۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 380014
28 اپریل 2022 - 11:30
تبریز

حوزہ/ میں عرصہ دراز سے غاصب اسرائیل کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا آرہا ہوں۔ میں تمام مسلمان، عالم اسلام اور اسلامی حکومتوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ اس غاصب حکومت اور اس کے حامیوں کو اس کرہ ارض سے خاتمہ کرنے کے لیے سب متحد ہوجائیں"

تحریر: سید عرفان کاظمی

حوزہ نیوز ایجنسی | شب شبِ قدر تھی، تمام دوستوں کو کسی قریبی دوست کے ہاں افطاری کے لیے دعوت تھی، افطاری کے بعد یوم القدس کے حوالے میٹنگ رکھی ہوٸی تھی۔، لہذا سارے دوستان آپس میں فون پر رابطہ رکھے ہوئے تھے تاکہ بروقت مہمانی پہ جاسکیں۔بالآخر افطاری کا وقت بھی آپہنچا۔ دن بھر کی بھوک اور پیاس کے بعد شام ٹائم دسترخوان پر دوستوں کے حلقہ میں افطاری کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔
خیر..
تمام دوست سروقت مہمانی پر پہنچ چکے تھے۔ بفضل اللہ اس بار دعوت پہ دوستوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ ایک طرف افطاری کا مزہ تو دوسری جانب کمرے میں القدس کی آزادی سے متعلق گفتگو کا گونج تھی ۔اس کے ساتھ ہی *للہ اکبر"* کی صدائیں کانوں سے ٹکرانے لگیں ۔آذان کی آواز سن کر تمام احباب نے سکوت اختیار کیا ۔ آذان کے ختم ہوتے ہی نماز باجماعت کیلئے سارے احباب صف آرا ہوئے اور حجت اسلام علامہ سید عباس کاظمی کے اقتداء میں نماز باجماعت ادا کی۔ نماز کے اختتام اور دعا و مناجات کے بعد کچھ دیر کی استراحت لےکر سارے احباب پھر سے شام کھانے کیلئے دسترخواں کے گرد حلقہ بن گئے۔ دسترخوان پر خداوندمتعال کے گوناگوں نعمتوں کو دیکھ کر رب العالمین کا شکر ادا کرتے ہوئے سب نے بسم الله کی ۔ وقت کافی ہو چکا تھا۔ لہذا کھانے کے فورا بعد تلاوت قرآن پاک سے نشست کا آغاز کیا۔ یوں باری باری تمام دوستوں نے یوم القدس کے حوالے سے اپنی سنہری آرا پیش فرمائیں ۔ اکثر دوستوں کی رائے یہ تھی کہ اس بار مملکت پاکستان میں یوم القدس کو پورے جوش اور جذبے کے ساتھ منانے اور پاکستان کے گوشے و کنار میں امام راحیل کا پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں علامہ سید عباس کاظمی نے نشست کو اختتامی رخ دیتے ہوئے فرمایا کہ؛
بیت المقدس کی آزادی کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں ؟؟؟
ہم پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟؟؟
آغا صاحب نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس وقت یوم القدس کو صرف پاکستان، ایران، عراق یا چند مسلم ممالک تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اس دن کو ہمیں مل کر عالمی رخ دینے کی ضرورت ہے اور رہبر کبیر کا بھی یہی حکم ہے کہ یوم القدس دنیا کے گوشے گوشے میں منایا جائے۔ لہذا ہر باشعور، باوقار،اور ہم درد لوگوں کو چاہئے کہ دنیای استکبار کے خلاف اس دن کو عالمی یوم القدس کے نام سے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جائے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ حضرت امام خمینی نے اگست 1979 میں ماہ مبارک رمضان میں یہ اہم پیغام دیا تھا کہ "میں عرصہ دراز سے غاصب اسرائیل کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا آرہا ہوں۔ میں تمام مسلمان، عالم اسلام اور اسلامی حکومتوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ اس غاصب حکومت اور اس کے حامیوں کو اس کرہ ارض سے خاتمہ کرنے کے لیے سب متحد ہوجائیں"
در حقیقت امام خمینی کی جانب سے یوم القدس کا اعلان اور تمام اسلامی ممالک کی جانب سے اس کو اہمیت دیئے جانے کے سبب یہ مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں بلکہ امت مسلمہ کی غیرت کا مسئلہ ہے،
اسی لیے امام خمینی نے اپنی سیاسی بصیرت کے ذریعے عالمی یوم القدس کا اعلان کیا تاکہ مسئلہ فلسطین پر دنیا کے تمام مسلمان متحد رہیں۔ یہ ایک ایسا دن ہے جو مسلمانوں کے اتحاد کے مستحکم ہونے کا سبب بنتا ہے۔
یہ صیہونیزم اور ان کی افکار سے وجود میں آنے والا کینسر کا پھوڑا، مسلمانوں میں اختلافات کے بیج بو رہا ہے اور اسی طرح سے وہ مشرق وسطی پر تسلط کا خواب دیکھ رہا ہے۔ آج مسلمانوں کے مابین تفاوت اور اختلافات کی بنیادی وجہ اتحاد سے منہ پھیرنا ہے اسی لئے آج عراق اور شام سمیت مشرق وسطی میں تکفیری دہشت گرد اپنے مسلمان بھائیوں کو بے دردی سے قتل و غارت کر رہے ہیں اور غاصب صیہونی حکومت کے خلاف کوئی بیان تک نہیں دیتا یہ عالم اسلام اور امت مسلمہ کیلئے بڑا المیہ ہے۔ خود کو مسلمانوں کا خلیفہ کہلانے والے آج فلسطین کی حمایت کے بجائے دشمن کے دست بازو بنے بیٹھے ہیں، ایک فرد مسلمان ہونے کے ناطے آپس کے اتحاد کو فروغ دینے کی بجائے دشمن کے بغل کا سایہ لیا بیٹھا ہے،( یہ جملہ درست نہیں) {آج مسلم حکمران مسلمان ہونے کے ناطے باہم متحد ہونے کی بجاۓ یہود و نصارای کے دوست و خیرخواہ اور پشت پناہ بنے بیٹھے ہیں۔}
صیہونی حکومت اور استکبار کو اپنے منصوبے نافذ کرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ اسی لئے غاصب صہیونی حکومت اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی شام پر تو کبھی عراق کے مقدس سرزمین پر تو کبھی یمن کے مظلوم عوام پر میزائلوں و گولیوں کی بارش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں آج خدا کے فضل و کرم سے مقاومت بھی ہر جگہ دشمن کو منہ کے بل گرانے میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔ آج اگر ہم مسلمانوں کی نجات کے خواہاں ہیں تو مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ضرورت ہے، اتحاد، انسجام اور وحدت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، آپس کی نفرتوں کو پس پشت ڈال کر وحدت کے لئے ہاتھ بڑھانے کی ضرورت ہے، مسلکی سوچ سے بالاتر ہوکر یوم القدس کی آواز اور ریلی کو جھانی بنانے کی ضرورت ہے۔ آغا صاحب یہ ساری باتیں بیان کرتے جارہے تھے ساتھ میں آپکی انکھوں سے نکلی اشک گال کی زینت بن رہی تھی۔ اس پُردرد بیان کو سننے کے بعد تمام احباب کی آنکھیں بھی نم ہوچکی تھیں اور دل میں جذبہ ابھرنے کے ساتھ دشمن اسلام کے لیے غصہ پیدا ہورہا تھا۔۔
آغا نے موضوع کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمارے اوپر سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے کہ ہمیں اپنے مولا و آقا امام علی کی حدیث کے مصداق بنے، ہمیں ہر مظلوم کا حامی اور ہر ظالم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی ضرورت ہے ۔ مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں دنیا کے ہر کونے سے آواز بلند کرنا اور انکی طاقت بننا اولین وظیفہ ہے ۔ لہذا بیت المقدس کی آزادی کے لیے ہر ممکنہ طور پر آواز اٹھانا ہم سب کو اپنا شرعی وظیفہ سمجھنا ہوگا ۔
وَمَا عَلَيْنَآ إِلَّا ٱلْبَلَٰغُ ٱلْمُبِينُ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .