۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
ہندوستان

حوزہ/ مولانا کلب جواد نقوی نے کہ شہید قاسم سلیمانی ایک عظیم کردار کے مالک تھے ۔ان کی زندگی اور موت کے بعد جس طرح ان کا غم منایا گیا اور ان کے اہداف کو زندہ رکھا گیا ،اسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔

لکھنؤ/ شہید قاسم سلیمانیؒ اور شہید ابومہدی المہندس کے یوم شہادت کی مناسبت سے مجلس علمائے ہند کی جانب سے امام باڑہ غفران مآب میں ’یاد شہداء کانفرنس‘ کا انعقاد عمل میں آیا۔پروگرام کا آغاز مولوی صائم رضا نے قرآن مجید کی تلاوت سے کیا ۔ا س کے بعد حوزہ علمیہ حضرت دلدار علی غفران مآبؒ کے طلبا نے شہدائے راہ اسلام کی عظمت اور ایثار پر مبنی دل سوز ترانہ پیش کیا جس کو سن کر حاضرین کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔اس کانفرنس میں ہندوستان کے مجاہدین آزادی کو بھی خراج عقیدت پیش کیاگیا۔

کانفرنس میں افتتاحی تقریر کرتے ہوئے مولانا سید اصطفیٰ رضا نے کہاکہ شہداء کو کسی ملک اور سرحد میں محدود کرنا صحیح نہیں ہے ۔جب کوئی انسان کسی عظیم مقصد کے لئے اپنی جان قربان کرتاہے تو اس کی نگاہ میں آفاقی اہداف ہوتے ہیں جیسے شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس نے آفاقی مقصد کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔یہ وہ شہید ہیں جنہوں نے انسانیت کے تحفظ کے لئے اپنی جان قربان کی اس لئے انہیں کسی ملک اور سرحد میں قید نہیں کیا جاسکتا ۔مولانانے عراق کے سیاسی حالات کاتجزیہ کرتے ہوئے علماء کی قربانیوں اور ایثار کا بھی تفصیلی تذکرہ کیا ۔خاص طورپر شہید باقرالصدر ؒ ا ور صدام کے زمانے کے پرآشوب حالات کا تجزیہ پیش کیا ۔

مولانا نے مزید کہاکہ معاصر لٹریچر پر بھی ہماری نگاہ ہونا چاہیے ۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہمارا نوجوان بے ہودہ لٹریچر سے دور رہے تو ہمیں اس کا نعم البدل پیش کرنا ہوگا ۔جب تک معاصر لٹریچر اور افکارو نظریات کا مطالعہ نہیں کیا جائے گا تب اس کا نعم البدل ، ان نظریات کا جواب اور نوجوانوں کی اصلاح کیسے ممکن ہے ؟ مولانانے کہاکہ ہندوستان میں بھی ایسےشہید موجود ہیں جن کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جیسے شہید مولوی محمد باقر جنہوں نے 1857 کی جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا ۔اسی طرح وہ شہید جنہوں نے مختلف جنگوں میں ہماری سرحدوں کا تحفظ کیا ان کی قربانیوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے ۔

مولانا سید رضاحسین رضوی نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ عہد میں ہماری ذمہ داری ہے کہ شہیدوں کے نقش قدم کو اپنے لئے نمونۂ عمل بنالیں۔ ان کے افکارو نظریات کا احیاء کیا جائے اور نوجوان نسل کو ان کی عظمت کے بارے میں آگاہی دی جائے ۔خواہ وہ ایران و عراق میں شہید ہونے والے لوگ ہوں یا پھر ہندوستان کی سرزمین پر شہادت پیش کرنے والے مجاہدین آزادی ہوں ۔مولانانے کہا شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس جیسے عظیم مجاہد صدیوں میں پیداہوتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اللہ کے لئے وقف کردی تھی ۔انہوں نے تاریخ پر انمٹ نقش مرتب کئے ہیں جنہیں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔

صدر جلسہ مولانا سید کلب جواد نقوی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ قرآن مجید نے شہید کی زندگی کا اعلان کیا ہے ۔ قرآن نے کہاہے کہ شہید زندہ ہے مگر تم ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے ۔مولانانے کہاکہ اگر زندگی بامقصد ہے تو وہ اصل زندگی ہے ورنہ بے مقصد حیات موت سے بھی بدتر ہے ۔اسی طرح موت اگر کسی عظیم مقصد کے لئے ہوتی ہے توہ موت نہیں ہوتی بلکہ ابدی حیات میں بدل جاتی ہے ۔مولانانے کہ شہادت ایسا ہتھیار ہے جس سے ظالم خود اپنا گلا کاٹ لیتاہے ۔جو لوگ ظلم کرتے ہیں وہ مٹ جاتے ہیں اور جو عظیم مقصد کے لئے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں تاریخ انہیں ہمیشہ یاد رکھتی ہے ۔مولانانے کہ شہید قاسم سلیمانی ایک عظیم کردار کے مالک تھے ۔ان کی زندگی اور موت کے بعد جس طرح ان کا غم منایا گیا اور ان کے اہداف کو زندہ رکھا گیا ،اسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔

کانفرنس میں عادل فراز کی ترتیب کردہ کتاب’ شہید قاسم سلیمانی کے بعد عالمی صورتحال ‘ جو سال گذشتہ شایع ہوئی تھی ،کے ہندی ترجمہ کی رسم اجرا بھی عمل میں آئی ۔

پروگرام میں مولانا سید رضا حسین رضوی،مولانا نثار احمد زین پوری ،مولانا اصطفیٰ رضا ،مولانا زوار حسین ،مولانا نذر عباس ،مولانا عباس اصغر شبریز،مولانا احمد رضا بجنوری،مولانامحمد مہدی ،مولانا محمد ظہیر ،مولانا منظر عباس ،مولانا حسن جعفر اور دیگر علماء و مومنین نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔خاص طورپرحوزہ علمیہ حضرت دلدار علی غفران مآبؒ کے طلباء اور مدرسۃ لزہراؑ کی طالبات نے بھی شرکت فرمائی۔نظامت کے فرائض عادل فراز نے انجام دیے ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .