے کی طرح پیش آتے ہیں، بچوں کے قہقہوں کی آواز، ان کے بچپنے کاانداز ان کے لیے انتہائی پر لطف ہوتا ہے اورجب وہ بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو ان کی دنیا بچوں کے ساتھ ایک جیسی ہوتی ہے۔

شیخ لطیف اطراف کے دیہاتوں میں ضرورت مندوں کے گھروں کا بھی چکر لگاتے ہیں اور انہیں خوراک و پوشاک اور راشن وغیرمہہیا کرتے ہیں۔

شیخ لطیف کا کہنا ہے کہ "وہ نہیں چاہتا کہ کسی کو ان عزیز افراد کے حالاتِ زندگی کے بارے میں علم ہو اور لوگوں کا وقاراور عزتِ نفس اس کے لیے سب سے اہم ہے"۔

شیخ لطیف کی اہم سرگرمیوں میں سے ایک مسجد میں بچوں اور نوعمر جوانوں کے لیے قرآنی و دینی کلاسز اور شارٹ کورسز کا انعقاد ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .