۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 375844
1 جنوری 2022 - 14:37
مولانا سید اشھد حسین نقوی

حوزہ/ ہم جب ال سعود کے نظریات پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ حکومت عربستان سعودی نے ہمیشہ اپنے شخصی اور ذاتی نیز بڑی طاقتوں کے منافع کو ملت فلسطین کے منافع پر مقدم رکھا ہے اور ان کے مسلمہ حقوق پر بڑی طاقتوں کے منافع کو ترجیح دیا ہے۔ 

تحریر: مولانا سید اشھد حسین نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی। ہم جب ال سعود کے نظریات پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ حکومت عربستان سعودی نے ہمیشہ اپنے شخصی اور ذاتی نیز بڑی طاقتوں کے منافع کو ملت فلسطین کے منافع پر مقدم رکھا ہے اور ان کے مسلمہ حقوق پر بڑی طاقتوں کے منافع کو ترجیح دیا ہے۔
عبدالعزیز بن عبدالرحمان آل سعود معروف بہ ابن سعود نے سن 1902 عیسوی میں عربستان سعودی میں حکومت کی بنیاد رکھی، انہوں نے جزیرہ عربستان کے بیشترعلاقے من جملہ حجاز اور دو مقدس شھر مکہ و مدینہ پر قبضہ جمانے کے بعد رسما سن 1902 عیسوی میں اس جزیرہ پر اپنی حکومت کا اعلان کردیا اور جب تک زندہ رہے یعنی 1953 عیسوی تک اس سرزمین پر حکمرانی کی۔
آل سعود کے اس طولانی ترین دوران حکومت کی نصف صدی کے پہلے حصہ میں اہم حوادث رونما ہوئے کہ جو موجودہ مشرق وسطی کی تشکیل کا سبب بنا۔
عالمی جنگ (ورڈ وار) من جملہ انہیں حوادث میں سے ایک ہے کہ جس بعد عرب ممالک میں سے عراق، اردن، شام اور لبنان، یوروپ کی بڑی طاقتوں کے تحت تسلط قرار پائے۔
شاید اس دوران اعراب اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والی جنگ کی اہم وجہ، فلسطین میں یہودیوں کی آبادی، تعداد اور ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو، یہ لڑائی سن 1948 عیسوی میں بالاترین سطح پر پہونچ گئی جس کے بعد غاصب اسرائیل نے اپنی حکومت کی بنیاد ڈالی اور پھر اس کے بعد کوئی جنگ رونما نہ ہوئی۔
فلسطین کو صھیونی سرزمین میں تبدیل کیا جانا، فلسطین میں یہودیوں کی تعداد میں افزودگی، صھیونیوں کیلئے کے سرمایہ کی فراہمی اور ایک مستقل سیاسی نظام کے قیام پر متمرکز تھی۔
فلسطینیوں نے اس نہضت و تحریک کے مد مقابل قیام کیا کیوں کہ ان کے حقوق پائمال اور کچلے جارہے تھے، اس دوران غاصب صہیونیزم سے جنگ و پیکار عرب پڑوسی ممالک کے تعاون، حمایت و پشت پناہی میں انجام پارہی تھی۔
ابن سعود، تنہا اور مستقل اسلامی حکمراں کے ہونے کی وجہ سے ان کے پاس فلسطینیوں کی حمایت کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا، انہیں یہ بات بخوبی سمجھ میں آرہی تھی کہ اس جنگ اور ٹکراو کے نتائج کچھ ایسے ہوں گے کہ تمام علاقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور سعودیہ عربیہ کی موقعیت پر بھی اثر انداز ہوں گے، اس اختلاف میں دینی و سیاسی رنگ بھی موجود تھا کیوں کہ مکہ و مدینہ کے بعد قدس شریف، جہان اسلام کا اہم کا حصہ اور مقدس مقام شمار کیا جاتا تھا۔
الحاج امین الحسینی قدس شریف کے مفتی اس زمانے میں ملت فلسطین کے سب سے بڑٗ ے اور اہم لیڈر و رھبر تھے جو سیاسی اور دینی کردار ادا فرما رہے تھے ۔
امین الحسینی نے پوری کوشش کی کہ عالم اسلام کو اس جنگ و اختلاف میں شامل کرسکے اور خود کو عالم اسلام کے رھبر کے طور پر پیش کرے مگر یہ رھبری اور لیڈری شپ، سرزمین حجاز پر موجود حرمین شریفین کے متولی ابن سعود کیلئے جو خود کو عالم اسلام کا رھبر و لیڈر سمجھ رہے تھے گراں اور نا قابل تحمل تھی۔
ابن سعود نے دینی لحاظ سے سعودیہ عربیہ کی بنیاد، وہابی افکار و نظریات پر رکھی ، وہابیت ایک متعصب اور شدت پسند مذھب ہے کہ وہ جسے بھی مشرک اور اسلام سے منحرف جانتے ہیں پوری شدت اور خشونت کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔
بعض صہیونی لیڈرس، مغربی سیاستمدار افراد اور محققین معتقد ہیں کہ سعودیہ عربیہ میں کوئی بھی یہودی گروپ موجود نہیں تھا اور ابن سعود اپنی دینی کتابوں اور منابع میں موجود ناقص معلومات کے سوا کچھ بھی نہیں جانتے تھے مگر اس سلسلہ میں یہ کہنا نہایت ہی مناسب ہے کہ صہیونیوں سے آل سعود کی ابتدائی مخالفت کی بنیاد غیر دینی تھی اور وہ مشرق وسطی میں سعودیہ عربیہ کے منافع کو لاحق، خطرات ہیں۔
برطانیہ سے تعاون ابن سعود کے بنیادی اصول، اھداف و ترجیحات میں سے تھے کیوں کہ برطانیہ تنہا وہ بیرونی ملک تھا جس کا علاقہ میں سیاسی اثر و رسوخ اور اس کی فوجیں علاقہ کے مختلف حصہ میں موجود تھیں نیز فلسطین کی سرپرستی برطانیہ کے ذمہ تھی۔
ابن سعود نے چار عشرہ تک برطانیہ سے اپنے تعلق بہتر اور مستحکم بنانے پر صرف کئے اور ان کے مالی تعاون سے مستفید ہوتے رہے، عراق اور مشرقی اردن پر برطانیہ کی حکمرانی تھی جن کی زمین سرحدیں سعودیہ عربیہ اور فلسطین سے ملتی تھیں ، نیز بہت سارے ممالک جن کے حجاج پٹرول کی برآمدات سے پہلے سعودیہ عربیہ کا مالی بجٹ فراہم کرتے تھے، برطانیہ کے زیر تسلط تھے ۔
40 ویں عیسوی عشرہ میں امریکن کمپنوں کے ذریعہ سعودیہ عربیہ میں تیل ( پٹرول) کے ذخائر ملنے اور ان کے نکالے جانے کی وجہ سے سعودی عربیہ کے اقتصاد اور ان کی اکنامک پر امریکا کے اثر و رسوخ زیادہ ہوگئے ، یہ چیز سبب بنی کہ عرب ممالک سعودیہ عربیہ پر اپنا دباو ڈالیں کہ امریکن کمپنیوں کی مراعاتوں کو باطل اور ختم کردے مگر سعودیہ عربیہ نے ان لوگوں کی ایک بھی نہ سنی اور ان کے مطالبات کے برخلاف امریکا سے تعلقات مزید بہتر اور مضبوط کرلئے ، سعودیہ نے امریکا اور انگلینڈ کے وسیلہ فلسطین کے بحران کو حل کرنے کی کوشش کی مگر ان دونوں ممالک نے سعودیہ کو اس بیچ پڑنے سے منع کیا اور اسے اقوام متحدہ کے ذریعہ حل و فصل کرنے کی صلاح دی ۔
دوسری جانب اہل فلسطین غاصب صھیونیوں بر سر پیکار تھے مگر آل سعود فلسطینیوں ان کی حمایت اور انہیں اہمیت دینے کے بجائے معمولی رقم دینے پر اکتفا کرتے رہے ۔ انگلیند، فلسطینیوں کو بلوائیوں کا خطاب دیتا رہا اور سعودی بھی کھلم کھلا ان کی حمایت کرنے کو تیار نہ تھا۔
آل سعود، یہودیوں کی مخالفت کے باوجود فلسطینیوں اور یہودی اقلیتوں کی مختصر حمایت میں مصروف رہے تاکہ ان کے مخالفین یعنی ہاشمی خاندان علاقہ کے اثر و رسوخ پر قابض نہ ہونے پائے اور فلسطین کا مسئلہ انگیریزوں کی مرضی کے موافق حل و فصل ہوسکے۔
آل سعود نے 40 ویں عیسوی کے عشرہ میں عرب کمیونٹی کے اجلاس میں امریکا اور برطانیہ کے خلاف ہونے والی تمام تجاویز کی مخالف کی، فلسطینوں کے حق میں اپنی حمایت واپس لے لی اور کلی طور پر صھیونیوں کے ساتھ جنگ کا ہمیشہ مخالف رہا ۔
سن 1948ء میں غاصب صہیونیت کی طرف سے اعلان وجود کئے جانے بعد بعض عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کردیا تو سعودیہ کے حاکم وقت عبد العزیز نے مختصر تعداد میں اور وہ بھی غیر تربیت یافتہ فوجی مصر بھیجنے پر اکتفا کیا اور اس جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد سب سے پہلے سعودی حکام نے فلسطین کے مسائل سے خود کو الگ تھلگ کرلیا اور فقط و فقط لفظی تنقید ہی کرتے رہے ۔
ابن سعود دنیا میں یہودیوں کے اثر و رسوخ سے متاثر اور معتقد ہونے کی وجہ سے اپنے زعم باطل فلسطین کی نجات کیلئے یہودیوں کے امنیت تامین کرنے میں کوشاں رہے، وہ معتقد تھے کہ علاقہ کے مسائل کا حل برطانیہ اور امریکا کے ہاتھوں میں ہے اور ان دو ممالک کو نہ فقط فلسطینیوں کے مطالبہ قبول نہ تھے بلکہ یہودیوں کی شرانگیزیاں اور تشدد سے بھی چشم پوشی کرتے تھے ، کلی طور ان کی عمومی پالیسی خطے کی امنیت اور جنگ و اختلاف میں عدم مشارکت نیز خود کو تنازعات سے دور رکھنا تھی ۔
سن 1981 ء میں ملک فہد نے اپنی ولی عہدی کے زمانہ میں فلسطین کے بحران کے خاتمہ کیلئے اٹھ بندوں اور فصلوں پر مشتمل تجازویز پیش کی کہ اس کے ساتویں بند میں خطے میں غاصب صہیونی حکومت کی پر امن موجودگی کو تسلیم کیا گیا تھا ۔
سن 2002 ء میں سعودیہ کے ولی عہد ملک عبد الله کہ جو بعد میں اس ملک کے تخت شہنشاہیت پر بیٹھے انہوں نے سن 1967ء کے سرحدی حدود سے اسرائیل کو پیچھے ہٹنے کے بدلے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے اور عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کئے جانے کی تجویز پیش کی اور خود بھی غاصب صہیونی حکومت کے وجود کو قبول کرلیا ۔
آخر میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ جب ہم فلسطین کے حوالے سے ال سعود کے ماضی اور اس کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ سعودیہ نے فلسطینی عوام کی آزادی کی خواہش کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا، اس حوالہ سے ملک سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی موجودہ حکومت کی جانب سے صدی کے معاملہ کی حمایت اور بعض عرب ممالک کی جانب سے غاصب صہیونیت کو تسلیم کئے جانے اور اس سے دوستانہ تعلقات قائم کئے جانے کے اسباب وعلل واضح و روشن ہیں ، یہ نظریہ اور نقطہ نظر وہی ال سعود کی بنیادی سیاست ہے جس میں ذاتی اور عالمی طاقتوں کے منافع کو ملت اسلامیہ خصوصا فلسطین کے منافع اور نقصانات پر مقدم رکھا گیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منبع: Ur.btid.org

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .