۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مصاحبه حجت الاسلام والمسلمین ناظر تقوی

حوزہ / حوزہ نیوز ایجنسی کی طرف سے شیعہ علماء کونسل پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل حجت الاسلام والمسلمین سید ناظر عباس تقوی سے حالاتِ حاضرہ پر حوزہ نیوز کے دفتر میں ایک انٹرویو لیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حوزہ نیوز کے نامہ نگار نے شیعہ علماء کونسل پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل حجت الاسلام والمسلمین سید ناظر عباس تقوی سے ان کے قم المقدسہ کے دورے کے دوران شیعہ علماء کونسل پاکستان میں ان کی سرگرمیوں اور حالات حاضرہ کے موضوع پر ایک انٹرویو لیا ہے جسے حوزہ نیوز کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

یہ صدی اسلام کے اقتدار کی صدی ہے

حوزہ نیوز: پاکستان کے شیعوں کو موجودہ دور میں جن چیلنجز کا سامنا ہے ان کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔ اور آپ کی نظر میں ان کا راہ حل کیا ہے؟

حجت الاسلام سید ناظر تقوی : میں سب سے پہلے حوزہ نیوز اور اس کی ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے عشِ آل محمد کے دینی مرکز حوزہ کے نشریاتی پلیٹ فارم پر اظہارِخیال کا موقع فراہم کیا اور خداوند متعال سے آپ سب کی موفقیت کے لئے دعاگو ہوں۔

اس وقت پاکستان کے اندر چونکہ داخلی اور خارجی مسائل سمیت بہت سارے چیلنجز درپیش ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں جو بنیادی مسئلہ ہے وہ تشیع کے وجود کا مسئلہ ہے۔ بعض اوقات ایسی صورتحال دیکھنے میں آتی ہے کہ پاکستان میں جو تشیع کے بنیادی حقوق ہیں، پاکستان میں تشیع کی اور شہریوں کی آزادی کے مسائل ہیں اس پر روڑے اٹکائے جارہے ہیں، تشیع کو اس عمل سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے مثلا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور پاکستان کا آئین ایک اسلامی قرآن اور سنت کے مطابق ہے۔ اس آئین کی تعریف کے مطابق پاکستان میں تشیع مسلمانوں اور پاکستان کے اندر آئین کا مسلمہ فرقہ ہے۔

اپنے عقائد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس کیلئے اگرہمیں کسی قسم کی کوئی قربانی دینا پڑے گی تو ہم دیں گےقائد اعظم کا جو ویژن تھا کہ پاکستان کو تمام مسلک سے بالاتر ہوکر ایک مسلم ریاست بنائی جائے گی جس میں تمام مسالک کے لوگ آزادی کے ساتھ زندگی بسر کریں گےاور حتی کہ اقلیتوں کے حقوق کی بات بھی کی گئی تھی لیکن افسوس کے ساتھ یہ دیکھا جاتا ہے کہ آج کا پاکستان قائداعظم کا پاکستان نہیں ہے بلکہ مسلک کی بنیادوں پر اس کو بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے مجھے میرے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ میرے انہی بنیادی حقوق میں سے ایک حق عزاداری سید الشہداء (ع) کا ہے جو میرا آئینی اور بنیادی حق ہے۔

گذشتہ کئی سالوں سے اس کے خلاف بڑی سازشیں کی گئیں، گروہ بنائے گئے، گروپس بنائے گئے اور ان کے مطالبات تھے کہ عزاداری کو محدود کرو، مجالس کو محدود کرو، فلاں عبادت کو محدود کرو، شیعوں کو امام بارگاہ میں محدود کرو وغیرہ اور پورے پاکستان میں تکفیر کی گئی، دیواریں کالی کی گئیں، مختلف قسم کے نعرے لگائے گئے لیکن کوئی قانون کے ہاتھ میں نہیں آیا اور کوئی قانون کا ایک چھوٹا سا ادارہ بھی حرکت میں نہیں آیا کہ انہیں جا کر کوئی روکتا کہ کیوں آپ پاکستان کے ایک مسلک کے مذہب کی توہین کررہے ہو یاملکی آئین کی خلاف ورزی کررہے ہو!؟ لیکن تشیع نے اس میں بڑا کردار ادا کیا اور الحمدللہ سارے حالات و مشکلات کے باوجود، دھمکاکوں کے باوجود ایک دن بھی مجلس کے انعقاد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت کی طرف سے بھی مداخلت کی جاتی۔ حکومت کی طرف سے این او سی نہیں ہوگی، سبیل نہیں ہوگی، نئی مجلس عزا نہیں ہوگی، نیا جلوس نہیں ہوگا، نئی مسجد نہیں بنے گی، نیا امام بارگاہ نہیں بنے گا اور اس طرح مثلا اگر جلوس ہے تو اتنے بجے جلوس شروع ہوگا اور اتنے بجے ختم ہوجائے گا، مختلف انداز میں آہستہ آہستہ عزاداری کو محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ صدی اسلام کے اقتدار کی صدی ہے

بہرحال عزادری سید الشہدا (ع) ہماری موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ اس سے ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ عزاداری اہل تشیع کا ایک بنیادی عقیدہ ہے۔ اس کے بعد اب جو نئے مسائل کھڑے ہوئے ہیں پاکستان کے اندر، ان میں سے ایک انتہائی اہم مسئلہ نصاب کے حوالے ہے اور تشیع کے نظریات کی ترویج کو روکنے اور ان کے نظریات اور عقائد کو محدود کرنے کیلئے جھوٹی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں اور اپنے تئیں تشیع کے نظریات کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح تشیع اپنے نظریات سے ہاتھ اٹھا لے لیکن ہم اپنے نظریات سے، اپنے عقائد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس کیلئے اگرہمیں کسی قسم کی کوئی قربانی دینا پڑے گی تو ہم دیں گے۔

اب اگر اس مسئلہ کے راہ حل کی بات کی جائے تو پاکستان کے اندر زیادہ سے زیادہ وحدت کی فضا ایجاد کی جائے، وحدت قائم ہونی چاہئے اگرچہ یہ وحدت پہلے سے الحمد للہ موجود ہے اور اس میں مزید پائیداری ہونی چاہئے، اسے مزید پختہ ہونا چاہئے۔

حوزہ نیوز: شیعہ علماء کونسل الحمد للہ پاکستان کا ایک مرکزی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ تشیع کے مسائل کے حل کیلئے کیا خدمات انجام دے رہا ہے؟ براہِ کرم اس پر روشنی ڈالیں۔

حجت الاسلام سید ناظر تقوی : شیعہ علماء کونسل ایک قومی پلیٹ فارم ہے جو پہلے قائد سید محمد دہلوی کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ اس کے بعد مفتی جعفر صاحب قائد تھے، پھر قائد شہید اس کے بعد قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی، یہ ایک قومی پلیٹ فارم کا تسلسل ہے۔البتہ ہر میدان میں اپ اینڈ ڈاؤنزآتے رہتے ہیں، اونچ نیچ آتی ہے۔ لیکن میں بڑی ذمہ داری سے یہ بات کررہا ہوں کہ پاکستان کا کوئی قومی مسئلہ ایسا نہیں جو تشیع کو درپیش ہو، تشیع اس میں مبتلا ہوئی ہو اور قائد ملت جعفریہ نے اس کیلئے کوئی کردار ادا نہ کیا ہو اب وہ چاہے پاکستان کے جو بھی مسائل ہوں، ایف آئی آر کے مسائل ہوں یا دوسرے مسائل ہوں، ان کے حل کے لئے تنظیم کا اور قیادت کا بنیادی کردار رہا ہے۔ آج ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ سب ایک بہترین قیادت کے ہی مرہونِ منت ہے۔

یہ صدی اسلام کے اقتدار کی صدی ہے

حوزہ نیوز: پاکستان میں اس وقت شیعہ سماجی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے کس وضعیت میں ہیں؟

حجت الاسلام سید ناظر تقوی : پاکستان کے اندر پاکستانی شیعہ طاقتور ہیں، پاکستانی شیعہ مضبوط ہیں، درست ہے کہ مسائل ہیں، مشکلات ہیں لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان میں شیعہ ضعیف ہوگئے ہیں یا لاچار ہوگئے ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں الحمدللہ شیعہ اکابرین خدا کا شکر ہے مالی لحاظ سے بھی بلکہ پاکستان کے چینل نے جو ایک ٹی وی بڑا چینل اس کے ایک اینکر نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں محرم کے اندر ملکی سرمایہ کاری اور بازار کے لیول کا بڑھ جانا یہ صرف تشیع ہی کرتا ہے ۔ پاکستان میں تشیع کی حالت بہت اچھی ہے۔ تعلیمی میدان میں بھی تشیع اچھے جارہے ہیں علمی حوالے سے چاہے وہ دینی طالب علم ہو یا دنیاوی طالب ہوں۔ البتہ دشمنوں کی سازش کی وجہ سے ہمارے ہاں سادہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کی وجہ سے سیاسی میدان میں کمزوری دیکھنے کو آتی ہے لیکن اس پہ ساری جماعتوں کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے خطباء اور منبری حضرات کو چاہئے کہ اپنے حقوق کی جدوجہد کیلئے کوشش کریں، سیاسی طاقت میں اپنا لوہا منوائیں، پاکستان میں ان شاء اللہ تشیع مستقبل میں سیاسی حوالے سے آگے ہوگی پیچھے نہیں ہوگی۔

یہ صدی اسلام کے اقتدار کی صدی ہے

حوزہ نیوز: پاکستان میں مسنگ پرسنز اور بے گناہ قیدیوں کے سلسلہ میں شیعہ علماء کونسل کا کیا کردار رہا ہے؟

حجت الاسلام سید ناظر تقوی : پاکستان میں مسنگ پرسنز کے حوالے سے ایک بڑا اہم اور بہت ہی بنیادی ایشو ہے۔ اس میں قائد محترم کی پالیسی اور ہماری پالیسی بالکل واضح ہے۔ ہماری پالیسی یہ ہے کہ جو حضرات مسنگ ہیں اگر وہ ملزم ہیں تو ان کو بازیاب کیا جائے اور ان کو عدالت میں لایا جائے ان کو موقع دیا جائے اور اگر آپ ان کو مجرم سمجھتے ہیں تو انہیں صفائی دینے کا موقع دینا چاہئے۔ ملزم کو بھی صفائی کا موقع دینا چاہئے اور مجرم کو بھی ۔ پاکستان میں قانون کے تحت کسی بھی شخص کو تحقیقات یا تفتیش کیلئے نوے دن تک مسنگ کی حد میں لے جایا سکتا ہے لیکن نوے دن کے اندر اسے اس کی فیملی سے، اس کے خاندان سے ملانا اس کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ اگر مسنگ پرسنز کے ساتھ اس طرح سلوک کیا گیا تو یہ خود پاکستان کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی ہے اور یہ اچھی صورتحال نہیں ہے۔ ہم بارہا مقتدر اداروں سے بات کرچکے ہیں کہ اس کا بھی حل یہی ہے کہ آپ اس کو عدالت میں پیش کریں۔ پاکستان میں عدالتیں موجود ہیں۔ وہ حساب کے تقاضے پورے کریں گی اور اس کے بعد ملزم مجرم ثابت ہوتا ہے تو آپ اس کےت ساتھ جو آئین اور قانون ہو اس کے مطابق اسے سزا دیں۔ لیکن اس طرح مسنگ کرنا وہ غیر آئینی کام ہے۔

حوزہ نیوز: آپ کی نظر میں ملک پاکستان میں مختلف مقامات پر مجالس عزا اور اربعین وغیرہ کے جلوسوں پر حکومت کی طرف سے پابندیوں کا خاتمہ اور مراسم عزاداری وغیرہ کا آزادانہ انعقاد کس طرح عملی ہو سکتا ہے؟

حجت الاسلام سید ناظر تقوی : دیکھیں اس وقت ہماری بالکل واضح پالیسی ہے اور یہ ہمارا شہری اور ذاتی مسئلہ ہے، یہ ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے اور کوئی قانون بھی ہمیں اپنے شہری حق سے نہیں روک سکتا۔ پاکستان کے اندر دوسری کمیونٹیز بھی رہتی ہیں۔وہ اقلیت میں ہیں لیکن انہیں حکومت پاکستان میں فیسیلیٹیٹ کرتی ہے۔ پاکستان میں شیعہ دوسری بڑی طاقت اور قوت ہے۔ مجھے اگر میرے بنیادی حقوق سے روکا جائے گا، اگر میرے بنیادی حقوق میں روڑے اٹکائے جائیں گے تو یہ صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ میں ایک آئینی اور قانونی حد میں رہتا ہوں۔ ان ہتھکنڈوں سے مجلس بڑھ سکتی ہے، عزاداری بڑھ سکتی ہے لیکن تشیع اور مجلس رک نہیں سکتی۔

یہ صدی اسلام کے اقتدار کی صدی ہے

حوزہ نیوز: حکومتی ڈھانچہ میں تشیع کی شمولیت اور شیعیانِ اہلبیت کے حقوق کی پاسداری کیسے ممکن ہے؟

حجت الاسلام سید ناظر تقوی : میری نظر میں سیاسی میدان میں آئے بغٖیر تشیع کے حقوق کا تحفظ ہونا مشکل ہے۔ دیکھیں، پاکستان کے اندر کچھ مخصوص طاقتیں ہیں وہ ایک خاص مائنڈ سیٹ رکھتی ہیں اور وہ تشیع کے حالات کو خراب کرتی ہیں ورنہ حکومت بہت ساری جگہ پر تشیع کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ الحمدللہ تشیع اپنے مسئلے میں وزن رکھتی ہے۔ مسائل کو سمجھ کر ان کو حل کیا جاتا ہے۔

حوزہ نیوز: آج کل حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے یمن، فلسطین، کشمیر اس کے علاوہ دیگر ممالک میں مسلمانوں کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟

حجت الاسلام سید ناظر تقوی: مسلمانوں کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں ہماری پالیسی واضح ہے اور یہ ہمیں امیرالمومنین (ع) نے دی ہے۔ مولاامیر (ع) نے فرمایا "کونا للظّالم خصماً و للمظلوم عوناً" یعنی جتنے بھی مظلوم ہیں ان کی حمایت کرو اور ظالم کی مخالفت کرو۔

حکومتوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور حکومت اپنے مفادات کے تحت ہی فیصلے کرتی ہے۔ اگر حکومت اپنے مفادات سے بالا تر ہوجائے اور اپنے مفادات کو صرفِ نظر کر کے مسلمانوں کی بہتری کیلئے اقدام کرے تو مسئلہ فلسطین یا یمن کے مسئلہ کے حل میں اتنا طول نہ آتا، یہی کشمیر کا بھی مسئلہ ہے۔

او آئی سی ایک ایسا ادارہ تھا جسے مسلمانوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کیلئے بنایا گیا تھا لیکن بڑی معذرت کے ساتھ مسلمانوں کے مفادات مغربی ممالک سے اتنے وابستہ اور مغرب کے اتنے دست نظر ہوگئے ہیں کہ جن کی وجہ سے مسلمان حکمران یا مسلمان حکومتیں یمن کے مظلومین، فلسطین کے اور کشمیر کے مظلومین کی حمایت کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔

لیکن اب یہ طاغوتی طاقتیں، استعاری طاقتیں اور اس کے اتحادی زوال پذیر ہورہے ہیں۔ مسلمان اتنے مظالم کے بعد بھی طاقت پر جی رہے ہیں اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ فلسطین میں اتنے مظالم کرنے کے بعد بھی اسرائیل کو کیا ملا؟ امریکہ کو کیا ملا؟ ذلت اور خواری کے سوا کچھ ان کے مقدر میں نہیں تھا۔ امریکہ کو اسلام فوبیا ہوگیا ہے اور وہ خوفزدہ ہے اسلام سے۔ افغانستان میں اتنا پیسہ خرچ کیا، ڈالر خرچ کئے، اتنے فوجی مارے گئے لیکن کیا ملا کچھ نہیں ملا، اسی طرح عراق سے کچھ نہیں ملا۔ شام کے اندر جو کچھ ہوا اس سے بھی کچھ نہیں ملا۔ لہذا اب یہ گرتے ہوئے برج ہیں جو اپنے وجود کو بچانے کیلئے سہارے تلاش کررہے ہیں لیکن مسلمان طاقتور ہیں اور ان شاء اللہ یہ صدی اسلام کے اقتدار کی صدی ہے۔

حوزہ نیوز: آج کل حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے یمن، فلسطین، کشمیر اس کے علاوہ دیگر ممالک میں مسلمانوں کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟

حجت الاسلام سید ناظر تقوی: الحمد للہ شیعہ علماء کونسل کا اتحاد بین المسلمین کے سلسلہ میں بہت اچھا کردار رہا ہے۔ اس میں مزید بہتری اور خود شیعہ گروہوں کے درمیان اتحاد کے سلسلہ میں آپ کے پروگرامز کیا ہیں؟

یہ صدی اسلام کے اقتدار کی صدی ہے

دیکھیں سب سے تو پہلے میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے عرض کروں کہ الحمد للہ قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی اتحاد بین المسلمین کے داعی نہیں بلکہ بین المسلمین کے بانی ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل ہو یا ایم ایم اے ہو یا اس سے پہلے جو اتحاد کے حوالے سے ضابطے بنے تھے اس میں ان کا بنیادی اور کلیدی رول ہے اور یہ صرف ایسے نہیں کہ میں چونکہ اس جماعت سے وابستہ ہوں تو یہ بات کہہ رہا ہوں بلکہ پاکستان کے اندر جتنے بھی مقتدر سنی علماء کرام ہیں وہ یہ بات کہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں تشیع کے پاس اگر ایک معتدل اور دانا شخصیت علامہ سید ساجد علی نقوی ہیں کہ آج جو پاکستان کی فضا بہتر ہے کہ جسے تصادم کی طرف لے جایا جا رہا تھا اس کے تحفظ میں بنیادی رول قائد ملتِ جعفریہ کا ہے ۔ ہمیں اتحاد و وحدت پر بہت زیادہ زور دینا چاہئے چونکہ دشمن بڑا چالاک اور مکار ہے وہ کوئی ایسا موقع جانے نہیں دیتا کہ جس سے مسلمانوں میں تصادم و اختلاف ہو۔ ہر دور میں جو بھی اختلافی مسائل اٹھائے گئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ اتحاد و وحدت کی ہی برکت تھی کہ جس سے دشمن کی تمام سازشوں کو ناکام بنایا گیا ہے۔ شیعہ اور سنی جسم کے دو بازؤوں کی طرح ہیں اور الحمد للہ متحد ہیں اور سب کو پتا ہونا چاہئے کہ پاکستان میں کوئی شیعہ و سنی مسئلہ نہیں ہے، کوئی فرقہ واریت نہیں ہے۔ ہمارے کاروبار ساتھ ہیں، ہم اکٹھا کھاتے پیتے ہیں، اکٹھے رہتے ہیں، ایک دوسرے کے مدارس میں جاتے ہیں، سارے مسالک کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھتے ہیں ہاں ایک خاص مائینڈ سیٹ ہے وہ ہیں تکفیری کہ جنہیں ہمارے اتحاد و وحدت کی برکت نے شکست سے دوچار کیا ہے۔اسی طرح مومنین میں بعض کمزوریاں اور مسائل تھے جو آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں البتہ اس میں مزید بہتری کی بھی ضرورت ہے ۔ ایک دوسرے کی شخصیات کا احترام کیا جائے، ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کیا جائے تو اس وحدت میں میں مزید پختگی اور نکھار آئے گا۔ اختلاف ہوتا ہے لیکن اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ کسی کی کوئی توہین کی جائے۔ اختلاف کو برائے اختلاف نہیں ہونا چاہئے بلکہ تعمیری ہونا چاہئے۔

یہ صدی اسلام کے اقتدار کی صدی ہے

یہ صدی اسلام کے اقتدار کی صدی ہے

حجت الاسلام والمسلمین سید ناظر عباس تقوی نے آخر میں کہا: میں حوزہ نیوز کے پلیٹ فارم سے تمام مومنین کو یہ پیغام بھی دینا چاہوں گا کہ پاکستان میں الحمد للہ اتحاد و وحدت کے حوالے سے اتنی بہتر ہو چکی ہے کہ کوئی بھی قومی ایشو ہوتا ہے، کوئی بھی مسئلہ ہوتا ہے چاہے وہ شیعہ علماء کونسل ہو یا کوئی بھی دوسری شیعہ جماعت ہو، کسی بھی مسئلہ میں آپ دیکھ لیں سب ایک پینل پر کھڑے ہوتے ہیں اور یہ وحدت مزید بڑھے گی، ان شاء اللہ تعالی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .