۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
مجتبی

حوزہ/ سرزمین قدس تمام ادیان الٰہی کے پیروکاروں کے لئے مقدس اورلاکھوں فلسطینی عوام کا آبائی وطن ہونے کے ساتھ ساتھ کھربوں مسلمانوں کا قبلہ اول بھی ہے ۔عالمی سامراج اور استکبار نے ایک گہری سازش کے تحت اس سرزمین مقدس سے فلسطینوں کو بے دخل کرکے اسے قابض افواج کے کنٹرول میں دیا پھر یہودیوں کو جمع کرکے مسلمانوں کے قلب میں بٹھا کر ناجائز ریاست کا وجود غیر قانونی طریقے سے بخشا۔

تحریر: مجتبیٰ علی شجاعی

حوزہ نیوز ایجنسی ’’پاک ہے وہ ذات جو لے گیا اپنے بندے کو راتوں رات مسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے اردگرد کو اس نے برکت دی‘‘
مذکورہ آیت مبارکہ میں واقعہ معراج کے علاوہ مسجد الحرام اورمسجد اقصیٰ کی عظمت بیان ہوئی ہےمسجد اقصیٰ رسول اسلام ؐ کے معراج کا مقام ہے اورتمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔ہمارے پیارے رسول پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تحویل قبلہ سے قبل مسجد اقصیٰ کی جانب رخ کرکےفریضہ نماز ادا کرتے تھے۔تاریخ اسلام کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ بعثت کے بعدرسول گرامی اسلام حضرت محمد ﷺ نےمکہ میں تیرہ سال اور مدینہ میںچند مہینے مسجد اقصیٰ کی جانب رُخ کرکے نماز اداکی۔ اس کے بعداللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے تحویل قبلہ کا حکم ہوااور مسلمانوں کا قبلہ کعبہ بن گیا۔
مسجد الحرام ومسجد نبوی ؐکے بعد تیسرا مقدس ترین مقام مسجد الاقصیٰ کاہے۔مسجد اقصیٰ جس کو بیت المقدس بھی کہا جاتا ہے در حقیقت مسلمانوں کا تاریخی ،مذہبی اور ثقافتی ورثہ ہے ۔اس عظیم اور مقدس مقام کے ساتھ مسلمانان عالم کےمذہبی جذبات وابستہ ہیں ۔ افسوس صد افسوس جس مقدس سرزمین پر یہ قبلہ اول واقع ہے وہ عالمی استکبارکے ناجائز اولاد اسرائیل کے زیر تسلط ہے۔اور اسرائیل آج اس سرزمین مقدس پر وہاں کے پشتنی باشندوں کوبڑی بے دردی کے ساتھ وہاںسے بے دخل کررہا ہے ۔ان کاقتل عام کررہا ہے انہیںظلم وتشدد اور عذاب وعتاب کا شکار بنارہا ہے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہمارے قبلہ اول بیت المقدس کی مسلسل توہین کررہا ہےوہاں نمازیوں کو خاک و خون میں نہلا رہا ہے ۔
سرزمین قدس تمام ادیان الٰہی کے پیروکاروں کے لئے مقدس اورلاکھوں فلسطینی عوام کا آبائی وطن ہونے کے ساتھ ساتھ کھربوں مسلمانوں کا قبلہ اول بھی ہے ۔عالمی سامراج اور استکبار نے ایک گہری سازش کے تحت اس سرزمین مقدس سے فلسطینوں کو بے دخل کرکے اسے قابض افواج کے کنٹرول میں دیا پھر یہودیوں کو جمع کرکے مسلمانوں کے قلب میں بٹھا کر ناجائز ریاست کا وجود غیر قانونی طریقے سے بخشا۔قابل افسوس یہ بات کہ ناجائز اسرائیل کے وجود سے لیکر اب تک مسلمانان عالم کے کسی بھی نام نہاد ٹھیکہ دار نے جرائت نہیں کی کہ وہ اس غیر قانونی ریاست کے خلاف آواز اٹھائیں ۔مظلوم فلسطینی بھائیوں پر ہورہے ظلم و تشدد اور بیت المقدس کی توہین کے خلاف زبان کھولیں ۔اس غاصب ریاست کے غیر قانونی وجود کے خلاف عالمی ایوانوں میںکھل کر چلینج کر ے ۔مسلمانان عالم کے ان نام نہاد ٹھیکہ داروں کی ضمیریں مردہ ہوچکی تھیں۔احساس ختم ہوچکا تھا ۔صم بکم عمی کا مصداق بنے ہوئے تھے ۔انبیا کی اس سرزمین پر اسرائیلی بربریت روکنے والی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ۔اس دوران انقلاب اسلامی کا سورج آب وتاب کے ساتھ نمودار ہوا ۔ایک عظیم اور نڈر لیڈر سیاسی افق پر نمودار ہوا جس نے استکبار کا چلینج کیا ۔انہیں مسلمانوں کی غیرت کا اندازہ دلایا ۔یہ امام خمینی ؒ کی شخصیت تھی جس نےمظلوم فلسطینی بھائیوں کے تئیں محبت اور و الہانہ ہمدردی ویکجہتی کا اظہار کرکے القدس لنا کافلک شگاف نعرہ بلند کیا۔
انقلاب اسلامی ایران کےبانی حضرت آیت اللہ امام خمینی ؒ اٹھ کھڑے ہوئے پردے کے پیچھے نہیں بلکہ مدمقابل سامراجیت کا چلینج کیا ۔اسرائیل کی غاصبیت کے خلاف آواز اٹھائی اور بیت المقدس کی آزادی کا علمبردار بن کر اسلامی افق پر چودہویں چاند کی طرح نمودار ہوا۔ امام خمینی ؒ مظلوم فلسطینی عوام کا مسیحا بن کر سپر پاور شیطانی طاقتوں کے مقابلے میں سیسیہ پلائی ہوئی دیوار کے مانندڈٹ کے رہا۔ہر سازش کا مقابلہ مدبرانہ انداز میں کیا ۔اور فلسطین پر آنے والے طوفان کا رخ صحیح وقت میں موڑ دیا ۔اگر امام خمینی ؒ عالمی استکبار کے مقابلے میں مزاحمت نہ کرتے تو آج تمام مسلمان مملکتوں کی حالت فلسطین جیسی ہوتی اورشاید فلسیطن گریٹر اسرائیل میں تبدیل ہوا ہوتا۔
امام راحل ؒ نے فلسطینی عوام کی حمایت میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے متحد ہونے کی اپیل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منانے کاجو اعلان کیااسےآج بھی اسرائیل کو کانٹے کی طرح چبھنے والی تکلیفوں کا سامنا ہے۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے چندمہینےبعد یعنی 7اگست1979میں امام خمینی ؒ یوم قدس کے نام سے ایک پیغام جاری کیا جس میں آپ نے مضان المبارک کے آخری جمعہ کو منانے کی اپیل کرتے ہوئےفرمایا کہ میں نے کئی سالوں سے اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔جس نے فلسطینی بھائیوں بہنوں پر اپنے وحشیانہ حملوں کو تیز کردیا ہے میں دنیا کے تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لئے متحد ہوجائیں ۔
یوم القدس کو امام راحل حضرت امام خمینی ؒ نے فلسطینی مظلوم عوام کی حمایت کے دن کے طور پر نامزد کیا ۔یوم قدس آج عالمی بن گیا ہے اورآج دنیا کےتقریباً80ممالک میں یوم القدس جوش و جذبہ سے منایا جارہا ہےیہ دن مستقبل قریب میں بیت المقدس کی آزادی اور مظلومیں جہاں کی سرفرازی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ۔یوم قدس کے اعلان نے مظلوم فلسطینیوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کی اور لاکھوں آزاد منش افراد کو قابض وجابر اسرائیل اور شیطان بزرگ امریکہ کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پرعزم بنادیااور ان کا حوصلہ بڑھایا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی شاندار کامیابی کے بعد امام راحل ؒنے فلسطین کو غاصب صیہونی چنگل سے آزاد کرانے کے مسئلے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کردیا ۔اور قدس کی تقدیر کے بارے میں عالمی سطح پر حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قدس مسئلے کو یوم القدس کےتاریخی فتوے کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر اجاگر کردیا ۔امام خمینی ؒ کا یہ اقدام فلسطینی عوام کی جدوجہد میں ایک اہم موڑ بن گیا اور اس تاریخ ساز فتوے نےفلسطینی عوام کی مزاحمت کو جلا بخشی۔اور یہ فتوے صحیح معنوں میں مظلوم فلسطینی عوام کی عالمی حمایت کا ایک مظہر بن گیا ۔
یوم القدس درحقیقت فلسطینی عوام اور بیت المقدس تک محدود نہیں بلکہ یوم قدس کھٹن اور مشکل سرحدوں کو عبور کرگیا ہے۔آج اسلامی دنیا میں بلکہ عالم بشریت میں بطورمظلومین ومستضعفین جہاں کا دن منایا جاتاہے ۔یوم القدس کا عظیم الشان دن نام نہاد سپر پاور طاقتوں پراپنی غیرت اپنی طاقت اپنی ہمت اپنی شجاعت اپنا عزم و استقلال واضع کرنے کا دن ہے اور انہیں آگاہ کرنے کا دن ہے کہ کہ وہ کسی بھی صورت میں مسلم دنیا کے اندرونی یا بیرونی معاملات کی مداخلت سے گریز کریں اور اسلامی دنیا میں غنڈہ گردی ،بربریت اور ظلم وتشدد کرنے یا مذہبی ،سیاسی،سماجی اور اقتصادی معاملات میں مداخلت کرنےسے پرہیز کریں ۔
امام خمینی ؒ فرماتے ہیں کہ میں یوم قدس کو پیغمبر اکرم ؐ کا دن سمجھتا ہوں ۔یہ دن امریکہ اور امریکی ایجنٹوں کے ساتھ درپردہ تعلقات رکھنے والے افراد کو متنبہ کرنے کا دن ہے۔قدس اسلام کا دن ہے ہمیں اس دن اسلام کو زندہ کرنا چاہئے ۔اور تمام سپر پاور طاقتوں کو خبردار کرنا چاہئے کہ تمہارےبرے اعمال کی وجہ سے اسلام اب تمہارے کنٹرول میں نہیں رہے گا ۔یوم القدس اسلام کی زندگی کا دن ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس نازک وقت میں امام خمینیؒ کی دور اندیشی نے نہ صرف صیہونیوں اور ان حامیوں کے خلاف مزاحمت کا راستہ ہموار کیا بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے مابین اتحاد و اتفاق کے لئے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا جس کا مرکزاور محور بیت المقدس کی آزادی ہے۔امام خمینیؒ نے یوم قدس کے منصوبے سے یہ واضع کردیا کہ مسلمانوں کے مسائل زنجیروں کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ امت اسلامیہ کے دشمنوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ عالم اسلام میں مذہبی اور نسلی اختلافات کی بنیاد پر تفرقہ ڈالیں اور ان کی سازشوں کو عملی جامہ پہنائیں ۔
تاریخ گواہ ہے کہ امام خمینی شیعہ مکتب فکر سے وابسطہ تھے اس عظیم الشان شخصیت نےاپنےسنی بھائیوں کی درد اپنے دل میں لئے القدس لنا ،القدس لنا کا نعرہ بلند کیا ۔لا شرقیہ لا غربیہ اسلامیہ اسلامیہ کا نعرہ بلند کیا۔ لیکن ہائے امت محمدی ؐ کی بدنصیبی اور بے کسی۔۔۔ آج مسلمانوں کے نام نہاد ٹھیکہ دار اور مسلمانوں کی مقدس سرزمینوں کا استحصال کرنے والے حکمران اسرائیل کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کررہے ہیں ۔مسلمانوں کے قلب میں بٹھائی گئی ناجائز ریاست کو ایک ایک کرکے تسلیم کررہے ہیں اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بڑھا کر گریٹر اسرائیل کو عملی جامہ پہننانے میںکلیدی رول نبھا رہےہیں ۔ایک طرف سے فلسطین کے معصوم اور بے گناہ بچے صدائے استغاثہ بلند کررہے ہیں دوسری طرف مسلمان ممالک کے قابض حکمران اسرائیلی جابر و ظالم حکمرانوں کے ساتھ ایک ہی تھالی میں غذاتناول کررہے ہیں ۔کتنی حماقت کی بات ہے کہ نام نہاد مسلم حکمرانوں کی دعوت پرغاصب اسرائیل کے ظالم و جابرحکمران آئے روز مسلمانوں کی مقدس سرزمینوں پر اپنے ناپاک قدم رکھ رہے ہیں ۔افسوس مسلمانوں کی غیرت ذرا برابر بھی جاگ نہیں رہی ہے جو خود کو رسول اسلام ﷺ کے امتی ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں ۔رسول اسلام ؐ فرمارہے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان آپ کو مدد کے لئے پکارے اور اپ اس کی مدد نہیں کریں گے آپ اس کی چیخ و پکار کو نظر انداز کریں گےگویا آپ مسلم نہیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مسلکی امتیازات سے بالاتر یک جٹ ہوکر مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کریں اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے مشترکہ طور پر لائحہ عمل مرتب کریں ۔اس سلسلے میں یوم القدس سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے یوم قدس کو بھر پور انداز سے منانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .