حوزہ نیوز ایجنسی | گذشتہ ماہ عالمی سیاسی منظرنامے میں ایک اہم ترین پیشرفت سامنے آئی جس کے بعد بڑی بڑی عالمی طاقتوں کو حیرت زدہ اور پریشان دیکھا گیا۔ کئی ممالک ابھی تک شاک اور صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ کئی سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگار اس کھوج میں ہیں کہ اس پیشرفت کو کس طرح مخفی رکھ کر مکمل کیاگیا اور پھر اچانک اعلان کیا گیا۔ البتہ عالم ِ اسلام میں اس حوالے سے اکثر مقامات پر خوشگواری کے تاثرات سامنے آ رہے ہیں اور اس پیشرفت کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے نیک اور مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
پیشرفت یہ ہے کہ طویل کشیدگی اور لمبی جدائی کے بعد سعودی عرب اور ایران کے درمیان نہ صرف سفارتی تعلقات بحال ہو گئے ہیں بلکہ تجارتی میدان میں بھی باہمی تعاون کو مضبوط کرنے کا عہد کیا جا چکا ہے۔ ویسے تو اندرون خانہ یہ روابط کئی عرصہ سے بذریعہ چین چل رہے تھے اور مرحلہ وار روابط و مذاکرات کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھایا جا رہا تھا لیکن مارچ 2023ء کے اوائل میں اس کا حتمی مرحلہ چار روزہ مذاکرات کی صورت میں انجام پایا جس میں ایران اور سعودی عرب کے علاوہ چین کی اعلی سفارتی قیادت اور نمائندگان نے بھی حصہ لیا۔ مذاکرات کے اس آخری مرحلے میں چین نے ثالثی کا بہترین کردار ادا کیا۔دونوں ممالک کے مابین اختلافی موضوعات کی جزئیات تک پر بات چیت کی گئی۔
اگرچہ تمام جزئیات کو سامنے نہیں لایا گیا اور میڈیا یا سفارتی ذرائع کے پاس تمام جزئیات کی تفصیلات موجود نہیں ہیں لیکن جس حد تک خبریں دونوں ممالک اور چین کے سرکاری سفارتی ذرائع کے ذریعے سامنے آئی ہیں وہ یقینا حوصلہ افزاء اور خوش آئند ہیں۔کیونکہ گذشتہ تین چار دہائیوں سے عالم اسلام میں بالخصوص اور عالمی دنیا میں بالعموم یہ تاثر قائم ہو چکا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان پائی جانے والے سفارتی کشیدگی کے سبب اسلامی ممالک میں مسلکی اور فرقہ وارانہ تعصبات بلکہ تصادم کو فروغ مل رہا ہے۔ دونوں ممالک دیگر ملکوں میں اپنی اپنی پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنے اپنے مسالک کے لوگوں کو استعمال کرکے اسلام کو تختہ مشق بنایا ہوا ہے۔
موجودہ مذاکرات اور سفارتی تعلقات کی بحالی لازمی طور پر اس تاثر کو زائل کرے گی۔ اور عالم اسلام میں سازشوں کے ذریعے تفریق ڈالنے والی قوتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ کیونکہ دونوں ممالک عالم اسلام کے سربرآوردہ ممالک ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت ان دونوں ممالک میں موجود مقامات ِ مقدسہ اور دینی شخصیات کے ساتھ قلبی عقیدت رکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنی عقیدت کا اظہار کر سکے۔ ماضی میں سفارتی کشیدگی کے سبب مسلمانوں کی عقیدت کا اظہار ناممکن ہو چکا تھا لیکن اب قوی امکان پیدا ہو چکا ہے کہ تازہ معاہدے کے بعد دنیا میں بسنے والے سارے مسلمان ایران اور سعودی عرب کے زیارتی دورے کرکے اپنے قلوب کو معطر کرسکیں گے۔اسی طرح دونوں ممالک کے اچھے تعلقات سے ایک عالمی اسلامی بلاک کو بھی فروغ ملنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں جس کے بعد عالم اسلام کو درپیش بڑے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ پیشرفت ہوگی۔ ان بڑے مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ بیت المقدس کی آزادی اور اسرائیل کے خلاف مشترکہ جدوجہد ہے۔ ماضی میں سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کے سبب یہ مسئلہ زیادہ تاخیر کا شکار ہو گیا تھا۔ مستزاد یہ کہ سعودی عرب کی دیکھا دیکھی دیگر عرب ممالک نے بھی اسرائیل کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار کر لئے جس کے سبب قبلہ اول اورفلسطین کاز کو نقصان ہوا اور اسرائیل کی طاقت میں اضافہ ہوا۔
ایران چونکہ انقلاب اسلامی کے قیام سے لے کر اب تک اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے عالم اسلام کو کمزور کرنے کی ہر سازش کے سامنے مزاحمت کرتا چلا آرہا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایران اس مزاحمتی کردار میں قائد کا کردار ادا کر رہا ہے۔ دنیا بھر کے لوگوں بالخصوص مسلم امہ کو امریکہ و اسرائیل کے کھلواڑوں کے بارے میں نہ صرف آگاہ کرتا آرہا ہے بلکہ ان کے توڑ کے لیے اپنی توان کے مطابق کوششیں اور کاوشیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
انہی کوششوں اور کاوشوں میں یوم القدس منانے کی روایت سرفہرست ہے۔ رہبر کبیر حضرت امام خمینی ؒ نے یوم القدس کا اعلان کرکے پوری امت مسلمہ کو اسرائیل کے خلاف بیدار کیا۔ اور قبلہ اول کی آزادی کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں شریک کیا۔ امام ؒ کی برکات ہیں کہ آج عالم اسلام کا بچہ بچہ قبلہ اول سے نہ صرف آشنا ہے بلکہ قبلہ اول پر ہونے والے صیہونی غاصبانہ قبضے کے خلاف بھی سراپا احتجاج ہے۔ یوم القدس ہمیں ہر سال قبلہ اول کی آزادی کی یاد دلاتا ہے۔ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا درس دیتا ہے۔ امریکہ و اسرائیل کی سازشوں کے خلاف کھڑے ہونے پر آمادہ کرتا ہے۔ دیگر اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نمائندہ ولی فقیہہ و قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی مدظلہ کی اپیل پر ہر سال یوم القدس منایا جاتا ہے اسی تسلسل میں اس سال بھی ۴۱ اپریل ۳۲۰۲ء کو نہایت عقیدت اور تزک و احتشام کے ساتھ یوم القدس منایا جا رہا ہے۔
ایران سعودی تعلقات کی بحالی کے بعد ہر مسلمان اور انصاف پسند شخص کو توقع ہے کہ دونوں ممالک جہاں دیگر موضوعات پر مشترکہ پالیسیاں اپنائیں گے وہاں قبلہ اول کی آزادی‘ فلسطینی ریاست کے قیام اور اسرائیلی سازشوں کے مقابلے کے لیے بھی مشرکہ لائحہ عمل اختیار کریں گے یہ دونوں ممالک اگر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کر لیں تو عالم اسلام کے دیگر ممالک اور دنیا بھر میں موجود اسلامی تحریکیں و اسلامی جماعتیں اس مشترکہ لائحہ عمل پر لبیک کہیں گے اور مشترکہ جدوجہد کرنے کے لیے میدان ہموار ہوگا۔ قبلہ اول سمیت تمام بڑے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات ہوں گے۔ اور امت مسلمہ میں وحدت و محبت اور اخوت و برداشت کا نیا ماحول میسر آئے گا۔ان شاء اللہ