حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قرآن و روایات کی روشنی میں اہل ایمان پر لازم ہے کہ وہ نہ صرف اپنی، بلکہ اپنے اہل و عیال کی معنوی تربیت اور آخرت کی فلاح کے لیے بھی سنجیدہ کوشش کریں۔ قرآن کریم فرماتا ہے:
"یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَکُمْ وَأَهْلِیکُمْ نَارًا"
(اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ) — سورہ تحریم، آیہ ۶
یہ آیہ کریمہ واضح طور پر اس ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسان اپنی نجات کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی ہدایت و اصلاح کا بھی مکلف ہے۔
بے توجہی سے پرہیز
بسا اوقات ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ گھر کا سربراہ تو خود دیندار ہوتا ہے، نماز کا پابند ہوتا ہے، مگر اپنے بچوں یا بیوی کی دین ڈے غفلت پر خاموش رہتا ہے۔ اسی طرح ایک ماں خود باحجاب ہوتی ہے، لیکن بیٹی کی بدحجابی پر خاموشی اختیار کیے رکھتی ہے۔ دین اسلام اس قسم کی بے حسی اور لاپرواہی کو ہرگز قبول نہیں کرتا۔
اگر وہ ہماری بات نہ مانیں تو؟
ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا:
"میں تو خود کو بچا لیتا ہوں، لیکن اپنے اہل و عیال کو کیسے بچاؤں؟"
امام علیہ السلام نے فرمایا:
"جو چیز خدا نے واجب کی ہے، ان کو اس کا حکم دو اور جن سے خدا نے منع کیا ہے، ان سے روک دو۔ اگر وہ اطاعت کریں، تو تم نے ان کو بچا لیا اور اگر نافرمانی کریں، تو تم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔" — (الکافی، ج۵، ص۶۲)
ایک اور روایت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کو تسلی دی جو اپنے اہل خانہ کی ہدایت سے عاجز تھا:
"تم پر اتنا ہی کافی ہے کہ جو باتیں اپنے نفس سے کہتے ہو، وہی اپنے اہل سے بھی کہو۔"
لہذا اسلام کی نگاہ میں انسان صرف اپنی اصلاح پر قانع نہیں ہو سکتا۔ اہلِ ایمان پر واجب ہے کہ وہ اپنی اہل و عیال کی دینی تربیت اور نجات کی کوشش کرتے رہیں، اور کم از کم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی حد تک اپنی ذمہ داری ادا کریں، چاہے سامنے والے سنیں یا نہ سنیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم بے تفاوت نہ رہیں۔
آپ کا تبصرہ