حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ شیعوں کو درپیش مسائل اور موجودہ صورتحال کے احتساب کے لئے آج بڑا امام باڑہ لکھنؤ میں امام جمعہ مولانا سید کلب جواد نقوی کی جانب سے’’ شیعوں کا عظیم الشان اجتماع‘‘ منعقد ہوا۔اس اجتماع میں اترپردیش کے سبھی اضلاع سے علما ،انجمنوں،اداروں اور مومنین نے شرکت کی۔اترپردیش کے علاوہ دہلی ،جموں ،کشمیر،بھوپا ل ،بہار،ہریانہ،مہاراشٹر،کرناٹک ،بنگال ،تامل ناڈواور دیگرریاستوں کے علماء نے پروگرام میں پہونچ کر اپنے علاقائی اور قومی مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے قاری معصوم مہدی نے کیا ۔اسکے بعد پروگرام کے کنوینر مولانا شباب حیدر نقوی سرسوی نے پروگرام کے اغراض و مقاصد بیان کئے ۔استقبالیہ کلمات کانفرنس کے صدر مولانا کلب جواد نقوی نے اداکئے ۔مولاناکلب جواد نقوی نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ شیعہ مہاسمیلین میں ہم شیعوں کے بنیادی مسائل کو اٹھارہے ہیں تاکہ ہماری قوم کو اس کے حقوق مل سکیں۔مولانا نے کہاکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ شیعہ مسلسل پسماندہ ہوتے جارہے ہیں خواہ وہ تعلیمی میدان ہو،اقتصادی و سیاسی میدان ہو۔ہم چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں حکومت سے بھی مدد لی جائے تاکہ شیعوں کی پسماندگی دورہوسکے ۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمان ہر میدان میں بچھڑے ہوئے ہیں ،اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعہ اقلیت دراقلیت ہیں ،ان سے زیادہ کون پسماندہ ہوسکتاہے؟مولانانے کہاکہ شیعوں کے ووٹوں کی تعداد کم نہیں ہے لیکن ہمارے ووٹوں کو چھپایا جاتاہے اور چشم پوشی کی جاتی ہے تاکہ ہمیں ہمارے حقوق نہ مل سکیں۔اس کانفرنس کے ذریعہ ہم اس غلط فہمی کو دورکرنا چاہتے ہیں کہ شیعوں کی تعداد بہت کم ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں ہمارے حقوق ملنا چاہئیں یہی ہمارا بنیادی مطالبہ ہے۔خاص طورپر ہم اس سلسلے میں حکومت سے بھی بات چیت کریں گے ۔ہم نے جب پہلی بار وزیراعظم نریندرمودی سے ملاقات کی تھی ،تب انہو ںنے کہاتھاکہ مسلمان اپنے مسائل ہم تک نہیں پہونچاتے ہیں ،ان شاء اللہ اس کانفرنس کے بعد ہم ان سے مل کر اپنے مطالبات رکھیں گے تاکہ شیعوں کی ترقی کی راہ میں موجود رکاوٹیں کو دور کیاجاسکے۔مولانانے تمام علما ،انجمنوں ،اداروں اور دوردراز سے تشریف لائے مومنین کا تہہ دل سے شکریہ اداکیا ۔
اس کے بعد تقریر کرتے ہوئے مولانا عرفان عباس زینبی رکن کرناٹک وقف بورڈ نے کہاکہ ہمیں علمی اور اقتصادی میدان میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔قیادت کو مضبوط کرنا ہوگا اور علمی و سماجی پسماندگی کو درکرنا ہوگا۔مولانا احمد رضا امام جمعہ چننئی نے کہاکہ شیعہ قوم کو تمام اختلاف و انتشار سے ابھرکر متحد ہونا ہوگا ۔بغیر اتحاد کے ہمیں ہمارے حقوق حاصل نہیں ہوسکتے ۔مولانا مقبول حسین امام جمعہ سری نگر نے اپنی تقریر میں کشمیر کے مسائل کو موضوع گفتگو قرار دیا۔انہوں نے کہاکہ ہم حکومت کے خلاف نہیں ہیں لیکن ہمیں بعض پالیسیوں سے اختلاف ہے ۔کوئی جبری کسی کا مذہب اور تشخص نہیں چھین سکتا۔انہوں نے قیادت کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے تحریک کی کامیابی کے اہم نکات بھی پیش کئے ۔
مولانا صفدر حسین جونپوری نے کہاکہ ہمیں ایک قیادت کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ ہمارے مسائل حل ہوسکیں ۔مولانا قرۃ العین مجتبیٰ پرنسپل حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر نے تہذیبی یلغار پر تقریر کی ۔انہوں نے کہاکہ دشمن ہماری تہذیب کو ختم کرنا چاہتاہے تاکہ وہ ہمارا تشخص ختم کرسکے لیکن ہمیں اسکے لئے بیدار ہوناہوگا۔مولانا شبیب کاظم مظفر پوری نے بہار میں اوقاف کی تباہی اور وقف املاک کے تحفظ پر تقریر کی ۔انہوں نے کہ امام حسینؑ کا مقصد ظلم اور ظالموں کےخلاف قیام تھا ،اسلئے آج کے ظالموں کے خلاف قیام ضروری ہے ۔معروف ایڈوکیٹ محمود پراچہ نے وقف ایکٹ کے تحفظ پر تقریر کی اور کہاکہ ہمیں بیدار رہنا ہوگا کیونکہ حکومتیں ہمارے اوقاف کو بربادکرنا چاہتی ہیں۔
مولانا شمع محمد رضوی بھیکپوری نے تعلیم و اقتصاد کی اہمیت پر گفتگو کی ۔دہلی کے معروف عالم دین مولانا محمد محسن تقوی نے قوم کی مرکزیت اور محوریت پر گفتگو کی ۔انہوں نے کہاکہ اگر مرکزیت کو نقصان پہونچا تو قوم کو نقصان پہونچے گا اس لئے مرکزیت کی بحالی ضروری ہے ۔
اس کے علاوہ مولانا سعید رضائی جلال پور،مولاناطیب رضاعلی گڑھ ،جناب ڈاکٹرنظر عباس علی گڑھ ،مولانا معصوم مہدی بینگلور،مولانا اسد عابدی نانوتہ سہارنپور،مولانا صداقت حسین نقوی فرخ آباد،مولانا حامد حسین کانپور،مولانا مہر عباس رضوی کلکتوی نےبھی تقاریر کیں ۔
پروگرام کے آخر میں شیعہ وقف بورڈ کے چئیرمین علی زیدی نے کہاکہ ہم علماء کی آراء اور تجویزات کے ہمیشہ منتظر رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے ۔انشاء اللہ علماء کی رہنمائی میں جس طرح کام ہورہاہے ہوتارہے گا۔
کانفرنس میں موجود سبھی علماء نے مشترکہ طورپر کہاکہ شیعوں کو قومی سطح پر اتحاد اور یکجہتی کے مظاہرےکی اشد ضرورت ہے ۔اختلاف و انتشار نے ہماری قوم کو بہت نقصان پہونچایاہے ۔انہوں نے کہاکہ قومی سطح پر اوقاف کی املاک کا تحفظ اور حسین آباد ٹرسٹ کی بازیابی ہمارے اہم مطالبات میں شامل ہے ۔ساتھ ہی جنت البقیع کے انہدام کو سو سال پورے ہورہے ہیں مگر افسوس اب تک دختر رسول حضرت فاطمہ زہراؑکی قبر بے سایہ ہے ۔ہم اس ظلم کی سخت مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ جنت البقیع کی بازسازی کرائی جائے ۔
علمانے کہاکہ شیعوں کی ترقی اور فلاح کے لئے مختلف سطحوں پر منصوبہ بندی اور کام کی ضرورت ہے ۔ہمارے پاس اسکول اور کالجوں کی کمی ہے ۔قومی سطح پر ہماری کوئی نمائندہ یونیورسٹی نہیں ہے ۔ہمارے بچوں کے لئے اچھے کوچنگ سینٹر نہیں ہیں ۔اقتصادی بہبود کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے ۔غربت کی شرح بڑھتی جارہی ہے ۔اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ان شاء اللہ سبھی علما ، انجمنوں اور شیعوں کے اہم دانشوروںسے مشورے کے بعد ان تمام مسائل پر کام کیاجائے گا۔
کانفرنس میں کثیر تعداد میں علما،انجمنوں اور مومنین نے شرکت کی ۔خاص طورپر جون پور،مظفر نگر ،سہارنپور،میرٹھ ،سنبھل،مرادآباد،نوگانواں،امروہہ،بریلی ،سیتاپور،ہردوئی ،شہاجہاں پور،کانپور،بارہ بنکی ،بہرائچ،فیض آباد،الہ آباد،اکبر پور،جلال پور،غازی پور،سلطان پور،بہار،کرناٹک،کلکتہ،سری نگر،کشمیر،چھتیس گڑھ ،بھوپال ،مھاراشٹراور دیگر ریاستوں کے علمانے شرکت کی ۔جن میں مولانا صفدر زیدی جون پور،مولانا محمد عسکری خان سلطان پور،مولانا کلب عباس خان سلطان پور،مولانا احمد رضا تامل ناڈ،مولانا میر شاعر علی عابدی بینگلور،مولانا ابن حسن املوی اعظم گڑھ،مولانا تقی حیدر نقوی دہلی،مولانا عابد عباس دہلی ،مولانا باقر عباس شکارپوری،مولانا مرزا غازی حسین بلند شہر،مولانا طاہر عابدی غازی پور،مولانا تنویر حیدر نقوی رسول پور،مولانا غم خوار حسین چلکانہ ،مولانا اشتیاق حسین سیتاپور،مولانا حسن رضا مظفر نگر،مولانا شمس الحسن بریلی،مولانا مرزا شفیق حسین شفق ،ڈاکٹر ارشد علی جعفری،مولانا شوکت صاحب ممبئی ،مولانامحمد صلاح الدین حیدر سیتاپور،مولانا شفیق حیدر لکھیم پور،مولانا فیروز عباس مہراج گنج،مولانا حسین جعفر وہب محمدآباد گہنہ،مولانا بشارت حسین نوگانواں،مولانا مسرورحسین نوگانواں،مولانا غلام الثقلین اکبرپور،مولانا عارف حسین اعظمی،مولانا مکاتیب علی خان،مولانا جعفر رضا امام جمعہ فیض آباد،مولانا صفدر حسین سہارن پور،مولانا ایاز حسین بارہ بنکی ،مولانا اظہر عباس زیدی مظفرنگر،مولانا سید قسیم عباس بجنور،مولانا تسنیم مہدی زید پوری،مولانا محمد میاں لکھنوتی،مولانا نصرت حسین مرآداباد،مولانا احمد حسن خان جونپور،مولانا قاضی حسین رضا نقوی سرسی،مولانا حشمت علی امام جمعہ غازی آباد،مولانا امیر عباس نقوی کھروا جلال پور،مولانا حسن اختر مبارک پور،مولانا وصی الحسن جونپور،مولانا محمد حسن عابدی میرٹھ ،مولانا محمد عباس نجفی امروہہ،مولانا اصغر حسین ممبئی،اور دیگر علمانے شرکت کی ۔
کانفرنس کے بنیادی مطالبات اور نکات:
۱۔قومی وحدت کا فروغ اور اس کے لئے جدوجہد
۲۔جنت البقیع کی بازسازی کا مطالبہ، سوسالہ مذموم انہدامی کاروائی کی مذمت اور اقوام متحدہ کو قرارداد کی ترسیل
۳۔تعلیمی و اقتصادی پسماندگی کی شرح ،اعدادوشمار،اسباب اور اس صورتحال سے نکلنے کے لئے لایحۂ عمل
۴۔سیاسی شعور کا ارتقا،سیاسی لیڈرشپ کا وجود اور اس کی ترقی ،سیاسی مسائل کے حل کے لئے لایحۂ عمل کی ترتیب
۵۔اوقاف کے مسائل،تحفظ کا لایحۂ عمل،وقف املاک کا استعمال اور فائدے
۶۔میڈیا کے فقدان کی دوری،ملّی میڈیا کا وجود اور فروغ
۷۔شیعوں کے بنیادی مسائل ،من جملہ سیاسی،سماجی ،فکری وعقیدتی اور ان کا راہ حل
۸۔عزاداری کو مظاہر پرستی اور نمودونمائش سے محفوظ رکھنا۔نیز شیعہ معاشرے کی اصلاح اور بہتری کے لئے کام کرنا
۹۔نوجوانوں کےفکری بے راہ روی سے تحفظ کے لئے لایحۂ عمل،لٹریچر کی آمادگی ،اور کلاسیز کا اہتمام
۱۰۔سرکاری منصوبوں اور اسیکموں میں شیعوں کی خصوصی حصہ داری کا مطالبہ
۱۱۔سرکار سےشیعوں کی سیاسی نمائندگی کا مطالبہ
۱۲۔حسین آباد ٹرسٹ کی بازیابی ،آمدنی اور اخراجات کی جانچ اور عمارتوں کی مرمت کا مطالبہ
اور دیگر مسائل