حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ دختر پیغمبر اکرمؐ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے المناک موقع پر دفتر مجلس علمائے ہند کی جانب سے ہر سال کی طرح امسال بھی امام باڑہ سبطین آباد حضرت گنج میں دو روزہ مجالس کا انعقاد عمل میں آیا ۔اس سلسلے کی پہلی مجلس کو مولانا سید رضاحیدر زیدی مدیر حوزہ علمیہ حضرت دلدار علی غفران مآبؒ نے خطاب کیا ۔مجلس کا آغاز قاری معصوم مہدی نے تلاوت قرآن مجید سے کیا ،اس کے بعد شعرائے کرام نے بارگاہ سیدۂ عالمیان میں منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔
مجلس کو خطاب کرتے ہوئے مولاناسید رضا حیدر زیدی نے ’عظمت اور سیرت‘ کے موضوع پرسیر حاصل گفتگو کی۔مولانانے کہاکہ عظمت حضرت زہرا ؑکا ادراک ناممکن ہے ۔قرآن مجید میں اعلان ہواہے کہ’ قرآن کو فقط پاکیزہ لوگ ہی مس کرسکتے ہیں‘ ۔سوال یہ ہے کہ آیا غیر مسلموں کے پاس قرآن مجید نہیں ہے ؟کیا وہ قرآن مجید نہیں پڑھتے ہیں ؟ کیا وہ وضو کرکے قرآن مجید کو مس کرتے ہیں ؟ہرگز نہیں ! تو پھر قرآن مجید کا دعویٰ کیسے ثابت ہوگا کہ اس کتاب کو صرف پاکیزہ لوگ ہی مس کرسکتے ہیں؟اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کے دو وجود ہیں ۔ایک ظاہری وجود ہے جو کاغذپر ہے اوردوسرا حقیقی وجود ہے جس تک صرف مطہر اور پاکیزہ لوگ ہی پہونچ سکتے ہیں۔کاغذ پر موجود قرآن مجید کو ہر کوئی مس کرسکتاہے لیکن حقیقتِ قرآن مجید کو صرف وہ لوگ پا سکتے ہیں جو پاکیزہ ہیں ،جن کی طہارت کی سند قرآن مجید میں آیت تطہیر کی شکل میں موجود ہے ۔اسی طرح قرآن ناطق کے بھی دو وجود ہیں ۔ایک مادی وجود اور ایک روحانی اور نورانی وجود ہے ۔مادی وجود پر ظلم کیا جاسکتاہے ۔اس کو چوٹ پہونچائی جاسکتی ہے ۔اس کا حق غصب کیا جاسکتاہے اور دیگر مسائل اس کے ساتھ پیش آسکتے ہیں ۔لیکن نوروانی اور حقیقی وجود تک کوئی نہیں پہونچ سکتاہے ۔اس کا مکمل ادراک ناممکن ہے ۔
مولانانے اپنی تقریر میں حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے خطبۂ فدکیہ کے اہم نکات پر بھی مفصل گفتگو کی ۔اس خطبہ کی روشنی میں انہوں نے ولایت حضرت علیؑ اور ولایت فقیہ پر بھی استدلالی بحث کی ۔مجلس کے آخر میں مولانانے حضرت فاطمہ زہراؑ کی شہادت کے واقعہ کو بیان کیا جس پر عزاداروں نے بیحد گریہ کیا ۔
مجلس میں نظامت کے فرائض احمدرضا بجنوری نے انجام دیے ۔مولانا کلب عباس ،مولانا محمد کونین ،حسنین رضوی ،اور مجالس کے کنوینر عادل فراز نے منظوم نذرانۂ عقیدت پیش کیا۔