حوزہ نیوز ایجنسی کے صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے مدیر جامعۃ المصطفی الامامیہ و جامعہ ام الزہرا (س) سیتاپور مولانا سید حمید الحسن زیدی نے غاصب صہیون اور عالمی یوم قدس کے تعلق سے کہا کہ تاریخ انسانیت کے آغاز سے ظلم و تشدد نے اپنا سر اٹھانا شروع کردیا تھا اور قابیل کے ذریعہ اپنے سگے بھائی کا خون بہا کرظلم کی تاریخ رقم کی گئی تھی
آج پوری دنیا کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی عرب ، سوریہ،فلسطین،یمن، بحرین سے لیکر متعدد افریقی ممالک میں بے گناہوں پر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے
اس کا سلسلہ کچھ اس طرح چل نکلا ہے کہ ہر دور میں ظلم و ستم نے بے گناہ انسانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا فرعونیت اور نمرودیت سے لیکر آج تک کا عالمی استعمار اور اس کے آلہ کار کائنات کے کمزور اور پچھڑے ہوئے انسانوں کو ظلم و ستم کا شکار بنا رہا ہے آج پوری دنیا کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی عرب ، سوریہ،فلسطین،یمن، بحرین سے لیکر متعدد افریقی ممالک میں بے گناہوں پر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں اور عالمی برادری ہے کہ جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور پوری انسانیت کی طرف سے عام طور پر اور ملت اسلامیہ کی طرف سے خاص طور سے خاموشی نے دشمنوں کے حوصلے بڑھا رکھے ہیں اور حد یہ ہے کہ اب استعمار کے زر خرید غلام عرب ممالک کے سربراہ اپنی انسانی اور اسلامی ذمہ داری کو بھول کر استعمار کی غلامی میں آخری حد تک گر چکے ہیں اور اسلامی ممالک کے عظیم سرمائے کو عالمی استعمار اور اسکی ناجائز اولاد اسرائیل کی خوشنودی کے لئے نچھا ور کر رہے ہیں جس میں سر فہرست اسلام کے مقدس شہروں پر نا جائزقابض سعودی عرب کے حکمراں ہیں جو ایک طرف حرمین شریفین کی خدمت کا دم بھرتے ہیں تو دوسری طرف غاصب اسرائیل کے تلوے چاٹنے میں اپنی بقاء محسوس کر تے ہیں۔
مدیر جامعۃ المصطفی الامامیہ و جامعہ ام الزہرا نے غصب فلسطین کی مختصر روداد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب:سائٹ ۱۸۹۸ء میں آسٹریا میں یہودی صحافی و مصنف “تھیوڈور ہرٹزل” نے “یہودی ریاست” کے زیر عنوان ایک کتاب شائع کی۔ اس نے اس کتاب میں ایک یہودی ریاست کے قیام کے حق میں دلائل دیئے اور صہیونی تحریک کا خیرمقدم کرنے کے لئے مغربی رائے عامہ کو ایک فکری ماحول فراہم کیا۔ چونکہ یہودیوں کو جرمنی میں سب سے زیادہ سیاسی اثر و رسوخ حاصل اور سرگرمیوں کا ماحول فراہم تھا لہذا ہرٹزل نے ابتداء میں جرمنی کے وسیلہ سےـ یہودیوں کے فلسطین میں بسانے کے سلسلے میں ـ عثمانی سلطان کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی لیکن بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مسلمانوں کے اعلان جہاد سمیت متعدد اسباب و عوامل کی بنا پر ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی چنانچہ یہودیوں نےبرطانیہ کےدامن میں پناہ لی۔
یہودی عمائدین نے برطانیہ کے نمائندے سائکس کے ساتھ مذاکرات میں، انہیں یقین دلایا کہ “لیگ آف نیشنز” میں فلسطین کے برطانیہ کے زیر سرپرستی یا پروٹیکٹوریٹ ہونے کی حمایت کریں گے اور فرانس یا کسی بھی دوسرے ملک کو اسے اپنے زیر سرپرستی لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دوسری طرف سے انھوں نے سائکس کو تمام تر مراعاتیں دینے کا وعدہ کیا اور عہد کیا کہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو اتحادیوں کے حق میں اور جرمنی کے خلاف، مداخلت پر آمادہ کریں گے۔ ان اقدامات سے درحقیقت ۲ نومبر ۱۹۱۷ کے بالفور اعلامیہ کے لئے امکان فراہم کیا گیا۔ برطانیہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ بالفور نے لارڈ لوچرڈ کے نام اپنے ایک خط میں ایک قومی یہودی وطن کی تشکیل کی خوشخبری دی۔ یہ خط اعلامیۂ بالفور کے عنوان سے مشہور ہوا۔ اعلامیہ میں کہا گیا تھا:’’فلسطین میں یہودی قومی وطن کی تشکیل کے بابت حکومت برطانیہ کے اشتیاقِ خاص کے پیش نظر، یہ حکومت اس ہدف کے حصول اور اس کے لئے وسائل کی فراہمی کے لئے کوشش کرے گی‘‘۔
اعلامیہ بالفور کی اشاعت کے بعد، برطانوی افواج نے ۹ دسمبر ۱۹۱۷ کو بیت المقدس پر قبضہ کیا اور۱۹۱۸ءکے موسم خزاں تک تمام عثمانی افواج کو فلسطین میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا اور پوری سرزمین فلسطین پر ان کا قبضہ ہوگیا۔ ۱۹۱۹ میں فرانس، برطانیہ اور اٹلی کے مندوبین کی موجودگی میں “سان ریمو” کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں فلسطین کے حالات کا جامع جائزہ لینے کے بعد فیصلہ ہوا کہ مذکورہ ممالک فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کی حمایت کرتے ہیں۔
مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۲۲ کو لیگ آف نیشنز کونسل میں فلسطین کے برطانیہ کے زیر سرپرستی ملک کے قانون کو باضابطہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ برطانیہ کی حمایت کے تحت، عربوں کی مخالفت کے باوجود، یہودیوں کی فلسطین میں ہجرت کے سلسلے کی رفتار میں ـ جو کئی سال پیشتر شروع ہوچکی تھی ـ اضافہ ہوا۔ ادھر ہٹلر کی یہود مخالف پالیسیوں کی وجہ سے بھی فلسطین آنے والے یہودی مہاجرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ ۱۹۴۶ میں فلسطین کی مجموعی آبادی انیس لاکھ بہتر ہزار پانچ سو پچاس تھی جن میں چھ لاکھ آٹھ ہزار یہودی پناہ گزین شامل تھے، جبکہ ۱۹۱۸ میں فلسطین میں یہودی مہاجرین کی تعداد ۵۶۰۰۰ سے زیادہ نہ تھی۔ فلسطین میں آ بسنے والے یہودی مہاجرین کی زیادہ تر تعداد کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے تھا۔
فلسطین میں یہودی آبادی میں اضافے اور علاقے میں ان کی سیاسی قوت بڑھ جانے کی بنا پر عربوں نے برطانیہ پر دباؤ بڑھا دیا کہ وہ یہودیوں کی حمایت نہ کرے۔ اس اثناء میں یہودیوں نے فلسطین میں ایک خودمختار لشکر اور ایک خفیہ فوج بنام “ہاگانا” تیار کی۔ اس خفیہ فوج کی ذمہ داری مخالفین پر قاتلانہ حملے کرنا اور عرب آبادی کے خلاف جنگ کرنا تھی۔
برطانیہ نے عرب آبادیوں کو خاموش کرنے اور ان کی بغاوت کا سدباب کرنے کی غرض سے ۱۹۳۹ میں “کتابِ سفید” شائع کرکے اعلان کیا کہ یہودیوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ فلسطین میں ایک قومی مرکز قائم کریں، لیکن انہیں خودمختار حکومت قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس اعلامیہ نے یہودیوں میں غیظ و غضب کی لہر دوڑا دی اور انھوں نے انگریزوں کی رائے کے برعکس، اپنے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا؛ تا ہم اسی زمانے میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا اور فلسطین کا مسئلہ جنگ کی خبروں تلے دب کر رہ گیا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سنہ ۱۹۴۷ میں برطانیہ نے اگلے سال (۱۹۴۸ میں) فلسطین سے اپنے انخلاء اور فلسطین کا انتظام اقوام متحدہ کے سپرد کرنے کا اعلان کردیا۔ ۲۹ نومبر سنہ ۱۹۴۷ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قراداد کے تحت فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور اس سرزمین کے ۴۳ فیصد حصے کو عربوں اور ۵۶ فیصد حصے کو یہودیوں کے حوالے کیا اور بیت المقدس کو بین الاقوامی عملداری میں دیا گیا۔
مورخہ ۱۵ مئی کو فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کی مدت اختتام پذیر ہوئی تو فلسطین کے تمام ادارے نیست و نابود ہوچکے تھے اور انگریزوں کے انخلاء سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لئے کوئی بھی ادارہ موجود نہیں تھا۔ یہودیوں نے ـ جو اقوام متحدہ کے تقسیم کردہ علاقوں پر مسلط ہوچکے تھے ـ ایک عبوری حکومتی کونسل تشکیل دی جو ۳۸ اراکین پر مشتمل تھی اور یہ کونسل، ایک تیرہ رکنی کابینہ کا انتخاب عمل میں لائی۔ اسی دن ڈیوڈ بن گورین نے ـ جو بعد میں وزیر اعظم بنا ـ وزارت دفاع کا قلمدان سنبھال لیا اور کابینہ کے قیام کا اعلان کردیا۔
اس اقدام کے چند ہی گھنٹے بعد امریکہ اور سوویت روس نے اس ریاست کو تسلیم کرلیا۔ اور یہودی ایجنسی نے اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے اعلامیے کے ضمن میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۱۸۱ کو یہودی عوام کی طرف سے خودمختار ریاست کی تشکیل کا حق تسلیم کئے جانے کا اظہار قرار دیا۔
اس اعلامیہ میں البتہ اسرائیل کے لئے کوئی سرحد متعین نہیں کی گئی تھی لیکن یہودی ایجنسی نے امریکی صدر ٹرومین کے نام اپنے پیغام میں انہیں اسرائیل کے باضابطہ تسلیم کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی کا اعلامیہ ان سرحدوں تک محدود ہے جن کا تعین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کی منظور کردہ قرارداد میں ہوا تھا۔ قرارداد نمبر ۱۸۱ کے ساتھ ساتھ، یہودی ایجنسی نے فلسطین کے سلسلے میں اپنے دعوے کے ضمن میں مقدرات کے فیصلے اور فلسطین پر قدیم یہودی مالکیت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور مختلف ملکوں اور اقوام میں سے ہجرت کرنے والے یہودیوں کو قدیم عبرانیوں کا جانشین قرار دیا تھا۔
اسی دن، بوقت شام، مصر، شام، اردن اور لبنان نے نو ظہور اسرائیلی ریاست کے خلاف اعلان جنگ کیا اور یہ عرب ـ اسرائیل کی پہلی خونریز جنگ تھی۔
اسرائیل کے قیام کے اعلامیہ میں فلسطینی عوام ـ جو ۹۷ فیصد سرزمینوں کے مالک تھےـ کو “غیر یہودی معاشروں” کے تحت سرے سے نظر انداز کیا گیا تھا جس کے باعث پوری دنیا کے یہودی غیر قانونی طور پر فلسطین کی طرف آنا شروع ہوئے اور امریکی صدر ولسن نے بھی اس غیرقانونی ہجرت کی حمایت کا اعلان کیا۔ دوسری طرف سے فلسطین کے خون بھرے واقعات کی وجہ سے عالمی رائے عامہ میں نفرت کی لہر دوڑ گئی اور یہودیوں کی نوزائیدہ ریاست کو شدید تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
مولانا نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں مقیم صہیونی یہودیوں نے بھی اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرکے یہودی ریاست کی تشکیل پر زور دیا۔ فلسطینیوں پر تشدد اور ان کے آزار و اذیت کے باعث صہیونیوں کے خلاف عالمی غیظ و غضب میں شدت آئی اورانھوں نے اقوام متحدہ سے احتجاج کیا۔ قبل ازیں ـ یعنی ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کو ـ امریکہ اور سوویت روس نے اپنے ایک غیر معمولی اور نادر مفاہمت نامے کے تحت فلسطینی سرزمین کی دو عرب اور یہودی حصوں میں تقسیم کے منصوبے پر عملدرآمد کیا اور اقوام متحدہ سے کہا کہ وہ اس منصوبے کو منظور کرلے؛ جس نے عالم اسلام میں غصے اور نفرت کی لہر دوڑا دی اور سابق سوویت روس اور صہیونیوں کے خلاف بیت المقدس، یافا، حیفا اور فلسطین کے کئی دوسرے شہروں اور کئی اسلامی ممالک میں خونی مظاہرے ہوئے۔
مولانا حمید الحسن زیدی نے غاصب اسرائیل کے قیام کا با قاعدہ اعلان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مورخہ ۸ دسمبر ۱۹۴۷ کو عرب لیگ نے ایک نشست میں اقوام متحدہ کے خائنانہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے یہودی صہیونیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ فیصلے کئے۔ سنہ ۱۹۴۸ میں مصری طیاروں نے ابتداء میں اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کو بمباری کا نشانہ بنایا اور لبنان کی بکتر بند یونٹوں نے شمال سے، شام اور اردن نے مشرق اور مصر نے مغرب سے فلسطین کی طرف عزیمت کی۔
ابتدائی دنوں میں اردن کی افواج نے بیت المقدس کے ایک بڑے حصے کو یہودی قبضے سے آزاد کرایا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دیکھا کہ جنگ یہودی غاصبوں کے نقصان میں ہے، تو اس نے ۲ جون ۱۹۴۸ کو ـ جبکہ جنگ کے آغاز سے ۱۹ دن گذر رہے تھے ـ جنگ بندی کی اپیل کی۔ یہودیوں نے اس جنگ بندی سے فائدہ اٹھایا اور امریکہ اور چیکوسلواکیہ کی مدد سے اپنے فوجی دستوں کو کیل کانٹے سے لیس کیا اور اسی سال ماہ ستمبر میں ـ یعنی صرف تین ماہ بعد ـ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا اور فلسطین کے اندر “ہاگانا” یا “یہودی حملہ آور اور دفاعی فوج” نے علاقہ “عکا” پر حملہ کیا جہاں حیفا اور دوسرے عرب علاقوں کے ہزاروں عربوں نے پناہ لی تھی اوران پر زبردست فائرنگ کی۔ اور بعدازاں ہاگانہ کے ساتویں بریگیڈ نے گھمسان کی لڑائی کے بعد شہر “ناصرہ” پر قبضہ کرلیا اور مصر کی طرف پیشقدمی کا آغاز کیا۔
گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دوسری جنگ میں عرب افواج مشترکہ کمان اور ہماہنگی نہ ہونے کے باعث استقامت نہ دکھا سکے جس کے نتیجے میں اسلامی سرزمینوں کا ۶۰۰۰ کلومیٹر کا رقبہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا اور یہ جنگ اقوام متحدہ کی مداخلت سے اختتام پذیر ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ۱۹۴۹ ء بہار کے موسم میں اسرائیل نے مصر، لبنان، ماورائے اردن اور شام کے ساتھ الگ الگ مذاکرات کرکے اختتام جنگ کے مفاہمت ناموں پر دستخط کئے۔ لیکن یہ مفاہمت نامے بھی دیرپا ثابت نہ ہوئے اور اسرائیلی ریاست کے حملے وقتاً فوقتاً جاری رہے۔ اسی سال غاصب یہودی ریاست نے فلسطین کے ۴۰۰ شہروں اور دیہاتوں کو ویراں کردیا اور ویرانوں پر مصنوعی جنگل کاری کا اہتمام کیا۔
غاصب یہودی ریاست نے فلسطین کے ۴۰۰ شہروں اور دیہاتوں کو ویراں کردیا اور ویرانوں پر مصنوعی جنگل کاری کا اہتمام کیا۔
چنانچہ اس جنگ میں ۱۰ لاکھ فلسطینی بےگھر ہوکر عرب ممالک میں پناہ گزین ہوئے اور فریقین کے ہزاروں سپاہی ہلاک اور زخمی ہوئے اور یہودی فلسطین کے ۷۸ فیصد حصے پر مسلط ہوگئے۔ دوسری طرف سے دنیا بھر سے یہودیوں کی فلسطین آمد میں اضافہ ہوا اور یہ سلسلہ ۱۹۵۱ میں اپنے عروج کو پہنچا۔
جنگ اور فلسطینیوں کے قتل اور ان کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں نیز اپنی آبائی سرزمینوں سے ان کے مسلسل فرار کے نتیجے میں فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ معرض وجود میں آیا اور یہ مسئلہ ۱۹۶۷ کی ۶ روزہ عرب ـ اسرائیل جنگ کا سبب بنا۔
اس جنگ میں اعراب کی شکست کے بعد فلسطینیوں کی طرف سے چھاپامار لڑائی شروع ہوئی جسے۱۹۷۰ء میں اسرائیلی حملوں کے نتیجہ میں فلسطین کے باہر سوریا اور لبنان منتقل ہونا پڑا ۱۹۸۷ء میں مصر نے خیانت کر تے ہوئے اسرائیل سے ساز باز کر لی اور اس طرح بظاہر اسرائیل کو کسی بڑے دشمن کا سامنا نہیں رہ گیا اس کے بعد روز بروز عربوں کے ذریعہ اسرائیل سے مقابلہ کی کیفیت، خیانت یا سستی کا شکار ہوتی چلی گئی جس کے نتیجہ میں وقتا ً فوقتاً اسرائیل کی ظالم حکومت کے ذریعہ نہتے فلسطینی عوام منجملہ عورتوں اور بچوں کی قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رہا لاکھوں بے گناہ مارے گئے یا آوارہ وطنی کی زندگی بسر کر نے پر مجبور ہوگئے۔
مولانا حمید الحسن زیدی نے عالم اسلام کی عالمانہ قیادت اور اسرائیل کی بوکھلا ہٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اعراب کی سست ہوتی ہوئی سیاست اور عرب ممالک کے ذلت آمیز رویے نے اسرائیل کے حوصلے بلند کر رکھے تھے اور پوری اسلامی دنیا پر اپنی حکومت کے خواب دیکھنے لگے کہ امام خمینی(رح) کی رہبری میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے اسرائیل منصوبہ پر پانی پھیر دیا امام خمینی(رح) نے اسرائیلی سفارتخانہ بند کرکے فلسطینی سفارتخانہ قائم کیا اور انقلاب کی کامیابی کے ایک سال کے اندر ہی ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس اور غاصب اسرائیل کے خلاف احتجاج کا دن قرار دیا اس وقت سے لیکر آج تک ہر سال ماہ مبارک رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے احتجاج کیاجاتاجس نے غاصب اسرائیل کی نیند اڑا رکھی ہے۔
ہر سال کا یہ احتجاج اسے یہ احساس دلانے کے لئے کافی ہے کہ اسرائیل کی حکومت غاصبانہ ہے اور یہ سر زمین اس کی اپنی نہیں ہے اپنی ڈوبتی ناؤ دیکھ کر اسرائیل نےاپنےسب سے بڑی حامی امریکہ کےذریعہ عربوں پر اپناشکنجہ تیز کرتے ہوئے اپنے جارحانہ اقدامات میں ان کی حمایت حاصل کر لی۔ اور علی الاعلان مسلمانوں کے قبلہ اول کو اسرائیلی دار الحکومت قرار دینے کا اعلان کیا جس میں پوری دنیا کے آزاد ضمیر ممالک منجملہ عزیز وطن ہندوستان نے امریکہ کی مخالفت کی لیکن ضمیر فروش سعودی حکمرانوں نے اپنے آقا کی خوشنودی کے لئے اس کے اس شرمناک اقدام کے سامنے بھی کتوں کی طرح دم ہلاکر اپنی حمایت کا اعلان کر دیا ۔جس کے نتیجہ میں دنیا دیکھتی رہتی ہے کے اسرائیل کے مسلح افواج کس طرح نہتے بچوں اور عورتوں پر گولہ باری کرکے انکا خون بہا رہتے ہیں ہم ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ میں امریکہ ،اسرائیل اور تمام دنیا کے ظالموں سے اظہار براءت اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدرددی کرتے ہیں۔
مولانا نے مزید کہا کہ اس سال عالمی وبا جو غالبا انسانیت کے خلاف انھیں انسان دشمن سر پھروں میں سے کسی کی سازش یا ان کے ذرہعہ قدرت سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے اس کی وجہ سے جہاں ماہ مبارک کی بہت سی اجتماعی عبادتیں نہیں انجام پاسکیں شاید قدس کی آزادی کے مطالبہ کے لیے منایا جانے والا قدس ڈے بھی اس طرح نہ منایا جاسکے لیکن جس طرح باقی عبادتیں کسی نہ کسی صوت انجام پائی ہیں ظالموں سے اظہار نفرت کا یہ دن بھی ظالموں اور غاصبوں سے قلبی 'قلمی اظہار نفرت کے ساتھ منایا جائے گا اور انفرادی مصلای عبادت سے سہی دشمن کے خلاف ایک ساتھ مظلوموں کی آہیں اوربددعائیں جب خدا کی بارگاہ میں پہونچیں گی توظالموں کی شام اور مظلوموں کی روشن صبح کا مژدہ ضرور ملے گا۔
رہبر معظم آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای اور رہبر مقاومت اسلامی حضرت حجۃ الاسلام والمسلمین آقائے حسن نصر اللہ کی مدبرانہ سیاست ،فعالیت ، سوجھ بوجھ ،اور سر براہی میں ملت مسلمہ کا سراونچاہے
آخر میں کہا کہ خدا سلامت رکھے رہبر معظم آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای اور رہبر مقاومت اسلامی حضرت حجۃ الاسلام والمسلمین آقائے حسن نصر اللہ کو جن کی مدبرانہ سیاست ،فعالیت ، سوجھ بوجھ ،اور سر براہی میں ملت مسلمہ کا سراونچاہے اور ظلم و جور کےبانی ذلیل و رسوا ہیں ۔امیدہے کہ جلد ہی اسرائیل کی نابودی اور فلسطین کی آزادی کا مژدہ امام عصر (عج)کے ظہور کی خوش خبری کے ساتھ امت اسلامی کے لئے حقیقی عید کا پیغام لائے گا اور یہود کی طرح سعود بھی ذلت و رسوائی کےساتھ اپنا تباہ کن انجام دیکھیں گے۔