۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
علامہ امین شہیدی

حوزہ/ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ ماہِ محرم قریب ہے جس میں حساسیت بڑھ جاتی ہے، شرپسندوں اور فرقہ پرستوں کو آگ لگانے کا بہترین موقع ملتا ہے۔ لہذا اس طرح کی واردات اور کارروائی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بڑا منصوبہ پیشِ نظر ہے تاکہ اس علاقہ کے ساتھ پورے پاکستان کو بھی فرقہ واریت کی آگ میں جھونکا جا سکے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلام آباد/ پاراچنار کی موجودہ مخدوش صورتحال کے حوالہ سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں کُرم ویلفیئر سوسائٹی اسلام آباد کے زیرِ اہتمام پاراچنار یوتھ اسلام آباد کے اشتراک سے پریس کانفرنس ہوئی جس میں علامہ محمد اقبال بہشتی، امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی، علامہ ہاشم موسوی، شبیر حسین ساجدی سمیت دیگر رہنماؤں نے اظہارِ خیال کیا۔

علامہ امین شہیدی نے کہا کہ پاراچنار (کُرم ایجنسی) کے لوگ فکری، تہذیبی، ثقافتی اور علمی اعتبار سے باقی ایجنسیوں کی عوام سے یکسر مختلف ہیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل ماضی کے تیس سال ہیں جن میں آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ کے پی کے کی دیگر ایجنسیز نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے، ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا، خودکش حملہ آور پیدا کئے اور پاکستان بھر کے امن کو تہہ و بالا کیا۔ ان تمام انسان، وطن اور ریاست دشمن کارروائیوں کے پس منظر میں آپ کو ایجنسیوں میں موجود شدت پسند ملوث نظر آئیں گے لیکن کُرم ایجنسی وہ واحد ایجنسی ہے جہاں کسی ریاستی ادارہ کے خلاف کوئی قدم اٹھایا گیا اور نہ ہی کوئی شدت پسند تنظیم پنپ سکی۔ مشکل ترین حالات میں بھی وہاں کی پرامن عوام نے ریاست کے خلاف علمِ بغاوت بلند نہیں کیا۔ تعلیم، ثقافت اور مذہبی رواداری میں یہ علاقہ دیگر ایجنسیوں سے آگے دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی تعمیر، بیوروکریسی اور مسلح افواج میں خدمات کے حوالہ سے کُرم ایجنسی کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ گزشتہ عرصہ میں کبھی فرقہ واریت تو کبھی زمینوں پر قبضہ کے عنوان سے اس علاقہ کو مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا ہے تاکہ کسی نہ کسی شکل میں وہاں کا امن متاثر ہو اور سلسلہ تعلیم کو روک کر وہاں کے لوگوں کو بھی باقی علاقوں کی طرح پیچھے کی طرف دھکیل دیا جائے اور ان کو ترقی کے سفر میں کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ پاراچنار کے لوگوں کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑی اور اب تک پانچ ہزار سے زائد لوگ جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود وہ دشمن کے چنگل میں پھنس نہیں سکے اور اسی لئے آج تک وہاں کی عوام نے ریاست کے خلاف اسلحہ نہیں اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں جب تری منگل کے علاقہ میں اساتذہ اور مزدوروں کو شہید کیا گیا تو اس سانحہ کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بھرپور کوشش کی گئی اور اسے شیعہ سُنی تنازعہ بنا کر پیش کیا گیا تاکہ اس علاقہ کو بھی باقی علاقوں کی طرح نشانہ بنایا جاسکے، لیکن ہم نے دیکھا کہ بہترین قوم کے سات افراد کی شہادت کے باوجود وہاں پر امن قائم رہا اور مقامی علماء کرام نےفتنہ کو آگے بڑھنے سے روکا اور شیعہ سنی عمائدین نے مل کر شرپسندوں کی نشاندہی کی تاکہ عوام کے جذبات کو کنٹرول کیا جاسکے۔ لیکن آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، چار علاقوں میں خونریز جنگ چھڑ چکی ہے جس کا ہدف یہ ہے کہ لاکھوں عوام کی زندگی کو جہنم بنادیا جائے۔ اگرچہ اس میں افغانستان اور پاکستان کی شدت پسند تنظیموں کا کردار ہے لیکن جن لوگوں کے گھر کے چولہے فرقہ واریت کو ہوا دینے سے جلتے ہیں، وہ اس طرح کے معاملات میں سب سے زیادہ مؤثر کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر پاکستان کی ریاست چاہے تو اس کی مرضی کے بغیر درخت کا ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ پاکستان بھر میں کہیں چھوٹی سی بھی غیر معمولی حرکت ہوتی ہے اور اگر وہ ریاست کی منشاء کے خلاف ہو تو حرکت کرنے والے کے خاندان کے آخری فرد کو بھی ریڈار میں لیا جاتا ہے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن ایک بڑے خطہ میں اتنی تباہی ہو رہی ہے، گولہ بارود استعمال ہو رہا ہے، مارٹر گولے برسائے جا رہے ہیں اور خونریزی جاری ہے لیکن حکومت اور فورسز کا کوئی پتہ نہیں کہ کہاں ہیں۔ جہاں تک علاقہ کی حساسیت کا سوال ہے تو یہ بات سب کو پتہ ہے کہ کرم ایجنسی تقریبا تین اطراف سے افغانستان کے نرغہ میں ہے اور ایک راستہ پاکستان کی طرف سے ہے، اور پھر وہاں پہاڑی سلسلے اتنے زیادہ ہیں کہ دہشت گرد کوئی بھی کارروائی باآسانی کر کے سرحد پار جا سکتے ہیں۔ تو پوچھنا یہ ہے کہ ہماری ریاست کے محافظ اور ادارے کہاں سو رہے ہیں، ریاستی رٹ کہاں ہے؟ اگر دہشت گردی میں ملوث افراد میں سے کسی ایک کو بھی سزا دی جاتی تو مزید کارروائیاں نہ ہوتیں۔ مجرموں کو سزا نہ دینا اور وقت گزرنے کے ساتھ تمام واقعات کو فراموش کر دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ نیتوں میں فتور ہے جو پاکستان کی تباہی کا سبب ہے۔

علامہ امین شہیدی نے کہا کہ ماہِ محرم قریب ہے جس میں حساسیت بڑھ جاتی ہے، شرپسندوں اور فرقہ پرستوں کو آگ لگانے کا بہترین موقع ملتا ہے۔ لہذا اس طرح کی واردات اور کارروائی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بڑا منصوبہ پیشِ نظر ہے تاکہ اس علاقہ کے ساتھ پورے پاکستان کو بھی فرقہ واریت کی آگ میں جھونکا جا سکے۔ نہیں معلوم کہ اس فتنہ کا تعلق آئندہ ہونے والے انتخابات یا مستقبل کی سیاسی صورتحال سے ہے، کیونکہ بڑے مقاصد کے حصول کے لیے مقتدرہ عام طور پر عوام اور گروہوں کو قربانی کا بکرا بناتی ہے اور پورے ملک میں مسائل کو روکنے کے بہانے ایسے اقدامات شروع کیے جاتے ہیں۔ نتیجتا آئین معطل، ریاستی ادارے مفلوج اور عوام کے بنیادی ترین حقوق سلب ہو جاتے ہیں، پھر جو مقتدرہ چاہے، وہی انجام پاتا ہے۔ اس لئے سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس صورتحال کا ان واقعات سے کہیں کوئی لنک تو نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ ہوش رُبا اور خطرناک ہے اور اس کے نتائج پورے پاکستان کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ خصوصا ماہِ مقدس یعنی محرم الحرام میں جس کی حساسیت کا سب کو اندازہ ہے، شرپسند عناصر پر قابو پانا ضروری ہے۔ اگر کسی کو ملک کے امن اور پچیس کروڑ عوام سے محبت ہے تو اسے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس فساد کو فوری طور پر روکنا چاہیے۔ ریاستِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی رٹ کے ذریعہ پاراچنار کے امن کو بحال کرے۔ پاراچنار کے شیعہ سُنی بڑی اچھی مشترکہ زندگی گزارتے رہے ہیں۔ تری منگل کے واقعہ نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ قوم کے بڑے لڑائی نہیں چاہتے۔ اساتذہ اور مزدوروں کی شہادت کے بعد جب سارا علاقہ سڑکوں پر تھا تو ایک پتا تک نہیں ہلا، ایسا کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا گیا جو ریاست یا اُمت کے مشترکہ مفادات کے خلاف ہو۔ یہ سانحہ بتاتا ہے کہ وہاں کے اکابرین عقل مند ہیں اور ان سازشوں کے اثرات کو سمجھتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت ریاست کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ اس علاقہ میں امن قائم کرنے اور حملہ آوروں کو روکنے کے لئے اپنی رٹ اور طاقت کا استعمال کرے تاکہ اس کے اثرات باقی پاکستان کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .