پیر 19 مئی 2025 - 17:17
کیا آج کا اسرائیل، قرآن میں مذکور بنی اسرائیل کا تسلسل ہے؟

حوزہ/ صہیونی ریاست نہ انبیاء علیہم السلام کی وارث ہے اور نہ ہی دین و طہارت کی علمبردار، بلکہ یہ استعمار اور صہیونیت کی گٹھ جوڑ سے پیدا شدہ ایک ناجائز وجود ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صہیونی ریاست نہ انبیاء علیہم السلام کی وارث ہے اور نہ ہی دین و طہارت کی علمبردار، بلکہ یہ استعمار اور صہیونیت کی گٹھ جوڑ سے پیدا شدہ ایک ناجائز وجود ہے۔

وہ نام "اسرائیل" جو کبھی بندگی و پاکیزگی کی یاد دلاتا تھا، آج ظلم، قتل اور غاصبانہ قبضے کی علامت بن چکا ہے۔

آج کا اسرائیل، قرآن میں مذکور بنی اسرائیل کی میراث نہیں بلکہ ایک سیاسی و استعماری سازش کا نتیجہ ہے جو سرزمینِ فلسطین پر قبضے کے لیے صہیونی تحریک اور استعماری طاقتوں نے پیدا کی۔

صہیونی حکومت کے بڑھتے ہوئے مظالم نے ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیا ہے کہ:

کیا موجودہ اسرائیل وہی بنی اسرائیل ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے؟

اس سوال کا درست اور علمی جواب دینے کے لیے تاریخی، دینی اور جغرافیائی شواہد کا مطالعہ ضروری ہے، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن میں بیان کردہ بنی اسرائیل اور آج کا اسرائیل صرف نام کی حد تک مشابہت رکھتے ہیں، جبکہ حقیقت میں ان کے درمیان کوئی نسبت موجود نہیں۔

۱. قرآن اور تاریخ میں بنی اسرائیل

بنی اسرائیل، حضرت یعقوبؑ کی نسل سے ہیں جن کا لقب "اسرائیل" (یعنی عبداللہ/اللہ کا بندہ) تھا۔ حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹے تھے جن کی نسلیں آگے چل کر "بارہ قبائل بنی اسرائیل" کہلائیں۔

حضرت یوسفؑ کے واقعے کے بعد بنی اسرائیل مصر چلے گئے جہاں فرعونوں نے انہیں غلام بنا لیا۔

قرآن کریم ان کے صحرائے سینا میں بھٹکنے، حضرت موسیٰؑ کی مخالفت، اور آخرکار خدا کے غضب کا تفصیل سے ذکر کرتا ہے:

"فَبَآءُوا بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ…" (سورہ بقرہ، آیت ۹۰)

حضرت موسیٰؑ کے بعد، حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں انہوں نے کنعان کی سرزمین فتح کی اور پھر حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ جیسے انبیاء کے تحت حکومتیں قائم ہوئیں، لیکن یہ حکومتیں قبل از مسیح دور میں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں۔

بعد ازاں بنی اسرائیل بابل، ایران، یونان اور روم کی غلامی میں چلے گئے۔ 70ء میں رومیوں نے بیت المقدس میں دوسرا معبد بھی تباہ کر دیا اور یوں یہ قوم دنیا بھر میں منتشر ہو گئی۔

۲. فلسطین: کنعانیوں کی سرزمین، نہ کہ یہودیوں کی

"فلسطین" کا نام ان کنعانی اور یبوسی اقوام سے منسوب ہے جو 2500 قبل مسیح میں جزیرہ نما عرب سے مشرقی بحرِ روم کے ساحلوں کی طرف ہجرت کر گئے۔

بیت المقدس کو ابتدا میں "یبوس" کہا جاتا تھا، اور یہ خطہ بنی اسرائیل سے بہت پہلے بھی مختلف سامی النسل اقوام کی بستی تھا۔

۳. فلسطین کی طرف یہودیوں کی واپسی: الٰہی وعدہ نہیں، سیاسی منصوبہ

صدیوں کی جلاوطنی کے بعد بھی، 19ویں صدی تک فلسطین میں یہودی آبادی نہایت کم تھی۔

مثلاً 1880ء میں فلسطین کی 5 لاکھ آبادی میں صرف 24 ہزار یہودی تھے (یعنی صرف 5 فیصد)۔

تاہم 1896ء میں تھیوڈور ہرزل کی قیادت میں صہیونیت کی تحریک اٹھی اور 1897ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل میں پہلا صہیونی کانگریس منعقد ہوا جس میں فلسطین میں یہودیوں کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔

1917ء میں اعلامیہ بالفور کے تحت برطانیہ نے فلسطین میں "یہودی قومی وطن" کے قیام کی حمایت کی۔

برطانوی افواج نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور یورپ سے بڑے پیمانے پر یہودیوں کی ہجرت شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں ان کی آبادی 32 فیصد تک جا پہنچی۔

۴. اسرائیل کا قیام: ایک استعماری پیداوار، نہ کہ تاریخی تسلسل

14 مئی 1948ء کو برطانیہ کے انخلاء کے بعد، دیوید بن گوریون نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا، حالانکہ فلسطین کے مسلمان اور مسیحی اکثریت اس کی شدید مخالف تھی۔

یہ وجود یہودیت کی تاریخی ترقی کا نتیجہ نہیں، بلکہ عالمی استعماری قوتوں (خصوصاً امریکہ و سوویت یونین) کی حمایت سے وجود میں آیا، جنہوں نے فوری طور پر اس ناجائز ریاست کو تسلیم کیا۔

۵. "اسرائیل" کا تاریخی تحریف: جب نبی کا نام غاصب ریاست بنا

یہودی روایات میں حضرت یعقوبؑ کو "اسرائیل" کا لقب اس بنا پر دیا گیا کہ انہوں نے گویا خدا سے کشتی کی اور غالب آ گئے!

"نام تو اب یعقوب نہ ہوگا، بلکہ اسرائیل، کیونکہ تُو نے خدا اور انسان سے جدوجہد کی اور غالب آیا" (سفر پیدائش، باب 32:28)

جبکہ قرآن مجید کے مطابق، "اسرائیل" ایک باوقار لقب ہے جو اللہ کے نبی کو دیا گیا تھا۔

۶. نتیجہ: موجودہ اسرائیل کا قرآن کے بنی اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں

قرآنی بنی اسرائیل ایک دینی قوم تھی، جن کی بنیاد نبوت، توحید اور آسمانی تعلیمات پر تھی۔

جبکہ آج کا اسرائیل ایک سیاسی، فوجی اور استعماری منصوبہ ہے، ایک نسل پرست ریاست جو نہ انبیاء کی وارث ہے، نہ دین کی نمائندہ۔

صہیونی ریاست نے "اسرائیل" جیسے مقدس نام کو ہتھیا کر صرف تاریخ کو نہیں، بلکہ الٰہی شخصیات کو بھی توہین کا نشانہ بنایا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha