۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
انٹرویو

حوزہ/ فلسطین کی عوام نے اپنا راستہ چن لیا ہے ، اسرائیل کو اگر یہ لگتا ہے طاقت کے بل پر فلسطینیوں کو دبا دے گا تو یہ اس کی بھول ہے ، کسی بھی قوم کو ایک حد تک دبایا جا سکتا ہے ، دبی کچلی قومیں جب سر اٹھاتی ہے تو پھر جہان تھرا جاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا نجیب الحسن زیدی، آپکا شمار ملک ہندوستان کے معروف ترین علمائے کرام اور مذہبی اسکالرز میں ہوتا ہے، جو دلیل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرتے ہیں و ملکی اور عالمی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، وہ اپنی تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی نے "مسئلہ فلسطین" کے حوالے سے مولانا نجیب الحسن زیدی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو لیا جو پیش خدمت ہے۔

سوال : حماس کے طوفان الاقصی نامی آپریشن کے بعد مشرق وسطی کی صورتحال کے بارے میں آپ کی رائے

جواب : مشرق وسطی اپنے خطرناک ترین دور سے گزر رہا ہے ، حماس نے جو کچھ کیا وہ ایک دبا ہوا لاوا تھا جو ابل گیا مسلسل اسرائیل کی جانب سے غزہ پر اندھا دھند بمباری کا ہونا ، فلسطینیوں کو ہرا ساں کرنا ، جب چاہے دندناتے ہوئے فلسطین کے پناہ گزیں کیمپوں پر حملہ کر دینا روز روز کی ایک طرفہ کاروائیوں سے فلسطینی تھک چکے تھے یہی وجہ ہے کہ مزاحمتی محاذ نے کرو اور مرو کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے ایسا کچھ کر دیا جس کے بارے میں صہیونیوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا ، جو کچھ ہوا اس کے بعد نیتن یاہو کی جانب سے جو کہا جا رہا ہے ایک نیا مشرق وسطی وجود میں آئے گا یہ سچ لیکن یہ ویسا مشرق وسطی ہرگز نہیں ہوگا جیسا امریکہ و اسرائیل نے سوچا ہے یہ مشرق وسطی ویسا ہوگا جیسا فلسطینی چاہیں گے ۔

سوال : بعض نیوز ایجنسیوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے بعض اسرائیلی بستیوں میں حماس کے جنگجووں نے گھس کر عام لوگوں کا قتل عام کیا بچوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں چھوڑا بی بی سی نے بھی اس رپورٹ کو شایع کیا ہے ہندوستانی میڈیا میں خاص کر یہ بات زور شور سے اٹھائی جا رہی ہے کہ ہندوستانی مسلمان حماس کی دہشت گردانہ کاروائی کی تو مذمت نہیں کر رہے ہیں لیکن حماس کے حملے کے بعد اب جب اسرائیل انتقامی کاروائی کر رہا ہے تو ہر طرف ہا ہا کار مچی ہوئی ہے ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟

جواب : یہ جتنی بھی خبریں حماس کی انتقامی کاروائی کے سلسلہ سے گردش کر رہی ہیں انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کہاں سے آ رہی ہیں جتنی بھی باتیں ہیں سب مغربی میڈیا کی جانب سے بیان ہو رہی ہیں اور خود مغربی میڈیا کا انداز کبھی بھی خبروں کے سلسلہ سے منصفانہ نہیں رہا ہے آپ دیکھیں کہ کس طرح امریکہ میں ایک ۶ سالہ فلسطینی بچے کا قتل بیمانہ قتل ہوتا ہے اسے مغربی میڈیا کس انداز سے پیش کرتا ہے ؟ یہ قتل جس کی تصدیق خود امریکہ کے صدر جمہوریہ بائڈن کا بیان کرتا ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے بالکل یقینی و صحیح خبر ہے اس کے بارے میں مغربی میڈیا کی کوریج کو آپ دیکھیں اس خبر کو مغربی میڈیا نے اپنے اخبارات و جرائد میں کہاں رکھا اس پر کتنے ٹاک شو ہوئے کتنی گفتگو ہوئی کتنے تجزیے ہوئے اس کے برخلاف ایک ایسی جھوٹی خبر جس کی تردید خود وائٹ ہاووس نے کی جو اسرائیلی بچوں کے حماس کی جانب سے قتل کے سلسلہ سے تھی اسے دیکھیں مغربی میڈیا نے کس طرح اسے دنیا کے سامنے پیش کیا جبکہ اسکی کوئی حقیقت نہ تھی یہ تومغرب کا دہرا رویہ ہے ابھی غزہ میں مرنے والے بچوں کی تعداد کو دیکھ لیں ڈھائی ہزار سے زیادہ جاں بحق ہونے والوں میں اکثریت بچوں کی ہے لیکن مغربی میڈیا کس طرح پیش کر رہا ہے یہ آپ دیکھ رہے ہیں ، اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے کہہ کر طفل کشی کا جو جواز مغربی حکومتیں فراہم کر رہی ہیں اسی جواز کو تسلیم کر کے جب مغربی میڈیا رپورٹنگ کرے گا تو انداز یہی ہوگا جو ہے ، جہاں تک ہا ہا کار مچنے کی بات ہے احتجاج کی بات ہے تو یہ احتجاج اس بات کا بیان گر ہے کہ ہم زندہ ہیں ہمارے پہلو میں دل دھڑک رہا ہے اس لئے ہم غزہ کے محاصرہ اور اسرائیل کی جانب سے قتل عام کی مذمت کر رہے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے بعض یہودی رہنما کر رہے ہیں ، آپ ہارتز اخبار اٹھا کر دیکھ لیں مختلف کالمز اسرائیلی صحافیوں کے روز ہی آپ کو مل جائیں گے جس میں اسرائیل کی غزہ پر بمباری کی با قاعدہ مذمت کی جا رہی ہے ہندوستان کے منصف مزاج صحافی جناب رویش کمار نے اس سلسلہ سے ایک ویڈیو بھی بنائی ہے و کافی حد تک اس مسئلہ کی وضاحت کر رہی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جو کاروائی ہو رہی ہے اس کی مخالفت خود اسرائیل کا پڑھا لکھا طبقہ بھی کر رہا ہے یہ تو بس ہندوستان کے کچھ نام نہاد صحافی ہیں جو چیخ چیخ کر ایک طرفہ طور پر اسرائیل کی حمایت میں بول رہے ہیں جس سے خود انہیں کے جنرلزم و پیشہ کی دھجیاں اڑ رہی ہیں ۔

آپ ذرا خود ملاحظہ کریں کریں ایک طرف اپنی سرزمین کے لئے لڑنے والے جانباز و مجاہدین ہیں جنکی کاروائی کو دہشت گردانہ قرار دیا جاتا ہے دوسری طرف انسانیت کے قاتل ہیں بچوں کے قاتل ہیں ، ایسے لوگ ہیں جنکے مظالم کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے یہ لوگ بچوں کو قتل کر تے ہیں پھر سوشل میڈیا پر تصاویر بھی وائرل کرتے ہیں آپکے علم میں ہوگا کہ کس سال قبل ح مشرقی بیت المقدس میں ایک یہودی لیڈر نے دو فلسطینی بچوں کو اپنی گاڑی سے کچل دیا اور فرار ہو گیا جسکی خبر خود مغربی میڈیا نے بھی دی لیکن بس ایک خبر کی حد تک بچوں کو مارنا عورتوں کو ستانا مردوں کو اسیر کرنا اور قتل و غارت گری صہیونیوں کے وحشی پن کوبیان کرنے کے لئے کافی ہے اسکے باوجود دنیا انکے مظالم پر آنکھ بند کئے بیٹھی ہے کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے ؟ …

سوال : آپ نے کہا اسرائیل میں پڑھا لکھا طبقہ خود اسرائیل کی جارحیت کا مخالف ہے یہودی خود مخالف ہیں تو کیا ثبوت کے طور پر کوئی نمونہ ہے آپ پاس جسے پیش کیا جا سکے۔

جواب : ایک نہیں کئی ایسے نمونے ہیں بے شمار ایسے نمونے ہیں خود اسرائیل کے یہودی مخالفین پر ایک کتاب ہے ’’ایک سو ۱۰ صہیونیت کی مخالف م شخصیات ‘‘ اس کتاب میں ان ایک سو دس شخصیتوں کا تعارف ہے جنہوں نے یہودی ہوتے ہوئے اسرائیل کی مخالفت کی ہے اس کی پالیسیوں پر تنقید کی ہے انہیں شخصیتوں میں ایک شخصیت’’ ایلان پاپے‘‘ کی ہے

ایلان پاپے کے بے باک انداز میں اپنے خیالات کے اظہار کی بنا پر ان پر اسرائیل کی حیفا یونیورسٹی میں خدمات پیش کرنے پر روک لگا دی گئی تھی اور انہیں دھمکیاں دی گئیں تھیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صہیونی فکر محض فلسطینیوں کے خلاف نہیں ان پر ہی ظلم و ستم کے پہاڑ نہیں توڑے جا رہے ہیں بلکہ اس فکر کے خلاف جو بھی آواز اٹھاتا ہے اسکا حال کسی فلسطینی باشندے سے کم نہیں ہوتا بالکال ویسے ہی جیسے حالات اب ہندوستان میں ہوتے جا رہے ہیں کہ ایک خاص رنگ یا فکر کی مخالفت کے پاداش میں ملک سے غداری کا تمغہ سجا دیا جاتا ہے اور انسان سوچتا رہتا ہے کہ اسکا جرم کیا تھا ؟ اسنے نہ تو ملک کے خلاف کچھ کہا نہ ملک کے آئین کے خلاف بلکہ وہ تو ملک سے محبت کرتا ہے آئین پر بھروسہ کرتا ہے ۔ جو کچھ ہمارے یہاں اب ہو رہا ہے فلسطین میں کس طرح ہوا ہے اسکے ضروری ہے کہ صاحبان فکر و نظر کی تحریروں کا مطالعہ کریں اور سطحی تجزیوں و تبصروں سے پرہیز کریں جن میں ایک طرفہ طور پر وہی بات کی جاتی ہے جو صاحبان اقتدار چاہتے ہیں

سوال : آپ نے جس مصنف کا نام کیا ان کی کتاب بارے میں کچھ وضاحت کر سکتے ہیں ؟

جواب: ایلان پاپے نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے

فلسطین کی قومی بیخ کنی یانسلی صفائی Ethnic Cleansing of Palestine» یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے اسرائیلی مورخ ایلان پاپے Ilan Pappé نے2006 ء میں ون ورلڈ آکسفورڈ سے شائع کیا. ۔ یہ کتاب ایک بھیانک حادثہ اور اسکے اثرات و نتائج کے سلسلہ سے لکھی گئی ہے ۔

مصنف کا اجمالی تعارف یہ ہے کہ ایلان پاپے Ilan Pappé אילן פפה؛ کی پیدائش ۱۹۵۴ میں ہوئی یہ اسرائیل کے مورخ اور سوشلسٹ نقطہ نظر رکھنے والے ایک متحرک سماجی کارکن ہونے کے ساتھ برطانیہ کے سماجی علوم اور بین الاقوامی مطالعہ برطانیہ کے علاوہ یونیورسٹی کے شعبہ یورپی سینٹر برائے مطالعہ فلسطینی کے ڈائریکٹر، اور ایتھن سیاسی مطالعہ کے لئے منظور شدہ سینٹر کے شریک ڈائریکٹر و پروفیسر ہیں.انکی پیدائش حیفا میں ہوئی برطانیہ آنے سے قبل، یہ حیفا یونیورسٹی (1984-2007) میں سیاسی سائنس کے ایک سینئر لیکچرار اور (2000-2008ء) میں حیفا میں فلسطینی اور اسرائیلی مطالعہ کے لئے ایمیل ٹوما انسٹی ٹیوٹ کے صدر تھے ۔

پاپے اسرائیل کےان نئے تاریخ دانوں میں شمار ہوتے ہیں ، جو 1 948 میں ابتدائی برطانوی اور اسرائیلی حکومتی دستاویزات کی کے سامنے آنے کے بعد انہیں دستاویز کے تحت اپنی ایسی رسرچز کے لئے مشہور ہیں جن پر موافق ومخالف دونوں ہی نے تنقیدیں کی ہیں اسی لئے انکے طریقہ کار پر دوسرے مؤرخوں کی طرف سے حمایت کے ساتھ تنقید بھی نظر آتی ہے ، پاپے جہاں فلسطینیوں کی نسلی صفائی کو منصوبہ بند مانتے ہیں وہیں وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ صیہونیزم اسلامی عسکریت پسندی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے۔ فلسطین و اسرائیل دونوں ہی کے حقوق کی محافظت ہو سکے اسی بنا پر وہ ایک ایسی ریاست کی حمایت کرتے ہیں جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لئے مشترکہ ریاست کے تصور کو پیش کرتی ہو انہیں اپنے کام کے طریقہ کار اور نظریات کی بنیاد پر کئی مرتبہ قتل کی دھکمی بھی دی جا چکی ہے ۔

007 ۲ء میں اسرائیلی یونیورسٹیوں کے بائیکاٹ کے بعد 2007ء میں انہوں نے حیفا یونیورسٹی کوچھوڑ دیا تھا،یا یوں کہا جائے کہ در اصل انہیں وہاں کی یونیورسٹیز سے استعفی دینے پر مجبور کیا گیا اور اسرائیلی معاشرہ میں عدم برداشت کے چلتے ان کو اپنے تمام تر ان حقائق کے ساتھ اسرائیل کو خیرآباد کہنا پڑا جو ان کو ایک ظالمانہ حکومت کی غلامی سے زیادہ عزیز تھے چنانچہ ایک قطری روزنامہ کو دئیے گئے انٹرویو میں وہ اپنے فیصلے کی وضاحت کے ساتھ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ کس طرح اسرائیل میں سچ اور صداقت کی بنیاد پر ان کے اوپر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیابقول خود انکے : “میرا اپنی ہی یونیورسٹی سے بائکاٹ کر دیا گیا تھا مجھے روز دھمکیاں مل رہی تھیں اسرائیلی معاشرہ میں میں اب جینا دوبھر تھا مزے کی بات یہ کہ کچھ بہروپیے یہ سمجھ رہے تھے گوکہ میں عرب ایجنسیز کے لئے کام رہا تھا ۔

پاپے نے کچھ اور بھی اہم کتابیں لکھی ہیں جیسے :

جدید مشرق وسطی (2005)،

فلسطین جدید کی تاریخ

ایک زمین، دو قومیں (2003)،

اور برطانیہ اور عرب-اسرائیلی تنازعات (1988).

نظریہ اسرائیل، طاقت اور علم کی تاریخ

جہاں تک اس کتاب کی بات ہے تو اس کتاب کا موضوع ، فلسطینیوں کی زبردستی ہجرت اور اسرائیل و عربوں کے ما بین جنگ کی وجوہات و دلائل کو بیان کرنا ہے ، مصنف نے اس کتاب میں ۶۰ سال سے اوپر جو کچھ بھی برطانوی حکومت کی حمایت و پشت پناہی کے ذریعہ انجام پایا ہے اسکی تفصیل کے ساتھ وضاحت کی ہے اور اس دوران ہونے والے ظلم وستم کے سلسلہ سے اپنے مخاطب کوآگاہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔

پاپے اس کتاب کے ایک حصہ میں لکھتے ہیں :’’ روز تباہی و بربادی یا نکبت جسے عربی میں یوم النکبہ کہا جاتا ہے ۱۹۴۸ کی پندرہ مئی کے ایک ایسے دن سے مطابق ہے جب فلسطین میں ملک اسرائیل کے بننے کا اعلان کیا گیا ۔

فلسطین میں ۱۹۴۸ کی ہونے والی جنگ میں دسیوں ہزار لوگ لقمہ اجل بن گئے اور قریب ۷۰ ہزار فلسطینیوں کو زور زبردستی کر کے انکے گھروں سے کھدیڑ کر دربدر کر دیا گیا ، دسیوں چھوٹے چھوٹے شہر اور ٹاون سٹیز ، پانچ سو سے زیادہ دہیات سکونت سے خالی ہوکر ویران ہو گئے

یہ اپنے ملک سے دربدر پناہ گزیں و رفیو جی جنکی آج تعداد دسیوں لاکھ سے متجاوز ہے اردن (بیس لاکھ)، لبنان (چار لاکھ)، شام (۵ لاکھ)، فلسطین کے مغربی کنارے پر( 8 لاکھ) غزہ پٹی( گیارہ لاکھ )کے علاوہ خود اسرائیل میں کم از کم ڈھائی لاکھ کی تعداد میں ادھر سے ادھر ہو گئے اور یوں اپنی سر زمین سے بکھر کر رہ گئے ہیں ، اپنی جمع پونجی اور اور اپنی ملکیتوں سے ہاتھ دھونے اور زبردستی فلسطین کے لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کرنے کے ساتھ تباہی و لاچاری و بربادی کے علاوہ اس روز تباہی و نکبت نےا نہیں کیا دیا‘‘ ۔ پاپے نے اس کتاب میں بتانے کی کوشش کی ہے کہ جو کچھ بھی ہوا وہ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت ہوا اور اسی لئے انہوں نے اس کتاب کا نام فلسطینیوں کی قومی بیخ کنی یا نسلی صفائی رکھا ہے ۔

سوال : فلسطین کے موجودہ حالات کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں ؟

جواب: فلسطین کی عوام نے اپنا راستہ چن لیا ہے ، اسرائیل کو اگر یہ لگتا ہے طاقت کے بل پر فلسطینیوں کو دبا دے گا تو یہ اس کی بھول ہے ، کسی بھی قوم کو ایک حد تک دبایا جا سکتا ہے ، دبی کچلی قومیں جب سر اٹھاتی ہے تو پھر جہان تھرا جاتا ہے ، اقبال نے کہا تھا ، گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو تھرتھراتا ہے جہان آرزو و رنگ و بو اس وقت کیفیت کچھ ایسے ہی ہے ایسے میں تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ کھل کر فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائیں تاکہ اسرائیل کو اپنی من مانی کا موقع نہ مل سکے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .