حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان علامہ محمد رمضان توقیر نے " یوم القدس اور وحدتِ مسلم" کے موضوع پر اپنی تحریر کے ذریعہ قدس کا پیغام پہنچایا ہے۔ جسے حوزہ نیوز کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قبلہ اول پر اسرائیلی ناجائز قبضے کو پچھتر سال ہونے کو ہیں۔ ان سات دہائیوں کے دوران فلسطینی عوام نے مقدور بھر کو ششیں جاری رکھیں۔ اپنے آپ کو شہادت کے لیے پیش کرتے رہے۔ صیہونی گولیوں اور ٹینکوں کا نشانہ بنتے رہے۔ بستیوں کی بستیاں مسمار کراتے رہے۔ اسرائیلی مظالم مختلف انداز میں برداشت کرتے رہے۔ بھاری فوجی اسلحے کا مقابلہ پتھر اور غلیل سے کرتے رہے۔ شہید بچوں کے جنازے اور زخمیوں کو اٹھا کر دنیا کے سامنے پیش کرتے رہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، عرب لیگ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں کی غیرت جگانے کی کوشش کرتے رہے اور انصاف کی بھیک مانگتے رہے۔ مگر اس وقت تک کسی ادارے سے حمایت اور انصاف ملنا تو دور کی بات ہے کسی بڑی طاقت یا کسی بڑے مسلمان ملک کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس کے باوجود فلسطینی عوام نے طے کیا ہوا ہے کہ قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی ریاست کے قیام تک جدوجہد جاری رہے گی۔
بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا اور باقاعدہ ریاستی پالیسی کے تحت اسرائیل سے تعلقات استوار نہیں کئے بلکہ طے کر لیا کہ جب تک قبلۂ اول آزاد نہیں ہوتا اور فلسطین کی سرزمین سے اسرائیل کا خاتمہ نہیں ہوجاتا تب تک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم نہیں کیا جائے گا بلکہ اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلقات بھی نہیں رکھے جائیں گے۔
قائد اعظم کی سیاست دور اندیشانہ اور عالم اسلام کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھنے کی فکر تھی جس کے سبب پاکستان کو عالم اسلام میں قائدانہ کردار اور حیثیت نصیب ہوئی۔ گذشتہ دو دہائیوں میں اگرچہ ہمارے بعض مفاد پرست حکمران اور جاہ طلب سیاستدان اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے بیک ڈور سازشوں کے ذریعے کوششوں میں مصروف رہے ہیں لیکن فی الحال یہ سازشیں کامیاب نہیں ہو سکیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ غیور پاکستانی عوام کسی بھی لحاظ سے اسرائیل جیسی قابض اور ناجائز ریاست کو قبول نہیں کریں گے اور قائد اعظم محمد علی جناح کی دی ہوئی پالیسی سے انحراف برداشت نہیں کریں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ نے مسئلہ فلسطین کو نئی جہت عطا کی۔ امت مسلمہ کی طرف سے فراموش شدہ مسئلہ کو ایک بار پھر زندہ کیا۔ قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی ریاست کے قیام کو فقط فلسطینی عوام کا نہیں بلکہ عالم اسلام کا مشترکہ مسئلہ قرار دیا اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی غیرت کو بیدار کرنے کے لیے اور اپنے اپنے ملک کے حکمرانوں کو متحرک کرنے کے لیے ہر سال ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کو "یوم القدس" کے طور پر منانے کا آغاز کیا تاکہ جہاں مسلمان اپنے قبلہ اول بیت المقدس کو یاد رکھیں اور اس کی آزادی کے لیے جدوجہد پر تیار ہو جائیں وہاں عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں تک آواز پہنچائی جا سکے کہ وہ اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کریں اور اسرائیل جیسے غاصب اور جارح ملک کو ظلم و زیادتیوں سے روکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیربین الاقوامی دنیا کے دو سلگتے ہوئے مسائل ہیں ۔ ان کے حل کے لیے دنیا کے مختلف ممالک اکثر اوقات کوشاں رہتے ہیں لیکن ایران اور پاکستان ان مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ پیش پیش اور صف ِ اول میں ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کی ان دونوں مسائل میں پالیسیاں یکساں ہیں اور عالمی اداروں میں یہ دونوں ممالک ہم آواز ہوتے ہیں لیکن دیگر اسلامی ممالک بالخصوص عرب ممالک اس حوالے سے ہمیشہ استعماری اور صیہونی طاقتوں کی خوشہ چین رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک قبلہ اول بھی بازیاب نہیں ہو سکا اور فلسطینی عوام کو بھی ان کا وطن آزاد شکل میں نہیں مل سکا۔ استعمار کے کاسہ لیس مسلم ممالک اور حکمرانوں کی انہیں پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ابھی مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر حل نہ ہو پایا تھا کہ استعمار نے شام، افغانستان، عراق، یمن، لبنان اور بحرین میں ایک سازش کے تحت آگ بھڑکانا شروع کردی ۔
آج ہم جس دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس میں اسلام دشمن قوتوں نے نئے سے نئے مسائل پیدا کرکے مسئلہ قدس کو پس پردہ کرنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ان قوتوں کی کوشش ہے کہ عالم اسلام کو دیگر ممالک کے مسائل میں اتنا زیادہ الجھا دیا جائے کہ وہ مسئلہ قدس کو آہستہ آہستہ بھول جائیں تاکہ اسرائیل کا وجود نہ صرف قائم رہے بلکہ مضبوط سے مضبوط تر ہوجائے بلکہ گریٹر اسرائیل کے خواب کو بھی شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک بیدار مغز اور غیرت مند مسلمان بالخصوص ایران و پاکستان کے عوام کرۂ ارض پر موجود ہیں تب تک مسئلہ قدس دنیا کے منظر نامے پر نمایاں حیثیت سے موجود رہے گا۔
یوم القدس تمام مظلوموں کی حمایت کا دن ہے۔ اس دن پوری دنیا کے غیرت مند مسلمان جلوسوں، جلسوں، ریلیوں اور اجتماعات کے ذریعے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں، صیہونی قبضے کو مسترد کرتے ہیں، قبلہ اول کی آزادی کا عزم کرتے ہیں، فلسطینیوں کی جائز آئینی و جمہوری جدوجہد کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں، مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں، عالمی اداروں کے ضمیر جھنجوڑتے ہیں، انصاف و عدل طلب کرتے ہیں اور استعماری قوتوں کی سازشوں کو آشکار کرتے ہیں۔
اسرائیلی ظلم و ستم کی انتہاء ہو چکی ہے۔ آئے روز فلسطین سے موت کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اسرائیلی بدمعاشیاں حد سے تجاوز کرچکی ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں بالخصوص مسلم ممالک کے حکمرانوں کی دینی و مذہبی اور قانونی و انسانی و اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قبلۂ اول کی آزادی اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے متحد آواز اٹھائیں اور منظم جدوجہد کریں۔
اگر وحدت ِ مسلمین کے ذریعے اس مسئلے کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا جائے تو وہ دن دور نہیں کہ جب اسرائیل دنیا کے نقشے سے ختم ہوجائے، بیت المقدس آزاد ہو جائے اور فلسطینی ریاست قائم ہوجائے کیونکہ امام خمینی ؒ نے فرمایا تھا کہ "اگر دنیا کے مسلمان ایک ایک بالٹی پانی بھی اسرائیل کی طرف پھینکیں تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا"۔
علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان