تجزیہ نگار: سید نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | حماس کے "طوفان الاقصی" آپریشن کے مشرق وسطی کے بدلتے منظر نامے پر نظر رکھنے والے اکثر مبصرین و تجزیہ نگار افراد حالات پر نظریں جمائے اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ناظرین و قارئین تک حقائق پر مبنی تجزیاتی و معلوماتی مواد پیش کر سکیں ان میں بعض وہ ہیں جو یوٹیوب پر کٹ اور پیسٹ کے ذریعہ اپنے اپنے حساب سے جاذب ویڈیوز اپڈیٹ کر کے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر رہے ہیں تو کچھ وہ ہیں جو عرق ریزی کے ساتھ مشرق وسطی کی تاریخ اور صہیونیت کے کردار پر بھی گفتگو کر رہے ہیں اور اس بات کو تحقیق کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ موجودہ حالات کی ذمہ داری حماس پر عائد نہیں ہوتی جیسا کہ کہ کچھ بکاو نیوز چینلز بیان کر رہے ہیں اور حالیہ خونریزی و غزہ کی تباہی کا ذمہ دار حماس کو بتا رہے ہیں بلکہ وہ حماس کے" طوفان الاقصی" آپریشن کو صہیونی جارحیت کی لگائی فصل کے طور پر دیکھتے ہوئے اس بات کو بیان کر رہے ہیں کہ حماس نے جو کچھ کیا وہ دراصل وہ بیج تھا جو صہیونیت نے بویا تھا اور ایک نہ ایک دن ایسا ہونا ہی تھا۔ جب آپ کسی سے اس کا گھر بار چھین کر اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دوگے تو کبھی تو وہ انتقام کے لئے اٹھے گا۔حالیہ کچھ دنوں میں بھی ایسا ہی ہوا برسوں سے صہیونی جارحیت کے چلتے لاشے اٹھانے والوں نے ایک بار تہیہ کر لیا کہ ہم بھی لاشیں اٹھوا سکتے ہیں سو اب جو کچھ ہے وہ سامنے ہے ۔صہیونیت کے مزاج اور اسکی شدت پسندانہ سوچ کے پیش نظر واضح ہو چکا ہے کہ اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے یہ بات مشرق وسطی کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے ہر صاحب فکر کی ہے ۔ صہیونیت خود ایک بحران ہے نتیجہ بحرانوں کی پیدائش ہی اس سے ممکن ہے اس لئے کہ بحران کے ذریعہ مسئلہ کا حل نہیں ہوتا ایک نیا بحران کھڑا ہوتا ہے صہیونیت کے بحران پر خود یہودی مصنف قلم اٹھائے اور ایک مسلمان بات کرے دونوں میں بڑا فرق ہے آئیے صہیونیت کے بحران کو ایک یہودی مصنف کی نظر سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں شاید اس طرح بے طرفی کے ساتھ حقیقت پر مبنی کسی نظریہ تک پہنچ سکیں۔
صہیونیت کا بحران "The Crisis of Zionism" ایک امریکی یہودی پیٹر الیکزینڈر بیرناٹ (1) کی لکھی ہوئی ایسی کتاب ہے جس کے چھپ کر آتے ہی شدت پسند یہودیوں نے شدید مخالفت کی اور موجودہ اسرائیلی و امریکی پالیسی پر کھلے الفاظ میں کڑی تنقید کی بنیاد پر صہیونی عناصر نے جم کر احتجاج کیا جبکہ اس احتجاج کے جواب میں پیٹر کا کہنا تھا کہ جب آپ تنقید کریں گے وہ بھی حکومت کی پالیسی پر تو بائیکاٹ توآپ کا حق ہی ہے کیونکہ آپ نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے جس پر کوئی کچھ سننا پسند نہیں کرتا۔
علاوہ از ایں پیٹر کا ماننا ہے کہ اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جس کے شدت پسندانہ نظریات کی بنیاد پر اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہے انہوں نے اگرچہ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی حملے کی حمایت کی تھی لیکن بعد میں اسے ایک پریشان کن غلطی کا نام دیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس حملے کے نقصانات بہت زیادہ تھے جس کی بنیاد پر امریکہ کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، صہیونیت کا بحران نامی کتاب، ایک ایسی کتاب ہے جس میں انہوں نے اپنی تنقید کا رخ یہودی سربراہوں اور امریکی اہلکاروں کی طرف موڑتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جس ڈگر پر امریکہ و اسرائیل چل رہے ہیں اس کی انتہا پر نہ صرف یہ کہ کوئی منزل نہیں ہے بلکہ یہ وہ راستہ ہے جہاں اسرائیل کے لئے کوئی مستقبل نہیں ہے۔ یہودیوں کی مخالفت کے باوجود امریکہ کے پڑھے لکھے طبقے میں اس کتاب کا وسیع خیرمقدم، کتاب کے فکر انگیز پہلو کا بیان گر ہے ۔
مصنف کا اجمالی تعارف:
پیٹر بینارٹ (Peter Beinart) ریاست میساچوسٹس (Massachusetts) کے شہر کیمبرج میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین یہودی تھے جو جنوبی افریقہ سے ہجرت کرکے امریکہ آئے ہوئے تھے ان کے دادا کا تعلق روس جبکہ دادی کا مصر سے بتایا جاتا ہے (2) انہوں نے اپنی تعلیم کا آغاز امریکہ ہی میں بکنگھم براؤنے اینڈ نیکولز اسکول (3) سے کیا۔ پیٹر بینارٹ نے یلے یونیورسٹی (4) سے تاریخ اور سیاسیات کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۹۳ میں وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلقات عامہ میں ایم فل کیا۔ (5) انہیں یہودیوں کے شدت پسند طبقے کے ناقد کے طور پر جانا جاتا ہے جبکہ ان کے طویل صحافتی پس منظر میں دی نیو ریپبلک ، کے مینجنگ ڈائریکٹر کے طور خدمات، نیز امریکہ کے مختلف بڑے اخباروں میں کالم نویسی شامل ہے جبکہ نیویارک یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات و صحافت کے شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات قابل ذکر ہیں۔
پیٹر روزنامہ ھاآرتض Haaretz (6)کے بھی سینئر کالم نگار رہے ہیں جس پر ان کی ایک تحریر تنازعے کا شکار ہوئی تھی۔ اٹلانٹک اور نیشنل جرنل جیسی سائٹس و سیاسی مجلات میں بھی ان کا تعاون رہا ہے۔ انہیں ۲۰۱۲ ء میں فارن پالیسی نے دنیا کے ۱۰۰ بڑے دانشوروں اور مفکرین کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ (7) چھوٹی سی عمر میں بڑی کامیابیوں کو اپنا مقدر بنا لینے کی بنا پر انہیں مخصوص لقب سے بھی نوازا گیا (8) صہیونزم کے بحران کے ‘’The Crisis of Zionism’ جیسی کتاب کے علاوہ مصنف نے اور بھی کتب تحریر کی ہیں (9) جن میں میں الگ الگ زایہ سے کہیں اپنی حکومت پر تنقید ہے تو کہیں یہ سمجھانے کی کوشش ہے کہ اگر ہم صحیح حکمت عملی اختیار کریں تو امریکہ کا دنیا پر کھویا ہوا رسوخ دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں ۔
انہوں نے 2010ء میں تحریر کئے گئے اپنے ایک مضمون لکھا "امریکی یہودیوں کی ناکامی"، میں لبرازم و صہیونزم کے درمیان کشیدگی کے سلسلہ سے یہ دلیل دی ہے کہ امریکہ میں لبرل ازم اور صیہونیزم کے درمیان کشیدگی دو تاریخی منسلک تصورات کو الگ کر سکتی ہے. انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے فلسطینی علاقوں کے قبضے پر قابو پانے کے ذریعہ امریکی یہودی رہنماؤں کو چھوٹے امریکی یہودیوں کی نسلوں سے الگ کرنے کا خطرہ ہوتا ہے جو قبضے کو اخلاقی طور پر غلط ثابت کرتا ہے جبکہ ان کی لبرل سیاست سے مطابقت رکھتا ہے۔
پیٹربینارٹ، کتاب کی اشاعت پر رد عمل اور اسکا جائزہ :
جیسا کہ ہم نے پیشتر بیان کیا مشہور یہودی مصنف اور نیویارک یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس و روزنامہ نگاری کےاستاد پیٹربینارٹ، کی جانب سے منظر عام پر آنے والی کتاب صہیونزم کا بحران ‘’The Crisis of Zionism’’جیسے ہی شایع ہوئی یہودی لابیوں کی جانب سے اس کی شدید مخالفت ہوئی کتاب کے مندرجات پر تو کسی اور وقت اشارہ کریں گے فی الحال دیکھتے ہیں کہ پیٹر نے اپنی
« صهیونیسم کا بحران» (10) نامی جس کتاب میں اسرائیلی سر براہوں اور امریکہ کے کرسی اقتدار پر براجمان ہونے والے صدر جمہوریہ حضرات کی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے شہر بسانے اور اسکی جانب سے ٹاون سٹیز کی تعمیرات کی حمایت پر جس انداز سے کڑی تنقید کی ہے اسکا جائزہ خود امریکہ میں کس طرح لیا گیا ہے ؟ ۔
صہیونزم کے بحران پر نیشن اخبار کا جائزہ :
''نیشن اخبار ،، کی تحریر کے مطابق نیویارک میں بروکلین کالج کے استاد ایرک الٹرمین (Eric Alterman) (11) نے اپنے ایک مقالے میں امریکی ذرائع ابلاغ کی جانب سے کتاب "صہیونیت کا بحران" کی اشاعت پر سامنے آنے والے شدید رد عمل کا جائزہ لیا ہے۔
الٹرمین اپنے مقالے میں لکھتے ہیں: "امریکہ میں رہنے والے یہودی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اسرائیلی ریاست ایک ایسے ناپائدار و بےبس شیئے میں تبدیل ہو گئی ہے جس کا کام ہر ممکنہ طریقے سے بس یہی بچا ہے کہ فلسطینیوں کی سر زمینوں پر تسلط جمائے رکھے"۔
الٹرمین آگے لکھتے ہیں: "اگر دیکھا جائے تو حقیقت میں بینارٹ کی کتاب ایک لمحۂ فکریہ ہے، ایک ٹہوکا ہے ان یہودیوں کے لئے جو غلط طرز فکر اختیار کئے ہوئے ہر چیز کو اپنی مٹھی میں بند کرنا چاہتے ہیں، ہر چیز پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور یہودیوں کی توقعات کے برخلاف انہوں نے ایسی پالیسی اپنا رکھی ہے کہ جو دیگر تمام ممالک میں بسنے والے یہودی اقلیتوں کی مشکلات کا سبب بن رہی ہے، اور انہیں دنیا بھر میں جو مشکلیں در پیش ہیں یہودیوں کی موجودہ پالیسی ہی ان کی جڑ ہے۔
اتنا ہی نہیں، بینارٹ نے یہودیوں کی موجودہ پالیسیوں کی مخالفت سے اس حد تک آگے بڑھ کر بات کی کہ اسرائیل کے ایک اخبار یدیعوت آحارونوت (12) کی رپورٹ کے مطابق ایک کتاب میلے کے منتظمین نے اٹلانٹا میں ان کے داخلے کی اجازت نہ دی اور وہ کتابی میلے میں حاضر نہ ہو سکے جبکہ طے شدہ پروگرام کے تحت انہیں اس میلے میں تقریر بھی کرنا تھی۔
پیٹر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا: تجربے نے یہ بات مجھے سکھائی ہے کہ جب اس طرح کھل کر تنقید کروگے تو اس طرح کے مقاطعے کا سامنا بھی کروگے۔
بینارٹ اٹلانٹا میں ہونے والے بک فیسٹیول کے ان ۵۲ لوگوں میں شامل تھے جنہیں اس فیسٹیول میں شرکت اور یہاں تقریر کے لئے طے شدہ پروگرام کے تحت مدعو کیا گیا تھا لیکن یہودی لابی کے دباؤ اور ان کی شدید مخالفت کی بنیاد پر اس فیسٹیول کے بانیان و مہتممین نے یہ فیصلہ کیا کہ بینارٹ کو ان کے افکارکے ساتھ فیسٹیول کے باہر ہی رکھا جائے۔
حواشی:
۔۔۔۔
1۔ Peter Alexander Beinart ، ۱۹۷۱ء امریکہ میں پیدا ہونے والے ایسے کالم نگار، صحافی اور لبرل سیاسی مبصر ہیں جنکی صحافتی ذمہ داریوں میں دی نیو ریپبلک The New Republic. کے ایڈیٹرنگ، ٹائم، نیویارک ٹائمز،دی نیو یارک رویو بکس میں کالم نویسی و تحریر شامل ہے، دی ڈیلی بسیٹ The Daily Beast. میں سینئر سیاسی کالم نگاری کے امریکی چینل سی ان ان پر بھی انکے پرگرام آتے رہے ہیں
2 ۔ Allison Hoffman (March 22, 2012). "Lightning Rod". Tablet Magazine. Retrieved March 24, 2012.
3۔ Buckingham Browne & Nichols School
4۔ Yale University یال یونیورسٹی نیو ہیون، کنیکٹیکٹ میں ایک مشہور نجی یونیورسٹی ہے۔ یہ آئیوی لیگ میں ہے اور امریکہ میں تیسری سب سے قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ یک مسیحی رہبرگروپ نے ۱۷۰۱ میں اسے ییل میں قائم کیا۔ شروع میں اس یونیورسٹی کا نام "یہ کولیجیٹ اسکول" تھا اوراس کا کام مسیحی رہبروں کو پڑھانا تھا۔ ١٧٧٧ کے بعد اسکول میں ہیومینٹیز اور سائنس پڑھانا شروع کیا گیا۔ چونکہ ۱۷۱۸ میں الیہو ییل، ایک ایسٹ انڈیا کمپنی کا تاجرتھا، اس نے اسکول کو پیسے اور کتابیں دیا،اس لیے اس اسکول کا نام "ییل کالج" رکھ دیا گیا۔ ١٨٦٩میں ییل امریکہ میں سب سے پہلا اسکول تھا جس نے پی ایچ ڈی کی پیشکش کریا۔ چونکہ ییل میں بہت ڈگری اور کورس پڑھاےٗ جارہے تھے اس لیے ۱۸۸۷ میں اس کا نام "ییل یونیورسٹی" رکھ دیا گیا۔
5۔ "Peter Beinart profile". The New America Foundation. Retrieved March 29, 2012
6۔ اسرائیل کا سب سے قدیمی عبری اخبار جو اسرائیل کی تشکیل سے ۳۰ سال پہلے یعنی ۱۹۱۹ سے مسلسل عبری و انگریزی دونوں زبانوں میں شایع ہو رہا ہے اور اسکا مرکزی آفس تل آبیب میں ہے یہ اخبار اپنے مخصوص زاویہ نظر کی بنیاد پر ساری دنیا میں پڑھا جانے والا ایسا اخبار ہے جسکے قاری دنیا بھر میں موجود ہیں بریتانیکا دائرۃ المعارف نے اس اخبار کو اسرائیل کا سب سے زیادہ اثر و رسوخ اور نفوذ رکھنے والا اخبار قرار دیا ہے رک : Encyclopædia Britannica Encyclopædia Britannica
7۔ "The FP Top 100 Global Thinkers". Foreign Policy. 28 November 2012. Archived from the original on 28 November 2012. Retrieved 28 November 2012.
8۔ George Packer (June 28, 2010). "Air America: Peter Beinart's The Icarus Syndrome..." The New Yorker. Retrieved March 25, 2012
9۔ The Crisis of Zionism. New York, NY: Times Books. 2012. ISBN 978-0-8050-9412-1.
The Icarus Syndrome: A History of American Hubris. New York, NY: HarperCollins. 2010. ISBN 978-0-06-145646-6.
Peter Beinart (June 10, 2010). "The Failure of the American Jewish Establishment". The New York Review of Books.
The Good Fight: Why Liberals—and Only Liberals—Can Win the War on Terror. New York, NY: HarperCollins. 2006. ISBN 978-0-06-084161-4.
10۔ صہیونزم کا بحران The Crisis of Zionism. New York, NY: Times Books. 2012. ISBN 978-0-8050-9412-1. انکی وہ کتاب ہے جو کافی تنازعہ کا شکار رہی اور یہودی لابی نے اسکی شدید مخالفت کی۔
11۔ بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے، اور سٹینفورڈ یونیورسٹی سے امریکی تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے
لبرل طرز فکر کے حامل امریکی مؤرخ، صحافی، مصنف، میڈیا کے ناقد، بلاگر، اوبروکلین کالج میں نیشنل میڈیا کے کالم نگار اور دس سے زیادہ کتابوں کے مصنف جنکے اہم آثار میں Sound & Fury: The Making of the Punditocracy (1992, 1993, 2000) ISBN 978-0-8014-8639-5
Who Speaks for America? Why Democracy Matters in Foreign Policy, (1998) ISBN 978-0-8014-3574-4
What Liberal Media? The Truth About Bias and the News (2003, 2004) ISBN 978-0-465-00177-4
A History of Official Deception and its Consequences, (2004, 2005) ISBN 978-0-670-03209-9
Why We're Liberals: A Handbook for Restoring America’s Most Important Ideals (2008, 2009) ISBN 978-0-14-311522-
KThe Cause: The Fight for American Liberalism from Franklin Roosevelt to Barack Obama with Kevin Mattson (2012) 978-0-67-002343-1کا نام لیا جا سکتا ہے
12۔ اسرائیل کا ۱۹۷۰ کی دہائی سے نکلنے والا سب سے زیادہ بکنے والا اخبار رک : The press in Israel", BBC (May 08, 2006). Yedioth Ahronoth (Hebrew: ידיעות אחרונות ، "Yedioth Aharonot Group: Private Company Information - Businessweek".